یہ ہے موت کو گلے لگانے کا صحیح طریقہ

ایک اچھی زندگی کیسے گزاری جائے اس بارے میں تو بے شمار کتابیں لکھی گئی ہوں


Sajid Ali Sajid April 10, 2016
[email protected]

ایک اچھی زندگی کیسے گزاری جائے اس بارے میں تو بے شمار کتابیں لکھی گئی ہوں گی مگر سامنے نظر آنے والی موت کو کیسے گلے لگایا جائے، اس بارے میں نسبتاً کم کتابیں تحریر کی گئی ہیں یا کم ازکم ہماری نظر سے نہیں گزری ہیں، اسی لیے ہمارے اندر اس وقت دلچسپی اور تحیر کی لہر دوڑ گئی جب ہم نے ایک مصنفہ کیٹی روائفے کی کتاب دی وائلٹ آوور The Violet Hours (عظیم رائٹرز اپنی زندگی کے آخری ایام گزارتے ہوئے) پر اولیویا لینگ کا تبصرہ پڑھا۔ سچی بات ہے ہم اس تبصرے اور اپنے قارئین کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہتے، لہٰذا تھوڑے سے اختصار کے ساتھ اسے تقریباً من و عن پیش کر رہے ہیں۔

بارہ سال کی عمر میں کیٹی روائف کو نمونیہ ہوگیا، وہ کتنی بیمار ہیں اس کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھیں، لہٰذا جیسے تیسے اسکول جاتی رہیں، بخار کی کیفیت میں ہوم ورک کرتی رہیں، حتیٰ کہ ان کی کھانسی میں بلڈ آنے لگا۔ انھوں نے یہ بات بھی والدین سے چھپائی حتیٰ کہ انھیں ایمرجنسی میں اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا آدھا پھیپھڑا نکال دیا گیا۔ یہ مرحلہ وہ تھا جب انھیں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا پڑا اور دنیا میں لوگوں کے مرنے مارنے پر لکھی جانے والی کتابوں سے جنون کی حد تک لگاؤ ہوگیا۔

موت کا سامنا کرنے کی خواہش کئی دہائیوں تک ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی اور اس وقت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی جب ان کے والد 81 سال کی عمر میں اپنی بلڈنگ کے سنگ مرمر کے فرش پر ایسے گرے کہ اٹھ نہ سکے۔ آخر مرنے کا مطلب کیا ہے؟ آخر موت کا سامنا کس طرح کیا جائے؟ کیا مرنے کا کوئی اچھا طریقہ بھی ہے، جیساکہ قرون وسطیٰ دور کے آرس موزینڈی نے تجویز کیا تھا یا ہمیں ہر قیمت پر موت کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے؟

مسز کیٹی روائف نے اپنی کتاب وائلٹ اوور میں اپنے تئیں غیر جذباتی انداز میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد سے وہ ''فارنسک انویسٹی گیشن'' کے ذریعے چھ بڑے رائٹرز سوزن سونتاگ، سگمنڈ فرائڈ، جون اپ ڈائیک، ڈائیلان تھامس، موریس سینڈک اور جیمز سالٹر کی زندگیوں کے آخری ایام میں داخل ہوئی ہیں۔

میں نے ایسے لوگوں کو منتخب کیا ہے، وہ لکھتی ہیں، جو پاگل پن کی حد تک منہ پھٹ، جن میں بلا کی غیر معمولی قوت تخیل یا دانشورانہ شدت تھی، جو موت سے محاذ آرائی کو الفاظ بلکہ ایک کیس میں امیجز کا روپ دے سکتے تھے، ایک ایسے انداز سے جو ہم میں سے کوئی اختیار نہیں کرسکتا یا اختیار نہیں کرے گا مثلاً سونتاگ اس گروپ کی سرغنہ ہیں، وہ دو مرتبہ سرطان کی انتہائی بدترین شکل کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد زندہ بچ گئیں اور انھوں نے بڑی کامیابی سے جارحانہ علاج کی غیر معمولی حکمت عملی کو اپنایا۔

تیسری بار مارچ میں تشخیص ہوئی کہ وہ ایک مہلک بلڈ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہیں، اس بار سب کچھ ان کے ناموافق تھا ان کے لیے تکلیف کو رد کرنا بہت مشکل تھا یا خود کو قائل کرنا کہ انچ بائی انچ سہی وہ موت کی طرف بڑھ رہی ہیں وہ ریڈی ایشن کے عذاب سے گزریں، پھر ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا۔ علاج بے حد تکلیف دہ تھا اور اس سے بدتر یہ کہ انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔

ایک ایک کرکے سونتاگ کی سپورٹ ٹیم کے ارکان کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی مریضہ زندہ نہیں بچے گی، مگر سونتاگ نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے آخری انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں، اس سے ان کے احساسات خبر گیری کرنیوالوں سے مکمل طور پر متصادم ہوگئے، جن میں ان کے گھر والے، دوست، چاہنے والے اور تنخواہ پر کام کرنیوالا اسٹاف شامل تھا۔

سونتاگ کی یہ بھرپور مزاحمت غیر معمولی ہے، زیادہ تر رائٹرز کے اپنے منطقی انجام سے مراسم خاصے پیچیدہ رہے ہیں، مثلاً فرائیڈ کو لیجیے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، وہ منہ کے سرطان میں مبتلا تھے، مگر اسموکنگ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے جو مسز روائف کے خیال میں فرائیڈ کی ڈیتھ ڈرائیو کا یہ مثالی اظہار ہے، ایک ایسا شخص جو اس گئے گزرے عالم میں بھی ہر سانس کے ذریعے اپنے محبوب سگاروں کا زہر اپنے اندر لے جا رہا ہے۔

اب ذرا ایک اور رائٹر ڈائیلان تھامس کے آخری ایام ملاحظہ فرمائیے جو 1953 کے موسم خزاں میں للچائی ہوئی نظروں سے موت کو دیکھ رہے تھے۔ مسز روائف کے مطابق اس عالم میں بھی وہ شراب خانوں میں جام پر جام چڑھا رہے تھے اور کسی بھی پارٹی کی میزبان سے رومانس لڑانے کا موقع نہیں گنواتے، جب کہ ان کی اہلیہ باہر ان کا انتظار کر رہی ہوتیں، پھر کچھ ہی عرصے بعد لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ وہ سینٹ ونسنیٹ اسپتال میں بستر مرگ پر دراز تھے اور تقریباً نیویارک کی آدھی ادبی شخصیتیں گلاس پارٹیشن کے دوسری طرف سے انھیں دیکھ رہی تھیں۔

بستر مرگ کی ایک اور دردناک کہانی کا ایک کردار جون اپ ڈائیگ کی پہلی بیوی میری تھیں جو دوسری بیوی مارتھا کے ہوتے ہوئے اپنے سابق شوہر کے پیر چھو رہی تھیں۔ وہ اس وقت بھی خاموش رہیں مگر انھیں الوداع کہنے اور آخری گفتگو کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، انھیں یقین نہیں تھا کہ یہ جون اپ ڈائیگ سے ان کی آخری ملاقات ہوگی۔

اس کتاب کے ایسے حصوں کی شدت، ریسرچ کی گہرائی اور حساسیت بلاشبہ بڑی چونکا دینے والی ہے۔ بعد میں مسز روائف نے اپنی ریسرچ کا طریقہ کار بھی بیان کیا ہے جو ان لوگوں سے جنھوں نے مرنے والوں کے ساتھ آخری ایام گزارے تھے، طویل گفتگو پر مبنی ہے وہ کسی کی تخلیق کردہ کتاب کی آنکھ سے مصنف کی زندگی کے آخری حصے میں جھانکنے میں بھی مہارت رکھتی ہیں ان کا یہ عمل سینڈک کی ماسٹر پیس ''ان دی نائٹ کچن'' کے مطالعے کے ذریعے نقطہ عروج پر پہنچتا ہے۔

سوانح عمری کی جو تفصیلات بیان نہیں ہوتیں ان میں سے ایک وہ کہانی ہے جو سینڈک اپنے آخری دور کے ایک انٹرویو میں سناتے ہیں کہ کس طرح ان کے والد موریس کی شراب خانے کی سرگرمیوں میں الجھے رہے حالانکہ اسی دن انھیں یہ اندوہناک خبر ملی تھی کہ ان کا پورا خاندان کیمپوں میں مارا گیا ہے۔مسز روائف نے یہ انٹرویو ضرور پڑھا ہوگا کیونکہ وہ اس کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ سینڈک ایک مزیدار موت چاہتے تھے یقیناً ہم سب یہی چاہتے ہیں مگر موت اتنی مزے کی یا میٹھی تابعدار یا باوقار نہیں ہوتی اور موریس سینڈک کے باپ کا ہونق چہرہ غمازی کرتا ہے کہ موت کتنی ظالم پر تشدد اور ناقابل بیان ہوسکتی ہے۔

یہ یقیناً ایک خوبصورت کتاب ہے مگر اتنی خوف و دہشت سے عاری نہیں جیساکہ مصنفہ نے اسے بنانے کی کوشش اور امید کی ہوگی۔بہرحال جیساکہ کتاب میں اس بات کو اہمیت دیے بغیر لکھا گیا ہے کہ غیر متوقع سہی ایک آئیڈیل موت وہ ہوتی ہے جو مختصر علالت کے بعد قریبی لوگوں کو بہت زیادہ پریشان کیے بغیر نصیب ہوجائے اور جس کے بارے میں یہ لکھا جاسکے کہ مرحوم کو صبح جب اٹھانے کی کوشش کی گئی تو وہ اٹھ نہ سکے اور مردہ پائے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں