موسمیاتی تبدیلیاں جنگی حکمت عملی کی ضرورت
ایسی ہی ایک رپورٹ میں برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کے لیے حقیقی بڑے خطرے کا انکشاف کیا ہے۔
RAWALPINDI:
پاکستان میں سمندری تحقیق کے اہم ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی نے ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے مکمل ڈوبنے کاخدشہ ظاہرکیا ہے، تحقیقی ادارے کا دعویٰ ہے کہ آیندہ 25سے 35سال میں کراچی مکمل طور پر ڈوب جائے گا، رپورٹ کے مطابق ملیرکا کچھ حصہ ڈوب چکا ہے اور آنیوالے سالوں میں پورا شہر غرق آب ہو جائے گا۔ انتباہ دیا گیا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو کروڑوں افراد ماحولیاتی مہاجر بن سکتے ہیں۔
ایسی ہی ایک رپورٹ میں برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کے لیے حقیقی بڑے خطرے کا انکشاف کیا ہے۔ میگزین لکھتا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور سطح سمندرکی بلندی دہشتگردی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات میں تیزی سے ہوتا اضافہ بھی سیاسی و معاشی عدم استحکام کی طرح پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اکانومسٹ نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 17ملین کی آبادی پر مشتمل کراچی کو اس وقت گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
اسی طرح عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں شدید موسم کے کئی ریکارڈ ٹوٹے ہیں جو پوری دنیا کے لیے تشویش کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ ورلڈ میٹسیورولوجیکل آرگنائیزیشن کے مطابق 2015 میں جنوبی ایشیاء میں گرمی کی شدید لہر نے متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے آب و ہوا میں جس طرح کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں اس کی جدید عہد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
برطانوی موسمیاتی ماہر کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں میں اضافے سے گرمی جمع ہونے میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ گرمی اب سمندروں کی گہرائی میں اتر رہی ہے، ماہرین کے مطابق رواں برس جنوری اور فروری میں ہوا میں گرمی ان مہینوں کے مقابلے میں سب سے بلند دیکھی گئی ہے جب کہ 2016کے آغاز میں اس بلند درجہ حرارت نے موسمیاتی ماہرین کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت اور پاکستان میں رونما ہونے والی گرمی کی شدید لہرکو بھی شامل کرتے ہوئے مزید خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ تینوں رپورٹس میں اس بات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے کہ ایک جانب سمندر سندھ و بلوچستان کی زمین نگلتا جارہا ہے تو دوسری جانب بڑھتا ہوا درجہ حرارت اورگرمی کی شدت سے براہ راست پاکستانی عوام متاثر ہورہے ہیں۔
گزشتہ کئی سال سے پاکستانی عوام ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا خود مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ تباہ کن سیلابوں سے بے گھر ہوتے لاکھوں لوگ، تھر اور بلوچستان میں بڑھتی خشک سالی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا ہی نتیجہ ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں گلیشئرزکے پگھلنے اور بارشوں کی زیادتی سے سیلابوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہرکراچی میں گرمی کی شدید لہروں سے متاثر ہونے کے سبب 1500سو سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں طوفانی بارشوں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی، سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، سیکڑوں مکان تباہ ہوئے۔ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دن رات کام جاری ہے، ترقیاتی یافتہ ممالک ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کررہے ہیں، مگر ہمارے حکمران موسمیاتی تبدیلیوں کے آیندہ خطرات سے قطعی لاپروا ہیں۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر جب دنیا کی توجہ قدرتی آفات کے خطرات کی انتظام کاری کی طرف مبذول ہوئی تو اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق رابطے کے ادارے (UNOCHA) اور انٹرنیشنل فار ڈیزاسٹر ریڈکشن کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف ممالک میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسیز بنائی جانے لگیں۔ ہم بھی اسی طرح کے تجربے سے گزرے لیکن وہ تجربہ کافی عرصے تک کاغذوں سے باہر نہیں نکل پایا، پھرکاغذوں سے باہر آیا تو این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایزکے دفاتر کی عمارتوں میں قید ہوگیا اور متعدد قدرتی آفات کے باوجود آج تک وہیں قید ہے۔
اس وقت بھی خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشوں نے تباہی مچارکھی ہے، لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، زندگی بھر کی جمع پونجی پانی میں بہتی چلی جارہی ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے ارد گرد عوام اور ان کے مسائل سے لاتعلقی کی اونچی دیواریں تعمیر کررکھی ہیں، اصل دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہاں ایک روز سانحے ہوتے ہیں اور دوسرے روز بھلادیے جاتے ہیں، نہ کوئی سبق سیکھا جاتا ہے نہ کوئی روک تھام ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہر برس آنیوالے سیلاب ہیں جو تباہی مچاتے ہوئے آتے ہیں اور راہ میں آنیوالی ہر شے کو حقارت سے روندتے چلے جاتے ہیں۔ ہر سال حکام معائنے کے لیے نکلتے ہیں، اپنے دکھوں کا رونا رونے والوں کے سامنے حکام کی آمد سے پہلے امدادی کیمپ سجائے جاتے ہیں، مستعد عملہ سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے، حکمران آتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، وعدے ہوتے ہیں کہ جب تک ایک ایک انسان کو دوبارہ بسا نہیں دیا جائے گا حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔
یہ کہہ کر حاکم وقت روانہ ہوجاتا ہے اور اس کے جاتے ہی سارا امدادی کیمپ لپیٹ کر اگلے پڑاؤ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ سال رفتہ کراچی سمیت دیگر صوبوں میں موسم کے گرم ترین دن ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنتے رہے، ارباب اختیار کے لیے اہم ترین سوال آنیوالی گرمیاں ہیں ،جس دن سورج سوا نیزے پر آجائے گا اس وقت موسمی حملے کا جواب بہتر منصوبہ بندی سے دینا وفاقی وصوبائی حکومتوں کا فرض ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کا جلال اپنے پورے قہرکے ساتھ نازل ہونے کو تیار ہے، جس سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس سے قبل کے پانی سر سے اونچا ہوجائے خدارا غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیے۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں سے پیش آنے والے ماحولیاتی خطرے کوکم کرنے اور مستقبل میں ان آفات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ارباب اختیار، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ماہرین ملکر ایک میکنزم یا ماسٹر پلان تیار کریں، موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش بندی کے طور پر وسیع پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی روکنے، نئے جنگلات لگانے، ماحولیات کے خلاف صنعتوں کو کنٹرول کرنے، سیلاب روکنے کے منصوبوں پر زیادہ توجہ، واٹر شیڈ اور پانی کے ذخائر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ، ریڈار سسٹم کو اپ گریڈ کرنے اور پورے ملک کو سیٹلائٹ نظام سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے اگر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادیاں اور شہر اجڑجائیں گے۔
پاکستان میں سمندری تحقیق کے اہم ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی نے ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے مکمل ڈوبنے کاخدشہ ظاہرکیا ہے، تحقیقی ادارے کا دعویٰ ہے کہ آیندہ 25سے 35سال میں کراچی مکمل طور پر ڈوب جائے گا، رپورٹ کے مطابق ملیرکا کچھ حصہ ڈوب چکا ہے اور آنیوالے سالوں میں پورا شہر غرق آب ہو جائے گا۔ انتباہ دیا گیا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو کروڑوں افراد ماحولیاتی مہاجر بن سکتے ہیں۔
ایسی ہی ایک رپورٹ میں برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کے لیے حقیقی بڑے خطرے کا انکشاف کیا ہے۔ میگزین لکھتا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور سطح سمندرکی بلندی دہشتگردی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات میں تیزی سے ہوتا اضافہ بھی سیاسی و معاشی عدم استحکام کی طرح پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اکانومسٹ نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 17ملین کی آبادی پر مشتمل کراچی کو اس وقت گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
اسی طرح عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں شدید موسم کے کئی ریکارڈ ٹوٹے ہیں جو پوری دنیا کے لیے تشویش کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ ورلڈ میٹسیورولوجیکل آرگنائیزیشن کے مطابق 2015 میں جنوبی ایشیاء میں گرمی کی شدید لہر نے متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے آب و ہوا میں جس طرح کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں اس کی جدید عہد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
برطانوی موسمیاتی ماہر کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں میں اضافے سے گرمی جمع ہونے میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ گرمی اب سمندروں کی گہرائی میں اتر رہی ہے، ماہرین کے مطابق رواں برس جنوری اور فروری میں ہوا میں گرمی ان مہینوں کے مقابلے میں سب سے بلند دیکھی گئی ہے جب کہ 2016کے آغاز میں اس بلند درجہ حرارت نے موسمیاتی ماہرین کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت اور پاکستان میں رونما ہونے والی گرمی کی شدید لہرکو بھی شامل کرتے ہوئے مزید خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ تینوں رپورٹس میں اس بات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے کہ ایک جانب سمندر سندھ و بلوچستان کی زمین نگلتا جارہا ہے تو دوسری جانب بڑھتا ہوا درجہ حرارت اورگرمی کی شدت سے براہ راست پاکستانی عوام متاثر ہورہے ہیں۔
