خان صاحب ایک بار پھر ’غلطی‘ مت کیجیے

خان صاحب استعفی کے مطالبہ کرکےمیاں صاحب کو آسانی سےمت چھوڑیے،بلکہ تحقیقات کروائی جائےکہ کب اورکتنا پیسا کھایا گیا ہے


تحریک انصاف کو استعفیٰ کا آپشن وزیراعظم کے پاس چھوڑ دینا چاہیئے، کیونکہ شواہد کی بنیاد پر انکوائری ہوئی تو حکمران خاندان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

مئی 2013 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت وجود میں آئی۔ یہی وہ انتخابات تھے جن پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور دھاندلی کی تحقیقات کے لیے تحریک انصاف کیجانب سے 2014 کا دھرنا بھی وجود میں آیا۔ انتخابات کے بعد سے ہی دھاندلی کی آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئی تھی، ابتداء میں ہی عوام کے اس موڈ کو دیکھتے ہوئے تو اصولاً حکومت کو ہوش میں آجانا چاہیے تھا، مگر حکمران جماعت نے کسی کو کوئی گھانس تک نہ ڈالی، یہ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک ہارنے والی پارٹی کی طرف سے دھاندلی کا شور مچانا عام سی بات تھی۔ لیکن پھر حکومت کے لیے خطرے خطرے کی گھنٹی تب بجی جب عمران خان نے پہلے چار حلقوں کا معاملہ اٹھایا اور بعد میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

اس کے بعد حکمران جماعت پر پریشر بڑھنے لگا اور سب کچھ تحریک انصاف کے حق میں جا رہا تھا۔ جب تک بات دھاندلی تک تھی اُس وقت تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر اچانک تحریک انصاف سے ایک غلطی ہوگئی اور انہوں نے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا، اس ایک مطالبہ نے ان کے دھرنے اور ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مختصراً دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئیں اور استعفیٰ کا ایسا کھیل چل نکلا جس کی جنگ میں اگلے انتخابات کو دھاندلی سے شفاف بنانے کا عزم، بائیومیٹرک ووٹنگ، آزاد الیکشن کمیشن، وغیرہ وغیرہ جیسے سارے دعوے سرد خانے میں جاپہنچے۔

اب آتے ہیں پانامہ لیکس کی جانب، 2015 کے آغاز میں ایک نامعلوم شخص نے فرضی نام John Doe استعمال کرکے جرمنی کے اخبار Suddeutsche Zeitung کو 11.5 ملین خفیہ دستاویزات بھجوائیں جن میں پانامہ کی کمپنی موزیک فونیسکا کے ذریعے پوری دنیا کے اہم لوگوں کی جانب سے رجسٹرڈ کروائی گئیں 2 لاکھ 14 ہزار آف شور کمپنیوں کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ اخبار نے اپنے پارٹنر انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگٹو جرنلسٹس کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا اور اسکی پہلی اسٹوری 3 اپریل 2016 کو بریک ہوئی۔ وکی لیکس کے بعد یہ دوسری ایسی لیکس تھیں جس نے دنیا بھر میں ہلچل مچادی۔

دنیا بھر میں شور اس بات پر اُٹھا کہ حکمرانوں نے اپنا پیسہ عوام سے چھپایا اور اپنے اثاثوں کے متعلق جھوٹ بولا۔ اس کو پاکستانی عوام کی خوش قسمتی کہیں یا حکمران خاندان کی بد قسمتی کہ ان لیک ہونے والے پیپرز میں حکمران خاندان کا نام بھی آگیا۔ ان لیکس کا پہلا شکار آئس لینڈ کے وزیرِ اعظم بنے جن کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے استعفیٰ دے کر جان چھڑائی۔ جیسے جیسے بات بڑھتی جا رہی ہے دنیا بھر میں مظاہروں میں تیزی آ رہی ہے، لندن میں مظاہرین نے برطانوی وزیراعظم کے گھر کے باہر احتجاج میں ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

پاکستان کی بات کریں تو کچھ دن پہلے تک حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ پوری دنیا میں اٹھے شور کو یہاں حکومتی وزراء کبھی شیطانی لیکس تو کبھی پاجامہ لیکس قرار دے رہے تھے۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کی پارٹی پہلے دن سے ہی حکمران خاندان کی جائیدادوں اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، مگر کل اپنے خطاب میں انہوں نے وزیراعظم سے باقاعدہ استعفیٰ کا مطالبہ بھی کردیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ ان کے پاس حکومت کرنے کا اب کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ گیا۔

عمران خان صاحب سے ایک سوال تو بنتا ہے کہ ضروری کیا ہے؟ استعفیٰ یا تحقیقات؟ چلیں ایک لمحہ کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ ہم ایک مثالی دنیا میں رہتے ہیں جہاں عمران خان نے وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگا اور نواز شریف استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے تو پھر اس کے بعد اب کیا ہوگا؟ کیا وہ سارے الزامات جو اب تک ان پر لگتے آئے ہیں، سچ ثابت ہوجائیں گے؟ کیا وہ سارا پیسہ جو مبینہ طور پر ملک سے باہر منتقل ہوا واپس آجائے گا؟ کیا منی لانڈرنگ کرنے والوں کو سزا مل جائے گی؟ کیا اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں چلی جائے گی؟ اب اور کچھ نہیں تو اتنا ضرور ہوگا کہ معاملہ دب جائے گا، حکومت اپنی نیک نیتی یا اپوزیشن اپنی فتح کا جشن منائے اور الله الله خیر صلا سب معاملات حل۔

چونکہ ہم مثالی دنیا میں نہیں رہتے اور یہاں استعفیٰ اور ذاتی احتساب کو کسی کھاتے میں نہیں لایا جاتا اس لیے اب معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ خان صاحب نے ایک جانب سے استعفیٰ مانگ لیا، دوسری جانب سے حکومتی وزراء ان پر الفاظ کی بارش کرتے اُمڈ آئیں گے اور یہ معاملہ ٹی وی ٹاک شوز، اخبارات کے صفحہ اول اور الفاظ کے شور میں شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا۔

یوں ایک بار پھر معاملہ استعفیٰ استعفیٰ شروع ہوجائے گا اور اصل معاملے کے بجائے قوم کسی اور جانب چل پڑے گی۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کو یہ چاہیے تھا کہ وہ استعفیٰ کے بجائے حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ اپوزیشن کی مشاورت سے ایسا کمیشن بنائے جو وزیراعظم کے دباؤ سے آزاد ہو اور وہ شریف خاندان کے اثاثوں، بیرون ملک پیسے کی منتقلی، سیاست میں آنے سے پہلے اور بعد میں بنائے گئے اثاثوں کی تفصیلات اور جتنی بھی مشکوک سرگرمیاں ہوئیں ان کی چھان بین کرے اور جب تحقیقات یہ سب کچھ ثابت کردیں تو سیاست میں ان کے مستقبل کا فیصلہ عوام کریں۔

جیسا کہ پچھلے کچھ دنوں سے مختلف چینلوں پر وزیراعظم کے صاحب زادے کے انٹرویوز کا سلسلہ چلا ہوا ہے اور اب تک جتنا کچھ انہوں نے کہا ہے وہ زمینی حقائق اور دستاویزات سے مطابقت نہیں رکھتا، اور کھوج لگانے پر حقیقت سے کوسوں دور معلوم ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کو استعفیٰ کا آپشن وزیراعظم کے پاس چھوڑ دینا چاہیئے تھا کیونکہ اگر شواہد پر انکوائری ہوئی تو حکمران خاندان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، ورنہ حکمران جماعت کے مطابق یہ نواز شریف کو کرسی سے ہٹانے کی تحریک کہلائے گی۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ بیرون ملک کاروبار وزیراعظم کے بیٹے کر رہے ہیں اور وزیراعظم کا ذاتی طور پر اس سے کوئی تعلق نہیں، مگر جس دن عمران خان نے پانامہ لیکس میں شریف خاندان کے ناموں پر سخت موقف اپنایا، حکومتی وزراء نے وزیراعظم کے بیٹوں کی طرف سے حقائق کی بنیاد پر جواب کے بجائے جواب میں شوکت خانم پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ جب کہ ان کو یہ خبر نہیں کہ یہ 1999 نہیں بلکہ 2016 ہے، جس میں نہ تو بی بی سی کی ڈاکیومنٹری روکی جا سکتی ہے اور نہ ہی میڈیا کو سوالات پوچھنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ایک جانب وزیر اعظم پوری دنیا کے چکر لگاتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے فوائد بتاتے ہیں مگر ان کے اپنے صاحب زادے ٹی وی پر آ کر یہ پوچھتے ہیں کہ مجھے اس ملک میں ٹیکس دینے پرکتنے نفلوں کا ثواب ملے گا؟

[poll id="1060"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں