کرکٹ میں متعارف ہونے والی مؤثر چالیں

وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں حکمت عملی، چالیں اور حربے اختیار کیے جاتے رہے ہیں.


Magazine Report April 10, 2016
وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں حکمت عملی، چالیں اور حربے اختیار کیے جاتے رہے ہیں. فوٹو: اے ایف پی/فائل

وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں ایسی حکمت عملی، چالیں اور حربے اختیار کیے جاتے رہے ہیں، جو اس کھیل کے روایتی انداز میں نمایاں تبدیلی لانے کا سبب بنے۔

سابق برطانوی کرکٹر ایڈورڈ سمتھ نے، جو اب کرکٹ کے اہم مبصر اور مصنف ہیں، اپنی ایک تحریر میں کرکٹ میں حریف ٹیم کو ناکام کرنے کے لیے اپنائے جانے والے ان حربوں کا ذکر کیا ہے۔ آئیے کرکٹ کے کھیل میں متعارف ہونے والی ان موثر چالوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن کے متعلق مضمون نگار نے اعتراف کیا ہے کہ یہ فہرست نامکمل اور غیر حتمی ہے۔

٭باڈی لائن

باڈی لائن، جسے فاسٹ لیگ تھیوری بالنگ بھی کہا جاتا ہے، کو انگلینڈ کے بالرز نے 1932ء میں اپنے ملک میں ہونے والی ایشز سریز میں استعمال کیا تھا۔ اس بالنگ میں لیگ اسٹمپ کی لائن پر مدمقابل بیٹسمین کے جسم کو نشانہ بنا کر تیز رفتار گیندیں کی جاتی تھیں، تاکہ بیٹسمین اپنے جسم کو بچانے کے لیے ان گیندوں کو کھیل کر اپنے قریب لیگ سائیڈ پر کھڑے ہوئے متعدد فیلڈرز میں سے کسی ایک کو کیچ تھما دے۔

برطانوی کپتان ڈوگلس جارڈین نے خاص طور پر آسڑیلیا کے مایہ ناز بیٹسمین سرڈان بریڈ مین کو ناکام کرنے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے انگلینڈ نے سیریز میں کامیابی حاصل کر لی، تاہم اس کی قیمت انہیں بدنامی کی صورت میں چکانا پڑی۔

بعد ازاں فیلڈنگ اور بالنگ قوانین میں تبدیلی کر کے اس طرح کی بالنگ کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ باڈی لائن بالنگ کے غیراخلاقی پہلو کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کرکٹ کے کھیل میں غیرمعمولی تخیل کا شاہکار آئیڈیا تھا جس کی ہمیں دوسری مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ پابندی کی وجہ سے اس کا مختصر استعمال رہا۔

٭ چار تیزرفتار بالر

اگرچہ اب یہ معمول کی بات لگتی ہے کہ کوئی بھی ٹیم اپنی پلینگ الیون کے لیے، بالرز کے انداز سے قطع نظر، چار بہترین بالرز کا انتخاب کرتی ہے لیکن اس سے پہلے یہ ضروری سمجھا جاتا تھا کہ بالنگ اٹیک میں تنوع لانے کے لیے، ٹیم میں مختلف اقسام کے بالرز کا ملغوبہ اکٹھا کیا جائے۔ پہلے پہل ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ نے اس غلط سوچ کو عملی طور پر چیلنج کیا۔ وہ اس خیال کے حامی تھے کہ پچ کی نوعیت کے مطابق اپنے بہترین بالرز کا انتخاب کیا جائے۔

٭ جارحانہ فیلڈنگ

آغاز میں کرکٹ میں فیلڈنگ کا کردار دفاعی ہوتا تھا اور ٹیم میں عظیم بلے بازوں اور گیند بازوں کو کمزور فیلڈنگ کے باوجود برداشت کر لیا جاتا تھا۔ جدید کرکٹ میں جارحانہ فیلڈنگ کے نتیجے میں بیٹسمین بہترین فیلڈرز کے نرغے میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ پہلے پہل ٹیم میں ایک آدھ کھلاڑی کی پہچان اچھے فیلڈر کی ہوتی تھی تاہم اب کھلاڑیوں کا اچھا فیلڈر ہونا بھی ضروری خیال کیا جاتا تھا، اور ٹیم میں موجود ایک آدھ کمزور فیلڈر کو الگ سے شناخت کیا جاتا ہے۔ کرکٹ میں فیلڈنگ کی اہمیت اور معیار میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ پہلے جسے ''اچھی کوشش'' کہا جاتا تھا، اب اسے فیلڈر کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے۔

٭ شروع کے اوورز میں جارحانہ بیٹنگ اور اسپن بالنگ کا استعمال

نیوزی لینڈ کے کپتان مارٹن کرو نے سب سے پہلے 1992ء کے ورلڈ کپ میں ان دونوں حربوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے اوپنر مارک گریٹ بیچ کو اس بات کا کھلا لائسنس دیا کہ وہ پہلی گیند سے ہی ہٹنگ شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آف اسپنر دیپک پٹیل کے ہاتھ میں نئی بال تھمائی۔ بعد کی کرکٹ میں ہمیں ان دونوں حربوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ سری لنکا کی ٹیم نے ابتدائی اوورز میں تیز رفتار بیٹنگ سے 1996ء کا ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ جبکہ اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے آنے کے بعد اننگز کے آغاز میں سلو بالرز کا استعمال عام ہو گیا ہے۔

٭ ''دوسرا''

''دوسرا'' کے موجد پاکستان کے مایہ ناز اسپنر ثقلین مشتاق ہیں۔ اس ڈیلوری میں روایتی آف اسپن انداز میں پھینکی گیند پچ پر پڑنے کے بعد لیگ اسپن ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے بیٹسمین کو کھیلنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ 90ء کی دہائی میں ثقلین مشتاق نے اس ڈیلوری کو کامیابی سے استعمال کیا۔ بعد ازاں دوسرے آف اسپنرز نے، جن میں مرلی دھرن، ہربھجن سنگھ اور سعید اجمل کے نام قابل ذکر ہیں، بھی اس ڈیلوری کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اس ڈیلوری کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وکٹ کیپر معین خان، ثقلین مشتاق کو مخاطب کر کے ''دوسرا'' کرنے کا کہتے تھے، ایسے ہی ایک میچ کے دوران کمنٹریٹر ٹونی گریگ نے ''دوسرا'' کے لفظ کو اس ڈیلوری سے منسوب کر دیا اور یوں یہ اصطلاح کرکٹ میں رائج ہو گئی۔

٭ ''دل اسکوپ''

جدید کرکٹ میں ہیلمٹ کی سہولت اور محدود اوورز کے کھیل میں فیلڈ کی پابندی کے دوران باؤنڈری کی ضرورت نے بیٹسمینوں کو اس خطرناک شاٹ کی راہ سجھائی ہے۔ سری لنکن بیٹسمین دلشان کے نام پر اس شاٹ کو ''دل اسکوپ'' کا نام دیا گیا ہے۔ اس شاٹ کو کھیلنے کے لیے غیر معمولی ٹائمنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی میںایسی کسی شاٹ کے کھیلنے کے متعلق شاید ہی کسی نے سوچا ہو، لیکن اب یہ ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں کی ضرورت بن چکی ہے کہ وہ اس میں مہارت حاصل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں