پانامہ لیکس نوازشریف کی ساکھ متاثر شہباز کی برقرار رہی
نوازشریف عمران، قادری دھرنے میں سرخرو ہوگئے، یہ بحران خطرناک ہوسکتا ہے
پانامہ لیکس کا دریا ہر گزرتے دن کیساتھ چڑھتا جا رہا ہے، میاں نوازشریف کے لیے یہ اسلام آباد میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے سے بھی بڑا بحران ہے اس وقت ان کی اخلاقی اور سیاسی پوزیشن انتہائی مضبوط تھی، اس وجہ سے وہ اس بحران سے سرخرو ہو کر نکل گئے لیکن پانامہ لیکس نے اُن کیلیے اخلاقی ساکھ کا مسئلہ پیدا کر دیا۔
انھون نے اپنی اور اپنے خاندان کی پوزیشن واضح کرنے کیلٰے قوم سے خطاب بھی کیا لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جسے زبانی باتوں سے رفع نہیں کیا جا سکتا، انکے خطاب کے حوالے سے بھی باتیں جاری ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ انحیں اپنے خاندان کے کاروباری معاملات کی وضاحت کیلٰے بطور وزیراعظم پاکستان نیشنل ٹیلی ویژن پر خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پانامۃ لیکس میں انفرادی سطح پر لوگوں کے نام نہیں، کسی فرد کی یا خاندان کی پوزیشن کلیئر کرنے کیلٰے قوم سے خطاب نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اس استدلال میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے، اگر اس معاملے پر شریف خاندان اپنے کسی ترجمان کیساتھ پریس کانفرنس کرکے پوزیشن واضح کردیتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن جب حکمران اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں تو پھر سامنے بیٹھے ہمدرد بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا تھا حالانکہ ان کے کئی قریبی ساتھی اس حق میں نہیں تھے لیکن وزیراعظم چاہتے تھے کہ انحیں قوم سے خطاب کرکے اپنی اور خاندان کی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، بہرحال جو ہونا تھا، وہ ہو گیا، تیر کمان سے نکل گیا، اب نیا تیر کمان میں ڈالنا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس سارے بحران کا آخر کار نتیجہ کیا نکلے گا؟ ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر دوڑائیں تو سوائے عمران خان، جماعت اسلامی یا طاہر القادری کے کوئی اور سیاسی و مذہبی جماعت پانامہ لیکس کے معاملے پر agitation یا دھرنے تک نہیں جائے گی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول کا یہ کہنا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں تو پھر عمران خان کس حیثیت میں سرکاری ٹی وی پر خطاب کریںگے؟
اس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر پیپلزپارٹی روایتی انداز میں نوازشریف کی مخالفت کریگی اور یہ مخالفت صرف اخباری بیانات اور تقاریر کی حد تک ہوگی، وہ احتجاج کیلیے نہیں نکلے گی، حضرت مولانا فضل الرحمن نے بھی جو بیانات دیے ہیں، انکا مطلب بھی واضح ہے، اے این پی اور ایم کیو ایم بھی خاموش رہیں گی، آ جا کے صرف عمران خان ہی ہیں جو دھرنا دے سکتے ہیں، اس بار تو شاید چوہدری برادران بھی عمران خان کا ساتھ نہ دیں کیونکہ 2015ء کے دھرنے میں انھیں عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کیخلاف کوئی بڑا احتجاج یا دھرنا شاید نہ ہو سکے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت اس بحران سے نکل جائیگی، یہ بحران نوازشریف کی قیادت کیلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔مسلم لیگ ن میں میاں نوازشریف کی لیڈر شپ مسلمہ ہے، مسلم لیگ ن کی حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں، یہ میاں صاحب کے نظریات و افکار پر مبنی ہیں لیکن پانامہ لیکس میں ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام آ رہا ہے اس لیے اُنھیں اپنی پوزیشن کو اپنے خاندان سے الگ کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا، ان پر اپوزیشن کی تنقید بڑھتی چلی جائے گی۔
عمران خان تو بولیں گے ہی لیکن پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی کم از کم بیانات کی حد تک ان کی قیادت پر سوال ضرور اُٹھائیں گی، جیسے جیسے وقت گزرے گا، ان پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔ پانامہ لیکس کا ایک معنی خیز پہلو یہ ہے کہ اس میں میاں شہبازشریف یا ان کی فیملی کے کسی فرد کا نام نہیں؟
صرف ان کی اہلیہ تہمینہ درانی کی والدہ کا ذکر ہے، تہمینہ درانی نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے کہا ہے کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ شریف خاندان کو اپنی جائیداد عوام میں تقسیم کر دینی چاہیے، یوں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن میں اس بحران میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور ان کی فملی اپنی اخلاقی ساکھ برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ سارا دباؤ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف پر آن پڑا ہے، اسی شدید دباؤ کی وجہ سے انھوں نے خود ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنیکا فیصلہ کیا۔
انھون نے اپنی اور اپنے خاندان کی پوزیشن واضح کرنے کیلٰے قوم سے خطاب بھی کیا لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جسے زبانی باتوں سے رفع نہیں کیا جا سکتا، انکے خطاب کے حوالے سے بھی باتیں جاری ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ انحیں اپنے خاندان کے کاروباری معاملات کی وضاحت کیلٰے بطور وزیراعظم پاکستان نیشنل ٹیلی ویژن پر خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پانامۃ لیکس میں انفرادی سطح پر لوگوں کے نام نہیں، کسی فرد کی یا خاندان کی پوزیشن کلیئر کرنے کیلٰے قوم سے خطاب نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اس استدلال میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے، اگر اس معاملے پر شریف خاندان اپنے کسی ترجمان کیساتھ پریس کانفرنس کرکے پوزیشن واضح کردیتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن جب حکمران اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں تو پھر سامنے بیٹھے ہمدرد بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا تھا حالانکہ ان کے کئی قریبی ساتھی اس حق میں نہیں تھے لیکن وزیراعظم چاہتے تھے کہ انحیں قوم سے خطاب کرکے اپنی اور خاندان کی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، بہرحال جو ہونا تھا، وہ ہو گیا، تیر کمان سے نکل گیا، اب نیا تیر کمان میں ڈالنا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس سارے بحران کا آخر کار نتیجہ کیا نکلے گا؟ ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر دوڑائیں تو سوائے عمران خان، جماعت اسلامی یا طاہر القادری کے کوئی اور سیاسی و مذہبی جماعت پانامہ لیکس کے معاملے پر agitation یا دھرنے تک نہیں جائے گی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول کا یہ کہنا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں تو پھر عمران خان کس حیثیت میں سرکاری ٹی وی پر خطاب کریںگے؟
اس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر پیپلزپارٹی روایتی انداز میں نوازشریف کی مخالفت کریگی اور یہ مخالفت صرف اخباری بیانات اور تقاریر کی حد تک ہوگی، وہ احتجاج کیلیے نہیں نکلے گی، حضرت مولانا فضل الرحمن نے بھی جو بیانات دیے ہیں، انکا مطلب بھی واضح ہے، اے این پی اور ایم کیو ایم بھی خاموش رہیں گی، آ جا کے صرف عمران خان ہی ہیں جو دھرنا دے سکتے ہیں، اس بار تو شاید چوہدری برادران بھی عمران خان کا ساتھ نہ دیں کیونکہ 2015ء کے دھرنے میں انھیں عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کیخلاف کوئی بڑا احتجاج یا دھرنا شاید نہ ہو سکے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت اس بحران سے نکل جائیگی، یہ بحران نوازشریف کی قیادت کیلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔مسلم لیگ ن میں میاں نوازشریف کی لیڈر شپ مسلمہ ہے، مسلم لیگ ن کی حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں، یہ میاں صاحب کے نظریات و افکار پر مبنی ہیں لیکن پانامہ لیکس میں ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام آ رہا ہے اس لیے اُنھیں اپنی پوزیشن کو اپنے خاندان سے الگ کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا، ان پر اپوزیشن کی تنقید بڑھتی چلی جائے گی۔
عمران خان تو بولیں گے ہی لیکن پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی کم از کم بیانات کی حد تک ان کی قیادت پر سوال ضرور اُٹھائیں گی، جیسے جیسے وقت گزرے گا، ان پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔ پانامہ لیکس کا ایک معنی خیز پہلو یہ ہے کہ اس میں میاں شہبازشریف یا ان کی فیملی کے کسی فرد کا نام نہیں؟
صرف ان کی اہلیہ تہمینہ درانی کی والدہ کا ذکر ہے، تہمینہ درانی نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے کہا ہے کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ شریف خاندان کو اپنی جائیداد عوام میں تقسیم کر دینی چاہیے، یوں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن میں اس بحران میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور ان کی فملی اپنی اخلاقی ساکھ برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ سارا دباؤ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف پر آن پڑا ہے، اسی شدید دباؤ کی وجہ سے انھوں نے خود ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنیکا فیصلہ کیا۔