دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
جس روز پانامہ لیکس کا قصہ زبانِ زد عام تھا، چند نوجوانوں نے غریب خانے پر زحمت کی۔
جس روز پانامہ لیکس کا قصہ زبانِ زد عام تھا، چند نوجوانوں نے غریب خانے پر زحمت کی۔ مقصد یہ تھا کہ 16 برس کی عمر میں طلبا سیاست سے صحافت کے خار زار میں اظہاریہ نویسی تک جو نصف صدی بتائی ہے، ان تجربات کی روشنی میں ملکی حالات پر کچھ گفتگو کی جائے۔ وہ یہ جاننے کے خواہشمند تھے کہ جو بڑے بڑے اسکینڈل آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟ آیا وطن عزیز میں کبھی بہار کا موسم بھی آئے گا یا یونہی خزاں رسیدہ موسموں میں زندگی گزر جائے گی؟ کیا نظم حکمرانی کے دہرے معیارات کبھی ختم ہو سکیں گے اور غریب اور مفلوک الحال شہریوں کی زندگیوں میں کبھی خوشحالی کے کچھ لمحات آ سکیں گے یا نہیں؟ ہر شہری کو بلاامتیاز عقیدہ، صنف اور لسانی وابستگی انصاف مل سکے گا یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
پانامہ لیکس تو آج کا قضیہ ہے، جب کہ حکمرانوں کی مالیاتی امور میں بے اعتدالیوں اور بدانتظامیوں کے بارے میں عوام بہت پہلے سے بہت زیادہ باخبر تھے۔ اس لیے یہ انکشافات ان کے لیے کوئی اچنبھا نہیں تھے۔ ان رہنماؤں کی پرتعیش زندگیاں اور ان کے وسیع ہوتے کاروبار بھی عوام کے سامنے رہے ہیں۔ مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں سیاست برادریوں، قبائلی تعلق اور جاگیردارانہ بندشوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوری اقدار اپنی صحیح شکل میں متعارف نہیں ہو پا رہی ہیں۔
افلاطون نے 3 ہزار برس قبل کہا تھا کہ کبھی تاجر اور فوجی کو اپنا حکمران مت بنانا۔ مگر ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ان 68 برسوں کے دوران یہی دو طبقات بیشتر وقت اقتدار پر قابض یا حاوی رہے ہیں۔ جنھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بالعموم جب کہ جنرل ضیا کے دور سے بالخصوص ایک ایسا طاقتور حلقہ بنا لیا، جو ہر جائز اور ناجائز طریقہ سے اقتدار پر قابض چلا آ رہا ہے۔ طلبا سیاست اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے خاتمے کے نتیجے میں مڈل کلاس سے سیاسی کیڈر کی قومی سیاست میں آمد کا سلسلہ تقریباً رک چکا ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے سیاسی نظریہ اور سیاسی وابستگی جیسی اصطلاحات اب پاکستان میں متروک ہو چکی ہیں۔ جو کل تک فوجی آمروں کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے، آج ہر چینل پر جمہوریت کے چیمپئن بنے اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ جو کل تک بائیں بازو کے علمبردار ہوا کرتے تھے، آج دائیں بازو کے فکری مبلغ بنے اس کے گن گا رہے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے آج وہ نعرے اپنا لیے ہیں، جو کبھی بائیں بازو کی پہچان ہوا کرتے تھے۔
اس لیے سیاسی کیڈر کے بجائے بااثر، دولت مند اور Electable افراد اب سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔ یوں سیاست میں حکمران اشرافیہ (Ruling Elite) کا تصور مضبوط ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر جماعتوں نے رکنیت سازی اور عوامی رابطہ مہم تک ختم کر دی۔ اس صورتحال میں پھر وہی سوالات سر اٹھاتے ہیں، یعنی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے؟ کیا اس ڈھانچہ میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیے کسی قسم کی گنجائش بنتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ کیا انھی سیاسی رہنماؤں پر تکیہ کیا جائے جو ملک کو مزید تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا باعث ہیں؟
تاریخ اور سیاسیات کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت صرف اور صرف عوام کی قبولیت اور عدم قبولیت کے باعث مقبولیت کے بام عروج تک پہنچتی ہے یا گہنا کر زمیں بوس ہوتی ہے۔ جب کہ کوئی بھی ماورائے سیاست اقدام اس کی مقبولیت میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کسی ایڈونچر کے ذریعے اقتدار سے محروم کیے جانے کی صورت میں ملک ایک بار پھر آمریت کے چنگل میں پھنس سکتا ہے۔
چار فوجی آمریتیں، جنھیں اس ملک کے عوام نے 32 برس بھگتا ہے، نظم حکمرانی میں بہتری کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنی ہیں۔ لہٰذا لوگ کرپٹ، بدعنوان اور نااہل سیاسی اشرافیہ کو صرف اس توقع پر قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ کم از کم پانچ برس بعد وہ انھیں تبدیل کر سکیں گے، جب کہ فوجی آمریت کے خاتمے کے لیے طویل تحریک چلانی پڑتی ہے، جس میں جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ اقتدار و اختیار کا بے جا و بے دریغ استعمال (Power Abuse) ہے، جو صاحب اقتدار و اختیار کو اپنی سیاسی قوت کے اظہار کے لیے قانون شکنی پر اکساتا ہے۔ یہ روش اور رویہ نظم حکمرانی کے بحران سے جڑا ایک اہم انتظامی معاملہ ہے۔ نظم حکمرانی کا یہ بحران دراصل کمزور حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ کمزور حکمرانی نے ملک میں جاری اشرافیائی نظام (Oligarchy) کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چونکہ ملک میں مقبول ووٹ حاصل کرنے والی بیشتر جماعتیں اسی اشرافیائی نظام کا حصہ ہیں۔
اس لیے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط بنانے پر متفق ہیں۔ انھی اشرافیائی قوتوں نے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ترتیب دیا ہے، جس میں صرف مراعات یافتہ طبقات کے لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ اگر کچھ حلقوں سے متوسط یا نچلے متوسط طبقے کے چند افراد اسمبلیوں میں پہنچ جائیں، تو انھیں Co-opt کر کے جاری سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو ان پر مختلف الزامات لگا کر انھیں سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
آج جو حالات ملک کو درپیش ہیں، ان میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مقتدر اشرافیہ پاکستانی ریاست کو ناکام ہونے سے بچا لے، لیکن کیا اس میں اتنی بصیرت اور سیاسی عزم ہے کہ وہ ریاست کو Transformation کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکے؟ بیشتر اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی ریاست اپنے قیام کے وقت سے نظم حکمرانی کے جس بحران میں گرفتار چلی آ رہی ہے، وہ نہ صرف تسلسل کے ساتھ جاری ہے، بلکہ مزید گہرا اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ تبدیل شدہ دنیا میں ریاستی ڈھانچے کو Transform کیے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے پالیسی سازی کے طریقہ کار میں کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور اقتدار اعلیٰ پر قابض نااہل اور کرپٹ اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جہاں تک ریاستی اقتدار پر فوج اور تاجر کمیونٹی کی بالادستی کا معاملہ ہے، تو فوجی حکمرانی میں 32 برس گزرے ہیں، جن کی وجہ سے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے، جب کہ اشرافیائی نظام (Oligarchy) کا حصہ سیاسی جماعتیں بھی عوام کو ڈیلیور کرنے میں اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے ناکام ہیں۔ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامی کا اصل سبب بری حکمرانی (Bad Governance) ہے۔ بری حکمرانی کا سبب اقتدار پر مخصوص اشرافیہ کا قبضہ ہے۔
جس نے سیاست اور ریاست کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا ہے۔ پولیس سمیت ریاست کے انتظامی اداروں کو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دانستہ کرپٹ اور بدعنوان بنا دیا ہے۔ میرٹ کا گلا گھونٹا ہے اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی کو پیچیدہ بنایا ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنی نااہلیوں اور بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر مختلف محکموں میں ایسے منظور نظر افسران اور اہلکاروں کا تقرر کیا جاتا ہے، جو مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کے خاتمے کے بجائے اسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تعلیم کے شعبے کو بھی دانستہ تباہ کر کے طبقاتی تعلیم کو فروغ دیا گیا، تا کہ عام آدمی کی علم تک رسائی نہ ہو سکے۔ کراچی سے پشاور تک ملک کے تمام ثانوی تعلیمی بورڈ کے میٹرک کے نتائج کا جائزہ لیں، تو 1980ء تک تقریباً تمام پوزیشنز سرکاری اسکولوں سے آیا کرتی تھیں۔ مگر ان اداروں کو دانستہ تباہ کیا گیا۔
بوسیدہ عمارتیں، بنیادی سہولیات کا فقدان، ضروری فنڈز کی نایابی اور سب سے بڑھ کر سفارش اور رشوت پر بھرتی کیے گئے نااہل اساتذہ کی وجہ سے 90 فیصد عام شہریوں کے بچوں کی معیاری تعلیم تک رسائی ناممکن ہو گئی ہے۔ یہی کچھ معاملہ صحت کے شعبہ کا ہے، جس کی زبوں حالی نے عام آدمی کے لیے صحت کے نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی ترقی کے ان منصوبوں پر توجہ دی جاتی ہے، جن سے بھاری کک بیکس اور کمیشن ملنے کی توقع ہو۔
یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سرد جنگ اور کمیونزم کے سیاسی قوت کے طور پر خاتمہ کے بعد ایسی جماعتیں اور افراد اقتدار میں آئے ہیں، جنھوں نے سیاسی اقتدار کو اپنے ذاتی کاروبار کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئے دن نت نئے اسکینڈل سامنے آنے لگے۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں احتساب کا ایسا مکینزم موجود ہے کہ الزامات کی صورت میں سربراہ ریاست مستعفی ہو کر عدالتی کارروائی بھگتنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہو گئے۔
ارجنٹائن کے صدر زیر عتاب ہیں، جب کہ برطانوی وزیراعظم نے اس الزام کو قبول کرتے ہوئے خود کو عوامی احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ مگر پاکستان میں ابھی ان الزامات کی صحت پر ہی بحث میں عوام کا وقت ضایع کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں''۔
پانامہ لیکس تو آج کا قضیہ ہے، جب کہ حکمرانوں کی مالیاتی امور میں بے اعتدالیوں اور بدانتظامیوں کے بارے میں عوام بہت پہلے سے بہت زیادہ باخبر تھے۔ اس لیے یہ انکشافات ان کے لیے کوئی اچنبھا نہیں تھے۔ ان رہنماؤں کی پرتعیش زندگیاں اور ان کے وسیع ہوتے کاروبار بھی عوام کے سامنے رہے ہیں۔ مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں سیاست برادریوں، قبائلی تعلق اور جاگیردارانہ بندشوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوری اقدار اپنی صحیح شکل میں متعارف نہیں ہو پا رہی ہیں۔
افلاطون نے 3 ہزار برس قبل کہا تھا کہ کبھی تاجر اور فوجی کو اپنا حکمران مت بنانا۔ مگر ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ان 68 برسوں کے دوران یہی دو طبقات بیشتر وقت اقتدار پر قابض یا حاوی رہے ہیں۔ جنھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بالعموم جب کہ جنرل ضیا کے دور سے بالخصوص ایک ایسا طاقتور حلقہ بنا لیا، جو ہر جائز اور ناجائز طریقہ سے اقتدار پر قابض چلا آ رہا ہے۔ طلبا سیاست اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے خاتمے کے نتیجے میں مڈل کلاس سے سیاسی کیڈر کی قومی سیاست میں آمد کا سلسلہ تقریباً رک چکا ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے سیاسی نظریہ اور سیاسی وابستگی جیسی اصطلاحات اب پاکستان میں متروک ہو چکی ہیں۔ جو کل تک فوجی آمروں کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے، آج ہر چینل پر جمہوریت کے چیمپئن بنے اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ جو کل تک بائیں بازو کے علمبردار ہوا کرتے تھے، آج دائیں بازو کے فکری مبلغ بنے اس کے گن گا رہے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے آج وہ نعرے اپنا لیے ہیں، جو کبھی بائیں بازو کی پہچان ہوا کرتے تھے۔
اس لیے سیاسی کیڈر کے بجائے بااثر، دولت مند اور Electable افراد اب سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔ یوں سیاست میں حکمران اشرافیہ (Ruling Elite) کا تصور مضبوط ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر جماعتوں نے رکنیت سازی اور عوامی رابطہ مہم تک ختم کر دی۔ اس صورتحال میں پھر وہی سوالات سر اٹھاتے ہیں، یعنی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے؟ کیا اس ڈھانچہ میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیے کسی قسم کی گنجائش بنتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ کیا انھی سیاسی رہنماؤں پر تکیہ کیا جائے جو ملک کو مزید تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا باعث ہیں؟
تاریخ اور سیاسیات کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت صرف اور صرف عوام کی قبولیت اور عدم قبولیت کے باعث مقبولیت کے بام عروج تک پہنچتی ہے یا گہنا کر زمیں بوس ہوتی ہے۔ جب کہ کوئی بھی ماورائے سیاست اقدام اس کی مقبولیت میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کسی ایڈونچر کے ذریعے اقتدار سے محروم کیے جانے کی صورت میں ملک ایک بار پھر آمریت کے چنگل میں پھنس سکتا ہے۔
چار فوجی آمریتیں، جنھیں اس ملک کے عوام نے 32 برس بھگتا ہے، نظم حکمرانی میں بہتری کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنی ہیں۔ لہٰذا لوگ کرپٹ، بدعنوان اور نااہل سیاسی اشرافیہ کو صرف اس توقع پر قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ کم از کم پانچ برس بعد وہ انھیں تبدیل کر سکیں گے، جب کہ فوجی آمریت کے خاتمے کے لیے طویل تحریک چلانی پڑتی ہے، جس میں جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ اقتدار و اختیار کا بے جا و بے دریغ استعمال (Power Abuse) ہے، جو صاحب اقتدار و اختیار کو اپنی سیاسی قوت کے اظہار کے لیے قانون شکنی پر اکساتا ہے۔ یہ روش اور رویہ نظم حکمرانی کے بحران سے جڑا ایک اہم انتظامی معاملہ ہے۔ نظم حکمرانی کا یہ بحران دراصل کمزور حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ کمزور حکمرانی نے ملک میں جاری اشرافیائی نظام (Oligarchy) کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چونکہ ملک میں مقبول ووٹ حاصل کرنے والی بیشتر جماعتیں اسی اشرافیائی نظام کا حصہ ہیں۔
اس لیے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط بنانے پر متفق ہیں۔ انھی اشرافیائی قوتوں نے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ترتیب دیا ہے، جس میں صرف مراعات یافتہ طبقات کے لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ اگر کچھ حلقوں سے متوسط یا نچلے متوسط طبقے کے چند افراد اسمبلیوں میں پہنچ جائیں، تو انھیں Co-opt کر کے جاری سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو ان پر مختلف الزامات لگا کر انھیں سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
آج جو حالات ملک کو درپیش ہیں، ان میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مقتدر اشرافیہ پاکستانی ریاست کو ناکام ہونے سے بچا لے، لیکن کیا اس میں اتنی بصیرت اور سیاسی عزم ہے کہ وہ ریاست کو Transformation کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکے؟ بیشتر اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی ریاست اپنے قیام کے وقت سے نظم حکمرانی کے جس بحران میں گرفتار چلی آ رہی ہے، وہ نہ صرف تسلسل کے ساتھ جاری ہے، بلکہ مزید گہرا اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ تبدیل شدہ دنیا میں ریاستی ڈھانچے کو Transform کیے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے پالیسی سازی کے طریقہ کار میں کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور اقتدار اعلیٰ پر قابض نااہل اور کرپٹ اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جہاں تک ریاستی اقتدار پر فوج اور تاجر کمیونٹی کی بالادستی کا معاملہ ہے، تو فوجی حکمرانی میں 32 برس گزرے ہیں، جن کی وجہ سے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے، جب کہ اشرافیائی نظام (Oligarchy) کا حصہ سیاسی جماعتیں بھی عوام کو ڈیلیور کرنے میں اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے ناکام ہیں۔ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامی کا اصل سبب بری حکمرانی (Bad Governance) ہے۔ بری حکمرانی کا سبب اقتدار پر مخصوص اشرافیہ کا قبضہ ہے۔
جس نے سیاست اور ریاست کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا ہے۔ پولیس سمیت ریاست کے انتظامی اداروں کو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دانستہ کرپٹ اور بدعنوان بنا دیا ہے۔ میرٹ کا گلا گھونٹا ہے اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی کو پیچیدہ بنایا ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنی نااہلیوں اور بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر مختلف محکموں میں ایسے منظور نظر افسران اور اہلکاروں کا تقرر کیا جاتا ہے، جو مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کے خاتمے کے بجائے اسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تعلیم کے شعبے کو بھی دانستہ تباہ کر کے طبقاتی تعلیم کو فروغ دیا گیا، تا کہ عام آدمی کی علم تک رسائی نہ ہو سکے۔ کراچی سے پشاور تک ملک کے تمام ثانوی تعلیمی بورڈ کے میٹرک کے نتائج کا جائزہ لیں، تو 1980ء تک تقریباً تمام پوزیشنز سرکاری اسکولوں سے آیا کرتی تھیں۔ مگر ان اداروں کو دانستہ تباہ کیا گیا۔
بوسیدہ عمارتیں، بنیادی سہولیات کا فقدان، ضروری فنڈز کی نایابی اور سب سے بڑھ کر سفارش اور رشوت پر بھرتی کیے گئے نااہل اساتذہ کی وجہ سے 90 فیصد عام شہریوں کے بچوں کی معیاری تعلیم تک رسائی ناممکن ہو گئی ہے۔ یہی کچھ معاملہ صحت کے شعبہ کا ہے، جس کی زبوں حالی نے عام آدمی کے لیے صحت کے نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی ترقی کے ان منصوبوں پر توجہ دی جاتی ہے، جن سے بھاری کک بیکس اور کمیشن ملنے کی توقع ہو۔
یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سرد جنگ اور کمیونزم کے سیاسی قوت کے طور پر خاتمہ کے بعد ایسی جماعتیں اور افراد اقتدار میں آئے ہیں، جنھوں نے سیاسی اقتدار کو اپنے ذاتی کاروبار کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئے دن نت نئے اسکینڈل سامنے آنے لگے۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں احتساب کا ایسا مکینزم موجود ہے کہ الزامات کی صورت میں سربراہ ریاست مستعفی ہو کر عدالتی کارروائی بھگتنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہو گئے۔
ارجنٹائن کے صدر زیر عتاب ہیں، جب کہ برطانوی وزیراعظم نے اس الزام کو قبول کرتے ہوئے خود کو عوامی احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ مگر پاکستان میں ابھی ان الزامات کی صحت پر ہی بحث میں عوام کا وقت ضایع کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں''۔