آئین پر خوبصورت کتاب
مصنف لکھتے ہیں کہ جناح اپنی سیاسی زندگی میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے چیمپئن رہے
لاہور:
پاکستان کے قیام سے دو دن قبل کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں محمدعلی جناح کی قیادت میں شہریوں کے بنیادی حقوق خصوصاً اقلیتوں کے حقوق کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے اراکین نے مادری زبان میں تقریرکی اجازت طلب کی تھی مگر یہ عرض داشت مسترد کر دی گئی۔
جمہوریت پر سب سے پہلا حملہ 1954میں ہوا تھا، جب گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا تھا، اس سے پہلے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا۔ سینئر صحافی سول سوسائٹی کے سرکردہ رکن پاکستان میں آئین اور وفاق پر تحقیق کرنیوالے محقق ظفراللہ خان نے پاکستان کے آئینی ارتقاء پر ایک خوبصورت کتاب Consistant Parliamentary Cord Fundamental Rights of the Citizens of Paksitan کے نام سے تحریرکی ہے یہ کتاب چھ ابواب 119صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا ابتدائیہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے تحریرکیا ہے۔ یہ کتاب حیرت انگیز حقائق پر مبنی ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ جناح اپنی سیاسی زندگی میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے چیمپئن رہے۔ وہ 1909 میں ایمپیریئر لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے مگر 28 مارچ 1919کو رولڈ ایکٹ کے نفاذ پرکونسل سے مستعفی ہو گئے۔اس قانون کے ذریعے برطانوی حکومت میں ہندوستان کے شہریوں کے بنیادی آزادیوں پر قدغن عائد کی تھی۔
ظفر اللہ خان جناح کے ایک ہزار سے زیادہ الفاظ پر مشتمل تقریر کو پاکستان کا میگنا کارٹا معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ مصنف کے مطابق اسمبلی میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بارے میں قانون سازی کے لیے 16رکنی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ 25اگست 1948 کو آئین ساز اسمبلی کا اجلاس محمد علی جناح کی صدارت میں ہوا۔اجلاس میں مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن دتّا نے انگریزی کے ساتھ مادری زبان بنگالی میں تقریرکرنے کی اجازت طلب کی مگر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس تجویزکی مخالفت کی۔ 7مارچ 1949 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پیش کی۔
اس اسمبلی میں 7دن کی بحث کے بعد قرارداد کی منظوری دے دی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی اراکین نے اس قرار داد کی مخالفت کی تھی۔ ترقی پسند رہنما افتخار الدین نے اس قرار داد کے بارے میں ملے جلے خیال کا اظہارکیا تھا۔ یہ قرار داد 1956 ،1962اور 1973 کے آئین میں ابتدائیے کے طور پر شامل کی گئی مگر 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔شہریوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے لیے قائم کی گئی ذیلی کمیٹیوں کی رپورٹ 7ستمبر 1954کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی ۔
جس نے اس کو منظور کرلیا مگر گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس اہم معاملے میں قائم ہونے والی کمیٹی کی رپورٹ اسمبلی کے سامنے پیش نہیں ہوسکی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے فیصلے کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے حکم کو غیر آئینی قرار دیا مگر فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے آئین ساز اسمبلی کے توڑنے کے حکم کو آئین کے مطابق قرار دیا۔ صوبوں کی اسمبلیوں نے دوسری آئین ساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا، بالواسطہ انتخاب کے ذریعے 28 مئی 1955کو دوسری اسمبلی وجود میں آئی۔
اس خطاب کے تیسرے باب میں تحریرکیا گیا ہے کہ 23مارچ 1956کو اسمبلی نے ملک کا پہلا آئین منظورکرلیا۔ اب پاکستان برطانیہ کی نو آبادی میں نہ رہا مگر 928دن کے بعد 7 اکتوبر 1958کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ اس اسمبلی نے سندھ پنجاب سرحد اور بلوچستان کو ایک نئے صوبے مغربی پاکستان میں ضم کرنے کا قانون منظور کیا یوں ون یونٹ قائم ہوا ۔اس آئین ساز اسمبلی نے پارلیمانی کمیٹی کی انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ کو منظورکرلیا مگر اسمبلی نے سپریم کورٹ کے بنیادی حقوق سے متعلق حقوق کو محدود اور قبائلی علاقوں میں پاکستان کے آئین کے اطلاق کو روک دیا۔ 1956کے آئین کے تحت پاکستان کی ریاست وفاقی حکومت پارلیمنٹ صوبائی حکومتوں صوبائی اسمبلیوں اور مقامی اور دوسرے اداروں پر مشتمل قرار دی گئی۔
7اکتوبر 1958کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو صدر اسکندر مرزا نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا ۔ جنرل ایوب خان نے 27اکتوبر 1958کو صدر اسکندر مرزا کو برطرف کردیا اورخود صدرکا عہدہ سنبھال لیا۔ 8جون 1962 کو جنرل ایوب خان نے صدارتی نظام نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت اسی ہزار بی ڈی اراکین کو صدر قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین کے انتخابات کے لیے انتخابی کالج کا رکن قرار دیا۔ فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے 25مارچ 1969کو صدارتی آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا، 1970 میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کی۔ پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے سرحد اور بلوچستان سے کامیابی حاصل کی مگر یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا، مشرقی پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہوا اور 16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔
آئین ساز اسمبلی نے 17اپریل 1972 کو عبوری آئین منظورکیا، ملک سے مارشل لاء ختم ہوا پھر 10اپریل 1973کو نئے آئین کے مسودے کی منظوری دی گئی اور 14 اگست 1973 کو ملک میں نیا آئین نافذ ہوا، اس آئین میں بنیادی حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا یہ آئین 1420دن تک نافذ رہا۔ 5جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے آئین کو معطل کرکے مارشل لاء نافذ کردیا۔
1973کے آئین کے نفاذ کے دو سال کے عرصے میں تین دفعہ بنیادی حقوق کے آرٹیکل میں ترمیمیں کیں۔ 1985میں ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجوکو وزیراعظم مقررکیا، جونیجو نے سیاسی جماعتوں کو بحال اور مارشل لاء کو ختم کیا مگر آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر نے وزیراعظم کی برطرفی اور اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار حاصل کرلیا اور قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ غیر مسلم شہری ملک کا صدر اور وزیراعظم بننے کے حق سے محروم ہوگئے ۔
پارلیمنٹ نے 2009 میں سینیٹر رضا ربانی کی قیادت میں چھبیس اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کی اس کمیٹی نے بنیادی حقوق کے دائرے مین توسیع نئے حقوق مثلاً آزادانہ مقدمہ لڑنے کا حق، ریاست میں معاملات میں جاننے کا حق اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کو بنیادی حقوق کے باب میں شامل کیا گیا۔ صدر کا وزیرا عظم کو برطرف کرنے اور اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار بھی ختم ہوا۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوئے جو 23 مارچ 1940کی قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق ہے۔
ظفر اللہ خان نے تریسٹھ سال کی آئینی تاریخ کو انتہائی خوبصورت انداز میں سو صفحات پر مشتمل کرکے سیاسی کارکنوں، وکلاء، صحافیوں، طالب علموں اور محققین کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کردی ہیں اور مستقبل کی طالب علموں کے لیے تحقیق کا نیا میدان فراہم کردیا ہے۔