ماضی کی باتیں اور دور حاضر

ماضی میں جب مہنگائی عروج پر تھی اور آٹا ملک میں نایاب ہو گیا تھا یا دانستہ غائب کر دیا

shabbirarman@yahoo.com

ISLAMABAD:
ماضی میں جب مہنگائی عروج پر تھی اور آٹا ملک میں نایاب ہو گیا تھا یا دانستہ غائب کر دیا گیا تھا تو ایسے میں روٹی کے ترسے عوام کی بھوک مٹانے اور انھیں سہولت بہم پہنچانے کے لیے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں (پکی پکائی تازہ روٹی) فراہم کرنے کے لیے پلانٹ لگائے گئے تھے اور اس کی مشہوری کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے تھے۔

ان اشتہاروں میں لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ اب آٹے کی تلاش کی ضرورت نہیں اور نہ ہی گوندھنے کی جھنجھٹ۔ کسی بھی قریبی جنرل اسٹور سے (پکی پکائی تازہ روٹی) طلب کیجیے، رقم ادا کریں، گھر لائیں، تو اس پر حسب ضرورت گھی لگا کر گرم کر کے کھا لیں، لیکن ترقی ہمارے معاشرے کو راس نہ آئی کیوں کہ ہم ٹھہرے مشرقی لٰہذا مغربی تہذیب میں ڈھل نہ سکے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد پرچون کی دکان پر آٹا موجود تھا، مگر اس زمانے کے حساب سے مہنگا ہو چکا تھا۔ مگر اس زمانے میں پیسے میں برکت تھی، کرپشن کا عفریت معاشی زندگی پر تسلط جمانے میں کامیاب نہیں ہوا تھا، غربت کے باوجود لوگ محنت سے جی نہیں چراتے تھے، اور قناعت پسندی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ شہر میں امن تھا، بھائی چارہ تھا، کراچی کو بندہ نواز شہر کا درجہ حاصل تھا۔ جو اب نیست و نابود ہو چکا ہے۔

یاد پڑتا ہے ٹین ڈبے والے حضرات خرید کردہ اشیاء کے عوض روپیہ پیسہ دینے کے بجائے چینی، آٹا اور چاول دیا کرتے تھے جب یہ اجناس مہنگی ہونے لگیں تو متبادل کے طور پر چائے کی خالی پیالی اور کانچ کے گلاس دینے لگے تھے۔ آج کل بدلے میں روپیہ دیتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرنسی نوٹ اور وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں مگر اس جدید دور میں آہستہ آہستہ لوگ گھریلو فاضل ٹین ڈبے فروخت کرنے کے بجائے کچرا کنڈیوں کی نذر کر دیتے ہیں، یعنی اپنے ہاتھوں سے معاشی نقصان کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ موجودہ دور (جدید کباڑی) کا ہے اس شعبے میں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے تو لوگ اس کاروبار میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ کیا مغربی تہذیب کو اپنا لیا گیا ہے؟

دودھ اور پانی کا ملاؐپ بھی قدیمی ہے۔ آج کی طرح اس زمانے میں بھی دودھ فروش پانی میں دودھ، دودھ میں چاول کا پانی ملا کر اپنی حلال روزی حرام کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ ڈیری فارم سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کی باتوں پر یقین کرنا پڑا، اگر وہ شہری علاقوں میں ملاوٹ شدہ دودھ فروخت نہ کریں تو ایک بڑی آبادی کی صحت متاثر ہو سکتی ہے کیوں کہ شہر میں رہنے والے لوگوں کا معدہ گاؤں کے لوگوں کے ہاضمے کی نسبت کمزور ہوتا ہے جو دراصل خالص دودھ کے وٹامن کو برداشت کر نہیں پاتے۔

اس حوالے سے انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ وہ کراچی میں شیر فروشی سے وابستہ ایک شخص کو دودھ فروخت کرتے تھے۔ ہر روز وہ دکان دار شکایت کرتا تھا تمہارا دیا گیا دودھ ٹھیک نہیں ہے، گاہک ناراض ہو رہے ہیں، یہ دودھ پینے سے انھیں (دست اور پیچش) کا مرض لاحق ہو رہا ہے۔ تب مجھے معاملے کا اندازہ ہوا۔ اگلی مرتبہ معروف طریقے والا دودھ فراہم کیا ہفتہ بھر بعد پوچھا تو جواب ملا اب گاہک بہت خوش ہیں کہ اصلی دودھ پینے کو مل رہا ہے اور پیٹ کی بیماریاں بھی دور ہو گئی ہیں۔