گزشتہ کئی سال سے پاکستانی عوام ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا خود مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ تباہ کن سیلابوں سے بے گھر ہوتے لاکھوں لوگ، تھر اور بلوچستان میں بڑھتی خشک سالی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا ہی نتیجہ ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں گلیشئرزکے پگھلنے اور بارشوں کی زیادتی سے سیلابوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہرکراچی میں گرمی کی شدید لہروں سے متاثر ہونے کے سبب 1500سو سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں طوفانی بارشوں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی، سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، سیکڑوں مکان تباہ ہوئے۔ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دن رات کام جاری ہے، ترقیاتی یافتہ ممالک ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کررہے ہیں، مگر ہمارے حکمران موسمیاتی تبدیلیوں کے آیندہ خطرات سے قطعی لاپروا ہیں۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر جب دنیا کی توجہ قدرتی آفات کے خطرات کی انتظام کاری کی طرف مبذول ہوئی تو اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق رابطے کے ادارے (UNOCHA) اور انٹرنیشنل فار ڈیزاسٹر ریڈکشن کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف ممالک میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسیز بنائی جانے لگیں۔ ہم بھی اسی طرح کے تجربے سے گزرے لیکن وہ تجربہ کافی عرصے تک کاغذوں سے باہر نہیں نکل پایا، پھرکاغذوں سے باہر آیا تو این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایزکے دفاتر کی عمارتوں میں قید ہوگیا اور متعدد قدرتی آفات کے باوجود آج تک وہیں قید ہے۔
اس وقت بھی خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشوں نے تباہی مچارکھی ہے، لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، زندگی بھر کی جمع پونجی پانی میں بہتی چلی جارہی ہے، مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے ارد گرد عوام اور ان کے مسائل سے لاتعلقی کی اونچی دیواریں تعمیر کررکھی ہیں، اصل دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہاں ایک روز سانحے ہوتے ہیں اور دوسرے روز بھلادیے جاتے ہیں، نہ کوئی سبق سیکھا جاتا ہے نہ کوئی روک تھام ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہر برس آنیوالے سیلاب ہیں جو تباہی مچاتے ہوئے آتے ہیں اور راہ میں آنیوالی ہر شے کو حقارت سے روندتے چلے جاتے ہیں۔ ہر سال حکام معائنے کے لیے نکلتے ہیں، اپنے دکھوں کا رونا رونے والوں کے سامنے حکام کی آمد سے پہلے امدادی کیمپ سجائے جاتے ہیں، مستعد عملہ سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے، حکمران آتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، وعدے ہوتے ہیں کہ جب تک ایک ایک انسان کو دوبارہ بسا نہیں دیا جائے گا حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔
یہ کہہ کر حاکم وقت روانہ ہوجاتا ہے اور اس کے جاتے ہی سارا امدادی کیمپ لپیٹ کر اگلے پڑاؤ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ سال رفتہ کراچی سمیت دیگر صوبوں میں موسم کے گرم ترین دن ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنتے رہے، ارباب اختیار کے لیے اہم ترین سوال آنیوالی گرمیاں ہیں ،جس دن سورج سوا نیزے پر آجائے گا اس وقت موسمی حملے کا جواب بہتر منصوبہ بندی سے دینا وفاقی وصوبائی حکومتوں کا فرض ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کا جلال اپنے پورے قہرکے ساتھ نازل ہونے کو تیار ہے، جس سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس سے قبل کے پانی سر سے اونچا ہوجائے خدارا غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیے۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں سے پیش آنے والے ماحولیاتی خطرے کوکم کرنے اور مستقبل میں ان آفات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ارباب اختیار، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ماہرین ملکر ایک میکنزم یا ماسٹر پلان تیار کریں، موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش بندی کے طور پر وسیع پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی روکنے، نئے جنگلات لگانے، ماحولیات کے خلاف صنعتوں کو کنٹرول کرنے، سیلاب روکنے کے منصوبوں پر زیادہ توجہ، واٹر شیڈ اور پانی کے ذخائر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ، ریڈار سسٹم کو اپ گریڈ کرنے اور پورے ملک کو سیٹلائٹ نظام سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے اگر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادیاں اور شہر اجڑجائیں گے۔