نگاہِ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم

اگر ہم تاریخ کے اوراق کو تھوڑا سا پلٹیں تو ہمیں صاف دکھائی دے گا

بلوچستان سے ''را'' کے حاضر سروس نیول کمانڈر کل بھوشن یادیوکی گرفتاری کے بعد اس کے مزید 13 ساتھیوں کو پاکستان کے مختلف شہروں سے پکڑ لیا گیا ہے جب کہ 500 سے زائد دہشتگردوں کے مسلمان کا روپ دھار کر ملک میں پھیل جانے کا انکشاف بہرطور سنسنی خیز ہی کہا جائے گا۔

بھارتی وزیر دفاع نے کل بھوشن یادیو کو اپنا قابل احترام فوجی افسر تسلیم کرلیا ہے اور بھارتی حکومت نے کل بھوشن کو محض اپنا ایک شہری مانا ہے اور اس پر جاسوسی کے سارے الزامات اور خود اس کے ویڈیو بیان کو مسترد کردیا ہے، حالانکہ یادیو نے کھل کر بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاری کا اعتراف کیا ہے اور گوادر چینی اقتصادی راہ داری منصوبے کی تباہی کے مشن کا اعتراف کیا ہے۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق کو تھوڑا سا پلٹیں تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 21 ستمبر 1968 کو Research And Analysis Wing نامی ایک انتہائی خفیہ یا حساس ادارہ قائم کیا تھا جسے بعد میں R.A.W(را) کے نام سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا۔

بالخصوص مشرقی پاکستان کی علیحدگی، بلوچستان اورکراچی کو پاکستان کے نقشے سے کاٹ کر علیحدہ کردینا اس کا مرکزی ہدف تھا، افسوس صد افسوس ''ہمارے اپنوں'' کی کارستانیوں کی وجہ سے بھارت نے اپنا پہلا ٹارگٹ بہت جلد حاصل کرلیا اور مرحوم مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے زندہ ہوکر سامنے آگیا۔سقوط مشرقی پاکستان کے محرکات یا سانحے پر نگاہ کی جائے تو اس حقیقت سے ملاقات ہوتی ہے کہ ملک اور معاشرے کی تعمیر محض دوسروں پر تنقید اور حکومتوں پر طنزکرنے سے نہیں ہوتی، اس کے لیے معاشرے کے اجتماعی مزاج میں خود احتسابی کی حس کا ہونا لازمی ہے جو عام آدمی کو دوسروں پر لعن طعن سے پہلے اسے اپنا جائزہ لینے کے قابل بھی بنا دے۔

بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نے واشگاف لفظوں میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرکے بنگلہ دیش بنانے میں اپنے کردار کا ذکر حال ہی میں میڈیا پرکیا تھا اور اب گزشتہ کئی برسوں سے کل بھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے دوسرے اور تیسرے مقصد کے حصول کے لیے بلوچستان اور کراچی میں برسر پیکار ہے۔

بلوچستان سے ''را'' کے حاضر سروس آفیسر کی گرفتاری بظاہر ایک موثر انتظامی اقدام کہا جائے گا جس کا گہرا تعلق ہماری قومی سلامتی سے ہے، بھارتی تجربہ کار جاسوس کی بلوچستان جیسے حساس علاقے سے گرفتاری عسکری اداروں کی ایک بڑی مساعی کہی جاسکتی ہے اور اس سے یقینا مزید سرے ملتے جائیں گے اور اس سے ہماری مستقبل کی معیشت کے ایک اہم ترین صوبے کو بچانے کی کاوشیں کامیاب ہوں گی، اور دوسری طرف اسے ان سازشوں کی ایک اور کڑی کہا جائے گا جو بھارت قیام پاکستان کے وقت ہی سے اسے مسلسل عدم استحکام سے دوچار کرنے اور نقصان پہنچانے کے لیے کرتا آیا ہے۔ اس نے اصل میں پہلا وار جموں وکشمیر اور دوسری مسلم ریاستوں کو پاکستان میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے ان پر زبردستی قبضہ کرکے کیا پھر اپنی فوجی طاقت سے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں عملی مدد کی۔


یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تقریباً سات دہائیوں کے گزرنے کے بعد بھی بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم سے باز نہیں آیا اورگزشتہ دس بارہ سالوں سے بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسندی اور دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے بے دریغ پیسہ اور اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی ایجنٹ کی سرگرمیوں کا زیادہ تر محور جنوبی بلوچستان میں مکران کا ساحلی علاقہ تھا جہاں گوادر کی عظیم الشان بندرگاہ تکمیل کے مراحل میں ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری کا نقطہ آغاز اور پاکستان میں معاشی انقلاب کا چمکتا ہوا باب ہے۔

بھارت سمیت بعض ہمسایہ ممالک اور مغربی طاقتیں گوادر پورٹ کو اپنے اقتصادی مفاد کے پہلے بھی خلاف سمجھتی تھیں مگر اقتصادی راہداری کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد وہ اور زیادہ متفکر ہیں، خصوصاً بھارت اسے ہر قیمت پر برباد کرنا چاہتا ہے اور مبینہ طور پر گرفتار ہونیوالے بھارتی ایجنٹ کی ذمے داری تھی کہ وہ اپنے نیٹ ورک کے ذریعے بلوچ رہنماؤں کو اس کی مخالفت پر آمادہ کرے، کیونکہ بھارت ایک عرصے سے بحیرہ عرب اور خلیج فارس تک بحر ہند کی سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور اس کی شدید خواہش ہے کہ بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے الگ کرکے اس خواب کو عملی شکل دے۔

اس بات میں بھی قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دنیا کا کوئی بھی ملک بلند و بالا عمارتیں بناکر ترقی نہیں کرسکتا بلکہ ترقی کے حصول کے لیے طویل المیعاد منصوبوں اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے برسوں کی عرق ریزی حکمت عملی اور سر توڑکوششوں سے گوادر پورٹ کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کرنے کی جو سعی کی ہے اس نے ہم سے بہت سی قربانیاں وصول کرلی ہیں اور اب جب کہ کامیابی کے ہم قریب پہنچ چکے ہیں تو اغیار بھی پیچھے دھکیلنے کے درپے ہیں اور یہی موقع ہے اپنی توانائی، اپنی فورس یا اپنی طاقت دکھانے کا۔ کیونکہ کمزوری کسی بھی قسم کی ہو وہ دنیا کا سب سے بڑا جرم ہوتی ہے۔

اس کائنات اس دنیا میں صرف اور صرف وہ جاندار زندہ رہتے ہیں جن کے پنجے، دانت اور کھال مضبوط ہوتے ہیں یا پھر وہ جو دوسروں سے تیز بھاگ سکتے ہیں۔ یہ اصول انسانوں اور قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم یا کوئی اور یہ سمجھے کہ ہماری یا اس کی عاجزی، کمزوری اور سستی ہمیں یا انھیں بچا لے گی تو یہ ہم سب کی خام خیالی ہے۔

اگر سر ریت میں دبا لینے سے طوفان ٹل سکتے تو دنیا کے کسی شتر مرغ کو موت نہ آتی اور یہ بھی طے ہے کہ جب تک ہم ذلت اور مصلحت کی زندگی پر عزت اور غیرت کی موت کو ترجیح نہیں دیں گے اور جب تک عزت کی روٹی کھانے کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک نہ ہی ''ڈرونز'' سے بچیں گے اور نہ ہی اپنی مغربی ڈارلنگوں کے سحر سے آزاد ہوپائیں گے۔

کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ صرف بھارت ہی ہمارا دشمن نہیں بلکہ افغانستان، اسرائیل، برطانیہ اور امریکا بھی ہمیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے اور ان سبھوں کا مقصد اولین پاک چین تاریخی اقتصادی منصوبے ''سی پیک'' کو نہ صرف ناکام بنانا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت ابھارکر یہاں 1971 کے سانحے کا دوسرا باب رقم کرنا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنے ''اسٹریٹیجک مفادات'' کے تحفظ کے لیے بھارت کے ساتھ اس معاملے کو سختی کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور عالمی برادری کو بھی اس کے نتائج و عواقب سے باخبر کرنا چاہیے۔ بھارت کو بہرطور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خود بھی اس کی موثر اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے پاکستان اور عالمی طاقتوں کو مطمئن کرنا چاہیے اور بالخصوص بلوچستان اور کراچی میں ''را'' کی مجرمانہ سرگرمیوں کو فوری روکنا چاہیے۔
Load Next Story