13 ویں آل پاکستان میوزک کانفرنس
موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اور بجا طور پرکہا جاتا ہے کیونکہ اس سے ہمارے ذوق سماعت کی تسکین ہوتی ہے۔
SWAT:
موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اور بجا طور پرکہا جاتا ہے کیونکہ اس سے ہمارے ذوق سماعت کی تسکین ہوتی ہے۔ بزم یا رزم ہماری زندگی میں موسیقی کا کردار بڑا اہم ہے۔
اس حوالے سے انگریزی کے ایک معروف کلاسیکی شاعر جان ڈرائیڈن کی ایک خوبصورت نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان ہے A song from Atlanta in Calydon۔ شاعر نے اس نظم میں موسیقی کی اہمیت اور ہمہ گیریت کو اجاگرکرتے ہوئے اس حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ موسیقی ہماری زندگی کا کس کس طرح سے احاطہ کرتی ہے۔ انگریزی زبان کے ہی ایک اور مشہور و معروف شاعر پی۔ بی شیلے نے اپنی ایک انتہائی مختصر نظر بعنوان Music, When Soft Voices Die میں موسیقی کی سحر انگیزی کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں موسیقی کی تاریخ بہت قدیم بھی ہے اورطویل بھی جس میں مغلیہ دورکے یکتائے روزگار موسیقار میاں تان سین کا نام سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی کے حوالے سے امیر خسروکا نام بھی کچھ کم اہم نہیں، جن کی ایجادات کے گن آج بھی گائے جاتے ہیں۔کلاسیکی موسیقی برصغیر کی بے مثل موسیقی کی جان پہچان اور شان ہے۔
اس طویل فہرست میں بڑے بڑے نام ور استادان فن کے اسمائے گرامی شامل ہیں اور موسیقی کے مشہور و معروف گھرانوں کے نام آج بھی نہایت ادب و احترام کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان نام ور موسیقاروں کی فہرست میں مسلمان موسیقاروں کی اکثریت غالب ہے جن میں استاد بڑے غلام علی خان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ہمیں ان سے ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں البتہ استاد چھوٹے غلام علی خان سے نیاز حاصل کرنے کی سعادت ضرور حاصل رہی ہے۔
اللہ بخشے وہ بھی بڑے پایہ کے موسیقار تھے اور نہایت ہنس مکھ اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ ہماری ان سے ملاقات ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی جو برسوں پرانی بات ہے۔ جب ہم نے استاد بڑے غلام علی خان (مرحوم) کا تذکرہ چھیڑا تو ہنس کر فرمایا کہ میاں چھوٹے کہو یا بڑے اب تو ہم ہی غلام علی خان باقی رہ گئے ہیں۔ بعض موسیقاروں خصوصاً کلاسیکل موسیقاروں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ گاتے ہوئے ان کا چہرہ بگڑ جاتا ہے۔ جب ہم نے یہ بات استاد چھوٹے غلام علی خان سے کہی تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میری ریکارڈنگ کے وقت آپ اپنے ساتھ جوتا لے کر بیٹھیں اور جوں ہی میرے چہرے پر بگاڑ نظر آئے بلا جھجک میرے منہ پر جوتا رسید کردیں۔
ہم نے فوراً ان کی خدمت میں عرض کیا کہ استاد ہم تو ایسی گستاخی اور بے ادبی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جواباً انھوں نے فرمایا کہ یہ ہماری شرط بھی ہے اور حکم بھی۔ قصہ مختصر تقریباً دو گھنٹے کی مجموعی ریکارڈنگ کے اختتام پر انھوں نے شکایتاً فرمایا کہ آپ نے ہمارے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی۔ ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ پورے عرصے کے دوران گاتے ہوئے آپ کے چہرے پر خوش گواری اور شگفتگی نمایاں رہی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ مسلسل مسکرا رہے ہوں۔ استاد موصوف کے انتقال کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کے ساتھ یہ ناقابل فراموش ملاقات ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔
استاد نزاکت علی خان بھی کچھ کم پایہ کے موسیقار نہیں تھے اور ان سے بھی ہماری بڑی ملاقاتیں رہیں۔ وہ جب بھی لاہور سے کراچی تشریف لاتے تھے ہمارے پاس ریڈیو پاکستان ضرور تشریف لاتے تھے۔ اس کے علاوہ استاد احمد علی خان، رحمت علی خان سے بھی ہمارے بہت اچھے مراسم رہے مگر ان کی شکایت تھی کہ وطن عزیز میں کلاسیکی موسیقی زوال پذیر ہے۔ ہمارے خیال میں ان کی یہ شکایت کسی حد تک بجا تھی کیونکہ برصغیرکی آزادی کے بعد موسیقار امرا و رؤسا کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔
نامساعد حالات میں ریڈیو ہی وہ واحد منظم ادارہ تھا جس نے موسیقاروں کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کا کردار نہایت اہم بھی ہے اور لائق تحسین بھی۔ پھر اس کے بعد پی ٹی وی نے بھی کلاسیکی موسیقی کو بڑی حد تک سنبھالا اور سپورٹ کیا۔ اس کے علاوہ انفرادی سطح پر بھی بعض اہل ذوق نے کلاسیکی موسیقی کی ممکنہ حد تک سرپرستی کی اور آل پاکستان میوزک کانفرنس نے اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کیا اور یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔
ابھی حال ہی میں انڈس ریلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر کراچی میں 13 ویں آل پاکستان میوزک کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسی عظیم الشان محفل موسیقی میں عائشہ علی، محمود علی خان، اکمل قادری،استاد فتح علی خان اور نجم الدین سیف الدین قوال اور ان کے ہم نواؤں نے اہل ذوق سامعین کے دلوں کو اپنی پرفارمنس سے گرما دیا۔ عائشہ علی نے خیال گائیگی سے اس خوبصورت محفل کا آغازکیا اور سامعین پر سحر طاری کردیا۔ انھوں نے گائیکی کی ابتدا اپنی زندگی میں قدرے تاخیر سے کی مگر گزشتہ 12 برس سے پورے انہماک کے ساتھ اس فن کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
خیال اور دھرپدکی گائیکی انھوں نے استاد حفیظ خان سے سیکھی ہے اور وہ آج بھی خود کو ایک طالبہ ہی سمجھتی ہیں۔ عاجزی اور انکساری عائشہ خان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت ہے اور غروروتکبر انھیں چھوکر بھی نہیں گزرا ہے۔ وہ اپنی ذاتی عظمت کی نہیں بلکہ عظمت فن کی قائل ہیں اور اپنے ان ہی اوصاف کی وجہ سے بے حد ہر دلعزیز ہیں۔
انھیں بھی یہی شکایت ہے کہ وطن عزیز میں کلاسیکل موسیقی کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی یہ مستحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کلاسیکل موسیقی کی اہمیت کا تعین مارکیٹ کے رجحانات سے نہیں بلکہ کوالٹی کے پیمانے پر کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پرکلاسیکل موسیقی کو اہم مقام دیا جانا چاہیے۔ جس طرح ہمارے ملک کے بڑے بڑے ادارے اسپورٹس کی سرپرستی کررہے ہیں اسی طرح کلاسیکی موسیقی کی بقا اور فروغ کے لیے بھی ان کی مالی اعانت اور سرپرستی کی اشد ضرورت ہے ورنہ رفتہ رفتہ ہم اس عظیم ورثے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے۔ حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سلسلے میں مزید تاخیر اورغفلت کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
استاد محمود علی خان نے اپنی خوبصورت اور دل پذیر پرفارمنس سے محفل کو لوٹ لیا۔ ان کا ترانہ اور ٹھمری سن کر تمام سامعین جھوم اٹھے اور سب پر ایک جادو سا چل گیا۔ راگ ایمن کو انھوں نے اس کمال کے ساتھ پیش کیا کہ لوگ عش عش کرتے ہوئے رہ گئے۔ طبلہ پر استاد بشیر کی سنگت نے ان کی منفرد اور دلفریب گائیکی کو چار چاند لگادیے۔
کلاسیکی موسیقی ایک منضبط موسیقی ہے جس کے نپے تلے پیمانے اور طے شدہ قواعد وضوابط ہیں۔ یہ پاپ میوزک کی طرح بے سروپا موسیقی نہیں ہے، جس کے بارے میں ایک فلمی گانے میں یوں کہا گیا ہے:
ٹین کنستر پیٹ پیٹ کر' گلا پھاڑ کر چلانا
یار مرے مت برا مان یہ گانا ہے نہ بجانا ہے
موسیقی کی یہ حسین اور یادگار شام عظیم ستار نواز استاد امداد حسین خان کے نام بھی تھی جن کا ابھی حال ہی میں 28 مارچ کو انتقال پرملال ہوا ہے۔ یہ محفل موسیقی اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس میں آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے پرفارمنس کے دوران خاموشی اختیار کی گئی تاکہ ماحول خراب نہ ہو۔ اس سلسلے میں دعوت ناموں پر خاص ہدایت تحریر کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سامعین سے اپنے اپنے موبائل فون بند رکھنے کی بھی درخواست کی گئی تھی جس کی مکمل تعمیل کی گئی۔ پرفارمنس کے دوران تالیاں بجانے سے بھی منع کیا گیا تھا جس ہدایت پر بھی سامعین نے سختی کے ساتھ عمل کیا۔
آل پاکستان میوزک کانفرنس، کراچی کا قیام 2004 میں عمل میں آیا تھا جس کے بعد سے آج تک یہ ادارہ موسیقی کی خدمت و فروغ کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس محفل موسیقی میں داخلہ بالکل مفت ہے۔ موسیقی کی اس بے لوث خدمت کے لیے تمام منتظمین زیادہ سے زیادہ تعریف و تحسین کے مستحق ہیں۔