اگرچہ بھر پور کوششیں کی گئیں کہ لوگ کھلا دودھ چھوڑ کر (پیکٹ) والا دودھ استعمال کریں لیکن شاید صحت کے لیے موافق تصور نہیں کرتے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ کھلے دودھ کی طلب بڑھ جانے سے دودھ فروش چند ماہ بعد اس کی قیمت میں من چاہا اضافہ بلا روک ٹوک کر لیتے ہیں اور باز پرس کرنے والے مسکرا لیتے ہیں جب کہ لوگوں کی چیخ و پکار (دودھ میں پانی کی طرح ) ہوا میں باز گشت کرتی ہوئی تحلیل ہو جاتی ہے ۔

ایک طویل مدت تک دال میں پیاز اور خالص گھی کا تڑکہ لگا کر فضا ایک عجیب خوشبو سے معطر ہو جاتی اور اس دال فرائی کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ اب خالص گھی کجا تڑکے والی دال فرائی بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔ کراچی کے ساحل پر مچھلی جھینگے کا شکار کیا جاتا ہے مگر اچھی تازہ مچھلی500 روپے کلو بکتی ہے، جب کہ اسے سستا ہونا چاہیے، لاجسٹک اخراجات بھی برائے نام ہیں، مگر کروڑوں روپے کی مچھلی بیرون ملک برآمد کی جاتی ہے، اور عام پاکستانی مہنگی مچھلی کھانے پر مجبور ہیں، لابسٹر کو بھول جائیے، وہ ایک عیاشی ہے۔

یادوں میں نقش ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو قیام میں لاتے وقت بھی اس امر کا شدت کے ساتھ اظہار کیا گیا تھا کہ ( سپلائی میں بہتری آئے گی اور مہنگائی قابو میں رہے گی) لیکن عوام میں یہ سلسلہ مقبول نہ ہو سکا، بلکہ شکایتوں کے انبار لگ گئے نتیجتاً لوگ اس سے دور ہوتے رہے۔ بیت المال نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی خدمات حاصل کیں تو مستحقین کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ کرپشن کے اس اسکینڈل نے اس ادارے کی رہی سہی ساکھ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ایک مرتبہ پھر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس ادارے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی، لیکن بے سود۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز سے لوگ بہت دور بھاگتے ہیں بلکہ اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیوں کہ ان کی حالت بھی عام بازار سی ہو گئی ہے۔ حکومت صرف ؤٹیلٹی کے نظام کی موثر مانیٹرنگ کرے تو ہزاروں صارفین کا بھلا ہو گا، مگر کون سنتا ہے فغان درویش!

ملک میں مہنگائی کم کرنے کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں اور صارفین کے حقوق کی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں اور اس حوالے سے سخت قوانین کے اقدامات کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے لیکن جب زمینی حقائق پر نظر ڈالی جاتی ہے تو ابن آدم کی حالت زار پہلے سے بدتر نظر آتی ہے۔ ایک طرف روشن خیالی کے اس دور میں ہر طرف ڈالروں (قرضوں) کی بھرمار ہے تو دوسری طرف غربت کی وجہ سے کروڑوں انسان زندہ درگور ہیں پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے۔ ہم خوش حالی کی طرف گامزن ہیں، شاید امیر (حکمرانوں) نے نظر بندی کرا رکھی ہے، جو انھیں سسکتے ہوئے کروڑوں انسان نظر نہیں آتے۔ ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی مذہبی جماعتیں، میڈیا ہو یا کہ پالیسی ساز ادارے سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں، کسی کی نظر اس خطرناک ایٹم بم کی طرف نہیں ہے، جسے غربت کہا جاتا ہے، میں تو سوچ کر سہم جاتا ہوں، ڈر جاتا ہوں کہ اگر یہ (غربت) بم کسی دن پھٹ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ شاید ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا، فی الحال عالمی دہشت گردی سے نمٹنا ہے، جس کا پوری دنیا شکار ہے، ذرہ سوچیں امن کے دشمنوں کو ایندھن غربت سے مل رہا ہے، کیوں کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
Load Next Story