پاناما لیکس اندیشۂ سود و زیاں

وطنِ عزیز سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ہلچل سی مچی ہوئی ہے


Dr Mansoor Norani April 13, 2016
[email protected]

جب سے عالمی سطح پر پاناما پیپرز کا تہلکہ خیز اجرا ہوا ہے، وطنِ عزیز سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ آئس لینڈ، اسپین، نیدرلینڈز اور فرانس سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اِس سلسلے میں تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ ہمارے یہاں بھی وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے بصیرت اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے فوراً سے پیشتر جوڈیشل کمیشن کا اعلان کر کے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے وہ سیاسی رہنما جو گزشتہ تین برسوں سے اِس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اِس حکومت کو کام کرنے سے روک دیا جائے، اپنے عزائم کے حصول میں کامیاب ہو پائیں۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے لوگ ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کر کے ملک کے اندر افراتفری اور عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے کے در پے رہتے ہیں تا کہ حکومت اقتدار کے پانچ سال پورے نہ کر پائے۔ اُن کی یہ مجبوری ہے کیونکہ اگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر اُن کے لیے اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ایک سعی لاحاصل بن جائے گا۔ اُنہیں بخوبی علم ہے کہ انتہائی مشکل حالات کی باجود میاں صاحب کی حکومت نے ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر عرصہ دراز سے جاری دہشت گردی پر نہ صرف قابو پا لیا ہے بلکہ دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا بھی کر دیا ہے۔

کراچی شہر میں بھی رینجرز کے ذریعے آپریشن کر کے بڑی حد تک امن و امان بحال کر دیا گیا ہے۔ توانائی کا بحران بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے اندر گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے بہتر سسٹم کے لیے بس، ریلوے اور قومی ائیر لائنز کو نئے سرے سے سنوارا جا رہا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میٹرو سروس کی کامیاب تکمیل کے بعد اُسے اب ملتان اور کراچی میں بھی شروع کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ موٹر وے کے ایکسٹینشن سمیت پاک چائنا کوریڈور منصوبے پر بھی تیزی کے ساتھ کام ہونے لگا ہے۔ اِن سب منصوبوں میں پاک چائنا کوریڈور ایک ایسا منصوبہ ہے جسے ناکام بنانے کے لیے ہمارے سارے غیر ملکی ایجنٹ اور دشمن متحدویکجا ہو چکے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکے۔ لٰہذا وہ ہر حال میں اِسے سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ اِدھر ہمارے کچھ نادان دوست بھی اپنے غیر ذمے دارانہ طرز عمل کے باعث ملک کے اندر محاذ آرائی اور انارکی کی فضا پیدا کر کے اِن غیر ملکی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو مزید مہمیز کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

کرپشن اور مالی بدعنوانی بہرحال ایک بہت ہی بڑا گھناؤنا جرم ہے۔ یہ ملک سے غداری اور وطن دشمنی کے مترادف ہے۔ قوم کو معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور کر کے دوسروں کا محتاج بنانے والوں کو اُتنی ہی سخت اور عبرت ناک سزا ملنی چاہیے جتنی ہمارے آئین و دستور میں وطن سے کسی غداری کے لیے مختص ہے، لیکن محض الزام تراشی کے ذریعے کسی کو بدنام اور رسوا کر کے نہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق اور تفتیش کر کے قرار واقعی سزا دینا چاہیے، مگر بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ روایت چل پڑی ہے کہ ہم اپنے ملک کے کسی ایسے ادارے پر اعتماد اور بھروسہ کرنے سے تو انکاری ہوتے ہیں جو ایسا کرنے کا مجاز ہوتا ہے مگر ٹی وی پر بیٹھ کر صبح و شام الزامات اور غیر مستند ثبوت و شواہد کے سہارے میڈیا ٹرائل ضرور کرتے رہتے ہیں۔

ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو الزامات اور دشنام طرازی کے ذریعے اُسے عوام کے نظروں میں اِس قدر گرا دیا جائے کہ اپنے دفاع کے قابل ہی نہ رہ سکے۔ جھوٹ اور کذب بیانی کے ایسے جوہر دکھائے جائیں کہ سچ کو کہیں امان نہ مل پائے۔ ملک کے اندر اشتعال اور نفرتوں کی ایسی آگ لگائی جائے کہ ملک کی وحدت و سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے۔

نتیجتاً پھر کوئی تیسری قوت حکومت سنبھال لے اور ہم یہی سوچ کر خوش ہوتے رہیں کہ ہم اگر اقتدار حاصل نہ کر پائے تو کیا ہوا اپنے حریف کو تو کم از کم نیچا کر دکھا یا۔ ہم حسد اور بغض کی آگ میں جھلستے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اِس عمل اور فعل سے اِس ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔

آج ہمارے ہاتھ ''پاناما لیکس'' کی شکل میں ایک ایسا ایشو آ گیا ہے کہ ہم دھاندلی دھاندلی والے اپنے اُس ایشو کو بالکل بھول چکے ہیں جس کے ذریعے ہم گزشتہ تین برس تک سیاست چمکاتے رہے۔ اب ہمیں نہ انگوٹھوں کے 35 ہزار جعلی نشانات یاد ہیں اور نہ ووٹروں کے حلقے تبدیل کرنے والی بات یاد ہے۔ نہ پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن آصف علی زرداری کے سوئس آکاؤنٹ میں رکھے 60 ملین ڈالر یاد ہیں اور نہ بینکوں سے قرضہ لے کر معاف کروانے والوں کے نام یاد ہیں۔

کرپشن اور بدعنوانی کے اِس دلدل میں ہمیں اب صرف ایک ہی شخص بڑا ملزم اور مجرم دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف۔ ہماری اولین اور آخری کوشش بھی یہی ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کو اپنے اقتدار سے بیدخل کر دیا جائے۔ ہم نے 126 دنوں تک دھرنا بھی دیکر دیکھ لیا۔ سول نافرمانی اور جلاؤ اور گھیراؤ کی مہم بھی چلا کے دیکھ لی۔ پری پول رگنگ اور دھاندلی کے الزامات بھی لگا کے دیکھ لیے لیکن ہماری خواہشوں اور حسرتوں کی تسکین کا سامان نہیں ہو پایا۔ اب شومئی قسمت سے ہمارے ہاتھ میں ایسا بٹیر آ گیا ہے جسے ہم کسی طرح کھونا نہیں چاہتے۔ خواہ اِس کے لیے ہمیں ایک بار پھر سڑکوں پر کیوں نہ آنا پڑے۔

ہم اب پاناما لیکس میں درج معلومات کی تحقیقات کے لیے نہ نیب کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ایف آئی اے کو۔ نہ جوڈیشل کمیشن کو مانتے ہیں اور نہ حکومت کے نامزد کردہ کسی محترم جج پر اعتبار کرتے ہیں۔ ہم سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل صرف اپنی شرائط پر کھیلناچاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم نیب کی سندھ اور پنجاب میں اب تک کی کارروائیوں پر شادیانے بھی بجاتے ہیں اور اُس کے پر کاٹنے کا سوچنے والوں کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں، مگر دوسری جانب اُس پر اعتماد بھی نہیں کرتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح الیکشن کمیشن کو تسلیم بھی نہیں کرتے مگر اُس کے تحت ہر ضمنی الیکشن میں بھر پور حصہ بھی ضرور لیتے ہیں۔

پاناما پیپرز کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر افراتفری اور انارکی پھیلانے کا منصوبہ بنانے والوں کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ اُن کے اِس رویہ اور طرزِ عمل سے کہیں اِس ملک و قوم کو کوئی بڑا نقصان یا حادثہ درپیش نہ ہو جائے۔ خدا خدا کر کے یہ قوم اب درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے۔ ملک ترقی و خوشحالی کے سفر پرگامزن ہو چکا ہے۔ پاک چائناکوریڈورکہیں اگر راستے ہی میں رک گیا اور تکمیل کے مراحل پورے نہ کر سکا تو پھر آپ کی اِس مشقِ کہن کا اصل وصول کنندہ کون ہو گا۔

ہمارا دشمن نہیں چاہتا کہ اقتصادی راہداری مکمل ہو۔ وہ اِسے روکنے کے لیے مختلف سازشیں تیار کر رہا ہے۔ چائنا کے صدر شی جن پنگ کے برادر نسبتی اور روس کے صدر پیوٹن کے دوستوں کے حوالے سے لگائے گئے الزامات بھی اُس کی کسی ایسی ہی سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ پاناما پیپرز میں اکثر الزامات اُن ملکوں اور حکومتوں کے خلاف لگائے گئے ہیں جن سے مستقبل میں امریکی سامراجیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب جب ہم مصائب اور مشکلات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہونے لگتے ہیں کوئی نہ کوئی بیرونی سازش ہمیں اپنی ہشت پائی گرفت میں جکڑ لیتی ہے اور ہم آپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔

محاذ آرائی پر تلے سیاسی عناصر اور زعماء سے ہماری درخواست ہے کہ تھوڑا انتظار کر لیجیے، دو سال بعد نئے الیکشن ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اِس ملک و قوم کا حکمراں بنا دے تو پھر آپ جس کسی کا چاہے سخت اور بے رحم احتساب کر لیجیے گا۔ ابھی ملک و قوم کی حالت پر رحم کھایے۔ اُنہیں اپنی ضد اور انا کی بھینٹ مت چڑھایے۔ پاناما لیکس کی درست اور سنجیدہ تحقیقات کرانا اگر مقصود ہے تو مل بیٹھ کر کسی ایک تجویز پر رضامند ہو جایئے ، لیکن تشدد اور ہنگامہ آرائی کر کے آپ دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہوں گے۔ آپ کی اِس غیر ذمے دارانہ روش اور معاندانہ رویوں سے اگر برادر ملک چین نے اپنے ارادے بدل ڈالے اور اقتصادی راہداری کا منصوبہ کہیں اور چلا گیا تو خسارہ صرف اِس بیچاری مظلوم قوم کا ہو گا۔ چائناکے پاس تو اور بھی متبادل راستے موجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں