گائیکی کی قدر کیجیے تماشے کی نہیں

اصل فن وہ ہوتا ہے جس کو تلاشنے والے کی آنکھ شناخت کرلیتی ہے اور رکشہ ڈرائیور ماسٹر اسلم کا فن اسکی جیتی جاگتی مثال ہے

طاہر شاہ کو مقبولیت کی چوٹی تک پہنچانے والے میڈیا سے عرض ہے کہ اگر آپ کو فنکار کی قدر کا اتنا اندازہ ہے تو ماسٹر اسلم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کیجئے۔ فوٹو: ایکسپریس

فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، اخبار، چینل، ریڈیو، ویب سائٹ ہر جگہ اینجل ہی اینجل، حد ہی ہوگئی، ارے یہ فرشتوں کا تذکرہ نہیں بلکہ اودے پیرہن میں ملبوس، قدرے فربہ سے انسان نما فرشتے، اینجل شاہ مطلب طاہر شاہ کے تازہ گانے کا ذکر ہے۔ بے تکے بولوں اور بے سری موسیقی کے باوجود گانے کی مقبولیت جنگل کی آگ کی طرح دنیا میں پھیل گئی۔ کیا پاکستان، بھارت، اب تو بات برطانیہ اور امریکا تک جاپہنچی ہے۔



اگر شوخ رنگ لباس میں لہلہا لہلہا کر گھاس پر ٹہلنا گلوکاری ہے تو طاہر شاہ کی مقبولیت سمجھ آتی ہے لیکن اگر میٹھی آواز میں سروں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ کسی کلام کو پیش کرنا موسیقی ہے تو معاف کیجئے گا طاہر شاہ صاحب یہ ناقابل برداشت ہے، اور جب آپ اپنے مذاق کے ساتھ گلوکار کہلا سکتے ہیں تو کراچی کے سریلے رکشہ ڈرائیور ما سٹر اسلم کو کیا خطاب دیا جائے؟

جی ہاں طاہر شاہ جو مسلسل 4 روز سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، ان کی مشہوری کی وجہ گائیکی تو ہرگز نہیں کہلائی جاسکتی۔ سمجھ میں نہ آنے والی شاعری اور بے سرے پن کا بھونڈا مکسچر فن گائیکی کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ رنگ برنگے لباس میں، چھڑی تھام کر، پر لگا کر مضحکہ خیز انداز میں خود کو انسانیت کا فرشتہ کہلانا، یقینی طور پر موجودہ حالات میں دکھی انسانیت کو مسکراہٹ دینے کا ایک طریقہ تو کہلایا جاسکتا ہے جس پر آپ واقعی سراہے جانے کے لائق ہیں۔ لیکن بحثیت گلوکار یہ کسی بھی پیمانے پر پورا نہیں اترتا، اصل فن تو وہ ہوتا ہے جس کو تلاشنے والے کی آنکھ شناخت کرلیتی ہے اور اس کیلئے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

ایسا ہی معاملہ رکشہ ڈرائیور ماسٹر اسلم شاہ کا بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے والے اس فنکار کا تعلق کراچی کےعلاقے گلستان جوہر کے پرفیوم چوک سے ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ دوران سفر رکشہ والے بھائی صاحب نے جب اپنی سریلی آواز میں پکے راگ والی ٹھمری گائی تو با ذوق مسافر ان کی یہ خوبی پہچان گیا اور اس نے سب سے آسان اور سستا میڈیا استعمال کرتے ہوئے جھٹ سے موبائل فون نکالا اور ان کا گانا ریکارڈ کرکے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کردیا۔ جہاں سے یہ مقبول ہوتا برصغیر کی معروف اور شاید سب سے بڑی گلوکارہ لتا منگیشکر تک جا پہنچا، لتا جی قدر شناس ہیں، وہ بھانپ گئیں کہ اس رکشہ ڈرائیور کا اصل مقام کیا ہے۔

قابل غور بات تو یہ ہے کہ لتا منگیشکر نے نہ صرف اسے اپنے فیس بک پیج پر شئیر کیا بلکہ پیغام بھی دیا کہ میں یہ سن کر حیران ہوں آپ بھی سنئیے، میں دل سے چاہتی ہوں کہ یہ رکشہ نہ چلائے بلکہ مائیک کے سامنے کھڑا ہو۔


https://www.facebook.com/LataMangeshkar/videos/1770120466552195/?permPage=1

تو اب بتائیے کہ اصل میں گلوکار کون ہے؟ جو بغیر کسی تشہیر اور پیسے کے اپنا آپ منوالے یا کثیر رقم خرچ کرکے، گلیمر زدہ ماحول میں، بھونڈی اور بد وضع شاعری کو گا کر توجہ حاصل کرلے۔

ساتھ ساتھ بھارتی اداکارہ ٹوئینکل کھنہ سے بھی کہنا چاہوں گی کہ آپ نے طاہر شاہ کا مذاق اڑانے میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن ذرا ایک نظر اس فنکار پر بھی کیجئے اور دیکھئے کہ لتا صاحبہ کیا پیغام دے رہی ہیں۔

طاہر شاہ کو مقبولیت کی چوٹی تک پہنچانے میں بلاشبہ میڈیا کا ہاتھ ہے اور ہمیں اس پر اعتراض بھی نہیں، اعتراض ہے تو فقط اس بات پر کہ آپ طاہر شاہ کی تخلیق کو کچھ بھی نام دیجئے لیکن موسیقی کا لیبل ہرگز نہ لگائیے، اگر آپ کو فنکار کی قدر کا اتنا اندازہ ہے تو ماسٹر اسلم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کیجئے، آپ لوگ چاہیں گے تو وہ دن بھی دور نہیں ہوگا کہ جب لتا منگیشکر کی خواہش پوری ہوجائی گی۔

[poll id="1062"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story