سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیاں

گو کہ سیلابوں کا سلسلہ کافی دنوں سے جاری موسلا دھار بارشوں کا بظاہر آخری مرحلہ دکھائی دے رہا تھا۔


امجد عزیز ملک April 11, 2016

ان الفاظ کو سپرد قلم کرنے تک صوبہ خیبر پختون خوا میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران بے وقت سیلابوں کی زد میں آکرکم و بیش پچاس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ متعدد زخمی ہوئے ہیں،گو کہ سیلابوں کا سلسلہ کافی دنوں سے جاری موسلا دھار بارشوں کا بظاہر آخری مرحلہ دکھائی دے رہا تھا۔

لیکن گذشتہ پیر کے روز ضلع کوہستان کے دور دراز علاقے میں آسمانی بجلی گرنے اور پہاڑی سرکنے کے نتیجے میں سات مکانات منہدم ہونے کی بنا پر 30افرادکی ہلاکت نے صورت حال میں بے یقینی کی کیفیت میں مزیداضافہ کردیا،ضلع پشاورسے متصل خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنیوالا سیلابی ریلا نہ صرف صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقوں میں مکانات کے منہدم ہونے اور املاک کو بہا لے جا نے کا باعث بنا بلکہ فصلوںکی تباہی کی صورت میں کسانوں کو بھی ایک نئی آزمائش سے دو چار کر گیا، یہ پہلا موقع نہیں بلکہ حالیہ برسوں کے دوران ایسا ہونا معمول بن چکا ہے، تاہم حالیہ سیلاب ایسے وقت میں آیا جب موسم قدرے زیادہ خنک اور سرد تھالہٰذامتاثرین کی مشکلات بھی دو چند ہو گئیں۔

پشاور میں جب گزشتہ برسات کے مو سم میں طغیانی آئی توشہر کے شمال مغرب میں واقع بڈھنی نالہ پانی کے بہاؤ کو نہ سہار سکا اور اس کے اطراف میں واقع آبادیاںشدید طور پر متاثر ہوئیں،چنانچہ وزیر اعلی خیبرپختون خوا بہ نفس نفیس موقع پر پہنچے اور حالات کا جائزہ لیا، انھوں نے محض گھنٹوںکے اندر اس نالہ کے گرد و پیش میں موجود تجاوزات کے خاتمہ کا نہ صرف فیصلہ کیا، فوری طور پر بھاری مشینری طلب کرکے تجاوزات کا خاتمہ بھی شروع کردیا گیا بلکہ خود ان اقدامات کی نگرانی بھی وزیر اعلیٰ نے کی،متاثرین کے لیے یہ صورت حال یک نہ شد دو شد کے مترادف بن گئی۔لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ یہ علاقہ اس مرتبہ خاطر خواہ حد تک محفوظ رہا۔

البتہ قبائلی علاقہ جات سے نکلنے والے اس سیلابی ریلے نے پشاور شہر کی جنوب مغرب کی جانب واقع علاقوں کو شدید طور پر متا ثر کیااور متعدد خاندانوں کو دکھی کر گیا۔زرعی اراضی اور فصلات کو پہنچنے والے نقصانات کا سیلابوں کی بنا پر متاثر ہونے کا یہ تسلسل اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ ما ضی کے تجربات اور سائنسی تحقیقات کے تناظر میں ان سے بچنے کی تدابیر سے ممکنہ حد تک بچنے کے امکانات کا فائدہ حا صل نہیں کیا جا سکا،غا لباً اس سمت میں ابھی مزید سوچ و فکر کی ضرورت ہے،ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مالی وسائل مختص کر نے ہو ں گے۔

افرادی قوت کو ترقی دینے اور وسائل کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے ابھی شاید کہیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔2010 ء میں اسی وادی تیراہ سے آنیوالے سیلابی ریلے کے نتیجے میں خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں سو برس سے زائد عرصے سے قائم ریلوے نظام تباہ ہو گیا تھا جب کہ دیگر انفراسٹرکچر، مکانات اور املاک بھی تباہ ہو گئی تھیں۔گذشتہ ہفتے بارشوں اور سیلاب سے جانی نقصانات کا آغاز ایجنسی کے علاقہ جبڑ دیولی میں ایک مکان منہدم ہو نے کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کے جاں بحق ہو نے سے ہوا۔

