انتخابی سیاست

ضمنی الیکشن کے دوران توجانے سے گریز کیا مگر انتخاب کے بعد ایک دن آبائی حلقے کا چکّرلگایا


[email protected]

ضمنی الیکشن کے دوران توجانے سے گریز کیا مگر انتخاب کے بعد ایک دن آبائی حلقے کا چکّرلگایا اور مختلف گروہوں اور گروپوں کی آوازیں سننے کا موقع ملا۔ یہ آوازیں قارئین کو بھی سناناچاہتا ہوں کہ یہی آوازیں ہماری سیاسی صورتِ حال پرتبصرہ بھی ہیں اور انتخابی سیاست کا تجزیہ بھی۔

پہلے ایک گروہ کی بات چیت سن لیں۔

س: آپ اس گاؤں سے کیسے جیتے؟

ج: جناب ساڈے مخالف دھڑے نیں پنڈوالیاں دے ووٹ لَین لئی سوئی گیس دے پائپ سُٹّے تے سارا پِنڈا اوناں ول ہوگیا۔۔۔ اَساں فیر اک پِیرلیا سُٹیا، فِیس تے لگ گئی پر پِیر نے کم وَخادتّا ۔ پیر ہوراںدی برکت نال اَسی پنڈوں جِت گئے آں۔ (ہمارے مخالف گاؤں والوں کے ووٹ لینے کے لیے سوئی گیس کے پائپ لے آئے تو ہم ایک پیر صاحب لے آئے۔ فیس تو دینی پڑی مگر پیر صاحب کی کرامت سے ہم گاؤں سے جیت گئے)

ایک اور گاؤں چلتے ہیں اور وہاں ایک ڈیرے پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کی بات چیت سنتے ہیں۔

س: بھائی صاحب آپ کے گاؤں کا کیا نتیجہ رہا؟

ج: یہاں بڑی برادری کھوکھروں کی ہے، انھوں نے حلقے کے ممبرسے کہا تھا کہ گلیاںپکّی کرادو تو ووٹ آپکے۔ ممبر نے حامی بھرلی۔ اُدھر ھمیں بھی پتہ چل گیا اور ہم نے کھوکھروں کی پھوپھی قابو کرلی۔

ایک دن گلی کے لیے روڑی آئی تو دوسرے دن پھوپھی آگئی۔ پھوپھی ایک روڑے سے تِلکی تو اس کا چُوکنا اُتر گیا ، درد سے کراہتے ہوئے پھوپھی نے اُسی امیدوار کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے جسکے لیے ہم اسے لائے تھے، خیرپھوپھی بڑی مشکل سے مانی، وہ مان گئی توکھوکھرنہ مانیں۔ پھوپھی نے اپنے بھتیجے اکٹھّے کیے اور ان کے سامنے بڑی جذباتی تقریر کی " اوئے میں اپنے بہشتی بھراواں دی کَلّی بہن آں۔ تواڈے پیوجدوں وی جیلے گئے تے میں کلّی ملاقاتاں لئی جاندی رہی آں۔ قرضے لے لے کے اونہاں دے کیس میں لڑدی رہی آں" (تم میرے ان موحوم بھائیوں کے بیٹے ہو جو جب کبھی چوری کے جرم میں گرفتار ہوتے تھے تو میں ہی ان کی ملاقات کے لیے جایا کرتی تھی اور قرضے لے کر ان کے مقدمے لڑتی تھی)۔ بھتیجوں نے پھوپھی کی گرانقدر خدمات کی Citationسنی تو ناں نہ کرسکے۔ کھوکھر جس کے ساتھ چل پڑیں وہی جیت جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔

ایک اور گروہ سے ہونے والی بات چیت بھی سن لیں

سـ: آپ نے کس کو ووٹ دیے تھے؟

ج: پچھلی بار جسے دیے تھے وہ ایم این اے بن گیا ۔ مگر اس بار اسے نہیں دیے ۔

س: وہ کیوں؟

ج: وہ کام نہیں کرتا؟

س: آپ کو کونسا کام پڑاتھا؟

ج: چھوٹے بیٹے پر چھوٹاسا کیس بن گیا تھا۔ ایم این اے کے پاس امداد کے لیے گئے تواس نے صاف انکار کردیا۔

س: کیس کیا تھا؟

ج: کوئی قتل کا کیس نہیںتھاجی۔ منشیات کا کیس تھا چھوٹے پر۔

س: ایم این اے نے کیا کہا تھا؟

ج: کہتا تھا صرف جائز کام بتایا کرو ۔ او بھائی جائز تو ویسے بھی ہوجاتے ہیں۔ آپ نے کام نئیں کرنے تھے تو الیکشن کیوں لڑا تھا۔ صرف جائز کام کرنے ہیں تو جاکر مسجد کے امام بن جاؤ۔

٭٭٭٭٭

ایک اور گاؤں پہنچے اور وہاں کے لوگوں کی باتیں سنیں۔ آپ بھی سن لیں۔

س: آپ نے کسے ووٹ دیے ہیں؟

پہلی آواز: ایم این اے سے ہم نے اپنے بھائی کے لیے یونین کونسل کی چیئرمینی کا ٹکٹ مانگا تھا اس نے نہیں دیا۔ اس نے ٹکٹ نہیں دیا تو ہم نے انھیںووٹ نہیں دیے۔

دوسری آواز: دیکھیں جی صاف بات ہے ہم ایم این اے کے پاس مُنڈے کی نوکری کے لیے گئے تھے، اس نے معصوم بچّے سے سوال جواب شروع کردیے اور پھر کہنے لگا آپ کا لڑکا تو نالائق ہے۔ اسے کچھ آتا جاتا ہی نہیں ہے۔ اسے نوکری نہیں مل سکتی۔ میرٹ پر حق نہیں بنتا۔ اب یہ مَیرٹ ہمارے اُوپر ہی آچڑھا ہے ایم این اے نے نوکری دلانے سے ناں کی تو ہم نے آتے ہی برادری کا اکٹھ کیا اور مخالف امیدوار کو بلا کر اس کا جلسہ کرادیا۔ ہم تو ووٹ اسکو دیں گے جو ہمارے بچوں کو نوکری دلائے۔ میرٹ نہ سنائے۔

تیسری آواز: ہم نے انھیں ووٹ دیے ہیں جنہوں نے میرے بیٹے کو کسٹم میں ملازمت دلائی تھی اس لیے ہم ہمیشہ انھیں ووٹ بھی دیتے ہیں اور ان کے بینر بھی لگاتے ہیں۔

چوتھی آواز: ہم نے ووٹ تو ن لیگ کو دینے تھے مگر مولوی صاحب نے حلف لیا تو پھر کسی کو بھی ووٹ نہیں دیے ۔

٭٭٭٭٭

پھر ایک اسلامی جماعت کی میٹنگ میں گئے اور ان کے امیر کے دلائل سے اپناایمان تازہ کیا۔

س: سنا ہے آپ کے کئی رفقاء نے کہا تھاکہ ہمیں امیدواروں کا کردار دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اس امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے جو باکردار اور نیک نام ہے۔ مگر آپکی پارٹی نے دوسرے امیدوار کے حق میں فیصلہ کیا، تو کیا اب آپکی اسلامی جماعت کے نزدیک کردار کی کوئی اہمیّت نہیں ہے؟

ج: دیکھیں، ہمیں پورے ملک کی صورتحال پیش نظر رکھنی ہوتی ہے عالمی تناظر میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے ویسے بھی ایک پارٹی ہمیں آیندہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ دے رہی تھی، دوسروں سے بھی ہم نے کہا تھاکہ آپ کا کردار اچھاہے مگر ہمیں کیا دو گے؟ تو انھوں نے کوئی وعدہ نہ کیا۔ تو بھائی ساری سیاسی صورتِ حال دیکھنی ہوتی ہے صرف کردار کو کیا کریں ہمیں صرف کردار کی نہیں اقتدار کی بھی ضرورت ہے۔

ایک اور گاؤں میں پہنچے، اور وہاں بھی لوگوں سے ملے۔

س: آپ نے جیتنے والے کو ووٹ دیے یا ہارنے والے کو؟

ایک آواز: جیتنے والے کو۔

س: اس کی وجہ؟

ج: گاؤں میں ہمارے مخالف ایک امیدوار کے ساتھ چل پڑے تو ہم نے دوسرے کو بلا کر اس کی حمایت کر دی۔

س: رانا صاحب آپ بتائیں۔ آپ کس کے ساتھ تھے؟

ج: ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ قصور سے ہماری برداری کے بڑے رانا صاحب آگئے ۔ انھوں نے جو کہا پوری برادری نے اُسی پر آمین کہہ دیا۔ برادری کے بڑے جو ہوئے۔پوری برادری ان کے کہنے پر عمل کرتی ہے۔

س: بھائی صاحب آپ بتائیںآپ نے پارٹی کو ووٹ دیے یا امیدوار کو؟

ج: نہ پارٹی کو نہ امیدوار کو ہم نے نالے کو ووٹ دیے ہیں۔ جس نے گاؤں کانالہ بنوادیا اسے ووٹ دے دیے۔

نوجوانوں کے ایک گروپ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی سوال و جواب ہوئے۔

س:آپکی پارٹی کے جلسے میں دو سیاسی آدمی بڑے نمایاں نظر آرہے تھے۔۔ایک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ہیروئن پیتا ہے اور دوسرے کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ رسّہ گیر ہے اور اشتہاری مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے ۔ کیا ایسے افراد کے شامل ہونے سے آپکی پارٹی کا امیج خراب نہیں ہوا؟ اب ایسے لوگوں کے شامل ہونے کے بعد آپ کی قیادت کونسی تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتی ہے؟

ج: ہم تو چاہتے ہیں پارٹی میں صاف ستھرے لوگ آئیں ۔ ہم نے کہابھی تھا کہ بدنام قسم کے لوگوں کو اسٹیج پر کھڑا نہ ہونے دیں اور نہ ہی وہ انتخابی مہم میں شامل ہوں۔ مگر بڑے خان صاحب نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔

س: انھوں نے کیا کہا؟

ج: ہم تک ان کی جو بات پہنچی ہے اس کے مطابق وہ فرماتے ہیں کہ سیاست کے لیے پیسے کی بھی ضرورت ہے اور بدمعاشی کی بھی ۔ الیکشن جیتنے کے لیے ہر طریقہ اور ہر حربہ استعمال ہونا چاہیے۔

اسی لیے بڑے خان صاحب اور بڑے امیر صاحب ہم خیال ہوگئے ہیں۔ امیر صاحب کی خواہش ہے سیٹ ملنی چاہیے خان صاحب کہتے ہیں سیٹ نکلنی چاہیے۔

٭٭٭٭٭

ایم این اے صاحب کے مہمان خانے میں ہونے والی گفتگو بھی سن لیں۔

ملازم ڈرائینگ روم میں داخل ہوکر ایم این اے صاحب سے مخاطب ہوا۔ سر جی وہ عین صاحب آئے ہیں ان کے ساتھ غین صاحب بھی ہیں انھیں اندر لے آؤں؟۔

ایم این اے صاحب: لے آؤ

چھوٹا بھائی : وہ تو بڑے بدنام آدمی ہیں انھیں اندر بلانا تو مناسب نہیں ہے۔

ایم این اے صاحب کا سیکریٹری: ان کے ہزار ڈیڑھ ہزار ذاتی ووٹ ہیں۔

چھوٹا بھائی: "جو بھی ہے بدنام تو ہیں ناں"۔

سیکریٹری: مگر انھوں نے الیکشن میں بڑی مدد کی ہے، انھیں اندر بلاکرضرور ملنا چاہیے۔

دو تین آوازیں:" بلاؤ جی بڑے بااثر آدمی ہیں۔ ان سے ضرور ملیں"۔

عمران خان صرف دھاندلی کاشور مچاتے رہتے ہیں۔ دھاندلی صرف ایک اِشو ہے جنرل الیکشن میں جسکے امکانات بہت کم ہوتے ہیں اس سے بہت بڑا اِشوPurification of Electoral System (انتخابی نظام کا پاک کرنا )ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے راستوں پر ایسے مضبوط بندباندھے جائیں کہ ناجائز ذرایع سے دولت اکٹّھی کرنے والے چور اوربدکردارافراد پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکیں۔ایسے بہت سے افراد خان صاحب کے ساتھ ہیں جن پر انھیں کوئی اعتراض نہیں۔۔ یہاں ہر طرف پست درجے کی سیاست بازی کا چلن ہے۔

مگر ملک کو منزلِ مقصود تک پہنچاسکتے ہیں۔صرف محمد علی جناحؒ کے راستے پر چلنے والے اجلے دامن اور صاف ستھرے کردار کے افراد۔ اس پر پھر لکھوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں