جاسوسی کا نیا اسکینڈل
آج کل پاکستان کا برننگ ایشو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے
آج کل پاکستان کا برننگ ایشو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے۔ یادیو انڈین نیوی کا ایک افسر ہے اسے ''را'' نے پاکستان کے اندرونی مسائل میں مداخلت اور پاکستان مخالف طاقتوں کو استعمال کرنے کا ٹاسک دیا تھا اور یادیو یہ نیک کام یا قومی فریضہ دس سال سے بحسن و خوبی انجام دے رہا تھا۔
اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان پاکستان مخالف سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو بنایا ہوا تھا۔ ہمارے ملک کے دو صوبے ایسے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور یہ صوبے ہیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان جن کی طویل سرحدوں سے ہر روز ہزاروں لوگ بغیر ویزا پاسپورٹ کے ایک دوسرے کے ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ان دونوں صوبوں میں پاکستان مخالف طاقتیں نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ خون خرابے میں بھی ملوث ہیں۔
اس خون خرابے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں کی وجوہات مختلف ہیں لیکن دونوں ہی طاقتوں کا ایک مشترکہ مقصد پاکستان دشمنی اور پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ افغانستان میں یہ کام دین کی سربلندی کے نام پر کیا جا رہا ہے اور بلوچستان میں یہ کام بلوچستان کی آزادی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ان دونوں صوبوں میں قبائلی، سرداری نظام صدیوں سے رائج ہے اور ان دونوں نظاموں کی مشترکہ بنیاد علم و دانش سے دوری ہے۔ ایسے علاقوں کے عوام کو بڑی آسانی سے مخالف طاقتیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں صوبوں میں پاکستان دشمنوں کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی قیادت میں بڑے نامور اور پاکستان دوست رہنما موجود رہے ہیں، جن میں غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، شیر باز مزاری وغیرہ شامل ہیں لیکن وفاق کے علمبردار پنجاب کی بیوروکریسی اور جاگیردار حکمرانوں نے بلوچستان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اس صوبے کے پاکستان دوست رہنما بھی بدظن ہو گئے اور یہی بدظنی نئی نسل میں بغاوت کی شکل اختیار کر گئی اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں فروغ پاتی رہیں، ہمارے حکمران طبقات نے مضبوط مرکز کے فلسفے کو اپنا کر چھوٹے صوبوں کو اپنی کالونیاں بنا لیا۔
یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ ہندوستان نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ہندوستان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' نے بلوچستان کے مرکز سے ناراض عوام خصوصاً نوجوان نسل کو استعمال کرنا شروع کیا اور حالات اس حد تک خراب کرا دیے کہ ان صوبوں میں امن و امان کا مسئلہ ایک خواب بن گیا۔
کلبھوشن یادیو بلوچستان ہی میں نہیں بلکہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں بھی اہم بلکہ مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ جاسوسی ایک انتہائی خطرناک پیشہ ہے اور جاسوس کے لیے ہر ملک میں سخت ترین سزا یعنی سزائے موت مقرر ہے، لیکن ان سخت ترین سزاؤں کے باوجود ہر ملک میں جاسوس سرگرم عمل رہتے ہیں اور وہ عموماً ایلیٹ کلاس میں گھسے رہتے ہیں اور ان سے ملکوں کے اہم راز حاصل کر کے اپنی حکومتوں کو پہنچاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمے داری بھی ہے اور فرض بھی۔ ہر ملک کے سفارت خانوں کو بھی عموماً جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جاسوسی کا نیٹ ورک اس قدر پھیلا ہوا ہوتا ہے کہ زندگی کے اہم شعبے اس کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی تاریخ دونوں ملکوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی آ رہی ہے۔ حریف ملکوں کی اہم خصوصاً فوجی معلومات تک رسائی اور انھیں اپنی حکومتوں تک پہنچانا جاسوسوں کی اصل ذمے داری ہوتی ہے لیکن حریف ملکوں میں بدامنی پھیلانا عوام کو حکومتوں کے خلاف استعمال کرنا بھی جاسوسوں کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اور یادیو یہ کام انجام دے رہا ہے۔ یادیو نے انکشاف کیا ہے کہ اس کی سرگرمیوں کا دائرہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں تھا بلکہ کراچی کے حالات کو بدتر بنانے میں بھی اس کی خدمات شامل تھیں۔
بلوچستان میں اس قسم کی سرگرمیوں کو جاری رکھنا اس لیے بھی آسان ہے کہ اس کی سرحدیں طویل اور غیر محفوظ ہیں۔ عام لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہر روز ایران سے پاکستان آتے ہیں اور پاکستان سے ایران جاتے ہیں جہاں اس قسم کی سہولتیں حاصل ہوں وہاں ملک دشمن طاقتوں کی سرگرمیاں آزادی سے جاری رہتی ہیں جس کا فائدہ ملک و دشمن طاقتیں اٹھاتی ہیں یادیو بھی یہی کر رہا تھا۔
ہر جاسوس کو خواہ اس کا تعلق کسی ملک سے ہو اس بات کا پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اسے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن وہ یہ انتہائی خطرناک اور رسکی کام دھڑلے سے کرتے ہیں جس کی دو وجوہات ہوتی ہیں ایک قومی مفاد پر پختہ یقین دوسرے دولت۔ جاسوسوں کو نہ صرف ناقابل یقین معاوضہ دیا جاتا ہے بلکہ بے شمار مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ یہ دو ایسے عوامل ہوتے ہیں جو انسانوں کو اس بدترین کام پر اکساتے ہیں۔ جاسوسی کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورتوں نے اس پیشے کو ریاست کے اہم اداروں میں شامل کر کے اس میں بڑی جدتیں پیدا کر دیں۔ جاسوس اصل میں بداعتمادی کی پیداوار ہے اور اس بداعتمادی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اپنے ملک کے حکمرانوں حتیٰ کہ صدر اور وزیر اعظم کی بھی جاسوسی کرتی ہیں اور یہ سارے کام قومی مفاد کے نام پر کیے جاتے ہیں۔
ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ مسلم ملک بھی ہے۔ ایران ''اسلامی جمہوریہ ایران'' کہلاتا ہے اور پاکستان ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کہلاتا ہے۔ آج کی دنیا میں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا رشتہ اقتصادی مفادات کا ہوتا ہے۔
یادیو ایران کی اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آ رہا ہے۔ یادیو کے بیانات اور حقائق کے تناظر میں دونوں ملکوں کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یادیو کے حوالے سے اپنے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھیں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ آج کی دنیا میں ملکوں کے درمیان ''سب سے بڑا رشتہ اقتصادی مفادات'' کا ہوتا ہے۔ ہاں اس بات کا بہرحال نوٹس لیا جانا چاہیے کہ یادیو یہ کام دس سال سے کر رہا ہے اور ہماری ایجنسیوں کو خبر تک نہیں۔ اسامہ بن لادن سے بھی ہماری ایجنسیاں ایسی ہی بے خبری کا مظاہرہ کر چکی ہیں ایسا کیوں؟