تاہم انفراسٹرکچر کی تباہی کے حوالے سے اب کی بار ضلع شانگلہ اور ضلع دیر لوئر صوبے کے دیگر حصو ں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہو ئے جہاںبعض علاقوں میں سیلابی ریلا شاہراؤں کے نظام کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔گذشتہ دو دہا ئیوں سے سیلابوں اور طغیانیوں کا یہ تسلسل ما حولیاتی اعتبار سے یقیناً گہری تحقیق و توجہ کا متقاضی تو ہے ہی،انفرا سٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے ضمن میں خا طر خواہ حد تک وسائل مختص کر نے کا بھی طلب گار ہے گو کہ موسمیاتی تبدیلیاں، ماحولیات میں تبدیلی کا تسلسل ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ اقوام خصو صاً امریکا جیسی مملکت بھی تمام تر جدید آلات اور تحقیقی وسائل کی دستیابی کے با وجود، سیلابوں، طغیانیوں، سائیکلونز اور سونامیوں کے زد میں آئے بغیر نہیں رہ سکی لیکن بحالی، تعمیر نو اور مستقبل میں اس نو ع کے چیلنجوں سے بچنے کے لیے درکار وسائل کے اعتبار سے ہمیں ابھی بدستور خاطر خواہ حد تک مشکلات کا سامنا رہے گا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں ہی کی بنا پر دنیا کی ہر مملکت میں ایک نئی جہت نے جنم لیا ہے۔ نئی سمت میں حکومتی اور عالمی پا لیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں۔ نئے زاویوں سے متوقع چیلنجوںکی جانچ پرکھ ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ترکی میں بیس ترقی یافتہ اقوام کا اجلاس اس حوالے سے ابھی دور کی با ت نہیں۔

انھی حقائق کا تسلسل ہے کہ وطن عزیز خا ص طور پر خیبر پختون خوا یکے بعد دیگرے مختلف النوع بحرانوں سے دوچار رہا اور اب بھی آزمائشوں کا تسلسل بر قرار ہے۔ساتھ ہی ساتھ قومی اور صو بائی سطح پر بحرانی کیفیتوں سے عہدہ بر آ ہو نے کے لیے نئے ادارے معرض وجود میں لا ئے گئے ہیں، نئی یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم ایک ایسا موافق ما حول جس میں اس نو ع کے ادارے صوبا ئی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بن کر بحیثیت قوم ہماری بہتری اور ترقی کا با عث بن سکیں۔

پیدا ہو نے میں شاید ابھی کچھ وقت مزید لگے گا۔اب جب کہ ہم پانی کے بڑے ذخائراور شاہراؤں کے جدید نظام کی تعمیر کی جانب گامزن ہیں، نہ صرف ما حولیات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی تحقیقی اداروں پر اور زیادہ توجہ دینا لا زمی ضرورت بن گیا ہے بلکہ اس حوالے سے وسائل کو پا ئیدار خطوط پر استوار کرنا بھی وقت کا تقا ضا ہو گیا ہے۔بہر طور سر دست آزما ئشوں کا تسلسل جا ری ہے اور ہم بھی بحیثیت قوم اس غم سے خوگر ہو گئے ہیںاورماحولیاتی تبدیلیاں بھی اس ضمن میں در پیش مشکلات کی ایک اہم کڑی کی حیثیت اختیا ر کر چکی ہے۔

یہاں حکومتی امدادی اداروں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانا مقصود نہیں ان کے پاس وسائل کی کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے نہ تو ان کے پاس وسائل ہیں اور نہ افرادی قوت ہے جو تعمیر نو اور بحالی کے کاموں میں مشکل کا باعث بنتی ہے دوسری طرف قومی اور بین الاقوامی امدادی ادارے جو قدرتی آفات کے موقع پر دل کھول کر مدد کیا کرتے تھے انھوں نے امدادی کاموں میں مبینہ خورد برد کے بعد ہاتھ کھینچ لیے ہیں ،حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیاں بھی این او سی سے مشروط کر دی گئی ہیں ایسے حالات میں متاثرین کی پریشانیوں کا ازالہ کون کرے گا اور انھیں کس قدر سہولتیں دی جائیں گی ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں