’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کرپشن پر کوئی پوچھنے والا نہیں چیف جسٹس
قومی ایئرلائن سے خسارے اور اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگ لیں،اداروںکو بجٹ میںچلایا جاتا ہے لیکن یہاں تباہی آئی ہوئی ہے
سپریم کورٹ نے پی آئی اے سے ادارے کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور اگلی سماعت پر فارنسک آڈٹ ،ادارے کا مجموعی خسارہ،فعال اور غیر فعال جہازوں کی تعداد منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوںکی تفصیل، بند ہونے والے روٹس اوردیگر ایئر لائنوں سے معاہدوںکی تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ایک کے بعدایک قومی ادارے تباہ ہورہے ہیں،جتنی چاہوکرپشن کروکوئی پوچھنے والا نہیں، چیف جسٹس نے پی آئی اے کے وکیل سے پوچھا کہ حالات ٹھیک ہیں یا ادھر بھی اسٹیل مل والے معاملات چل رہے ہیں،راجا بشیر ایڈووکیٹ نے کہا ادارے کو 119ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، پروازیں تاخیرکا شکار ہیں لیکن انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں، انھوں نے کہا سابق انتظامیہ کی غلط کاریوںکا دفاع نہیںکیا جائیگا۔
چیف جسٹس نے کہا موجودہ انتظامیہ کو سب سے پہلیفارنسک آڈٹ کرانا چاہیے تاکہ ذمے داروںکا تعین ہو سکے۔ انھوں نے کہا پی آئی اے وہ ادارہ ہے جس نے بہت ساری ایئرلائنزاسٹیبلش کیں لیکن آج حالات یہ ہیں کہ اس کے جہاز خراب کھڑے ہیں ،پوری دنیا میں فضائی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں لیکن ہمارے جہازکھڑے ہیں،ریلوے میں بھی یہی صورتحال ہے، فاضل وکیل نے بتایا پی آئی اے میں ایک جہازکے پیچھے350ملازمین ہیں ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا یہ تودنیا میں سب سے زیادہ ملازمین رکھنے والی فضائی کمپنی ہے، چیف جسٹس نے کہا اداروںکو اپنے بجٹ میں چلایا جاتا ہے لیکن یہاں تو تباہی آئی ہوئی ہے، عدالت نے پی آئی اے کی روٹس پٹے پر دینے کا معاملہ بھی اٹھایا لیکن پی آئی اے کے نمائندے نے تردیدکی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا اگر لاہور سے استنبول جانے کیلیے پی آئی اے کا ٹکٹ خریدا جائے تو سفرترک ایئر لائن کے ذریعے ہوتا ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا نیروبی کیلیے پرواز بند ہوگئی ہے کیونکہ یہ روٹ ترکش ایئرلائن کو دیا گیا ہے، ، ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کا حال مال مفت دل بے رحم جیسا ہوگیا ہے جہاں کرپشن پر کوئی پوچھنے والا نہیں، مقدمے کی مزید سماعت تین دسمبرکو ہوگی۔
ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ایک کے بعدایک قومی ادارے تباہ ہورہے ہیں،جتنی چاہوکرپشن کروکوئی پوچھنے والا نہیں، چیف جسٹس نے پی آئی اے کے وکیل سے پوچھا کہ حالات ٹھیک ہیں یا ادھر بھی اسٹیل مل والے معاملات چل رہے ہیں،راجا بشیر ایڈووکیٹ نے کہا ادارے کو 119ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، پروازیں تاخیرکا شکار ہیں لیکن انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں، انھوں نے کہا سابق انتظامیہ کی غلط کاریوںکا دفاع نہیںکیا جائیگا۔
چیف جسٹس نے کہا موجودہ انتظامیہ کو سب سے پہلیفارنسک آڈٹ کرانا چاہیے تاکہ ذمے داروںکا تعین ہو سکے۔ انھوں نے کہا پی آئی اے وہ ادارہ ہے جس نے بہت ساری ایئرلائنزاسٹیبلش کیں لیکن آج حالات یہ ہیں کہ اس کے جہاز خراب کھڑے ہیں ،پوری دنیا میں فضائی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں لیکن ہمارے جہازکھڑے ہیں،ریلوے میں بھی یہی صورتحال ہے، فاضل وکیل نے بتایا پی آئی اے میں ایک جہازکے پیچھے350ملازمین ہیں ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا یہ تودنیا میں سب سے زیادہ ملازمین رکھنے والی فضائی کمپنی ہے، چیف جسٹس نے کہا اداروںکو اپنے بجٹ میں چلایا جاتا ہے لیکن یہاں تو تباہی آئی ہوئی ہے، عدالت نے پی آئی اے کی روٹس پٹے پر دینے کا معاملہ بھی اٹھایا لیکن پی آئی اے کے نمائندے نے تردیدکی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا اگر لاہور سے استنبول جانے کیلیے پی آئی اے کا ٹکٹ خریدا جائے تو سفرترک ایئر لائن کے ذریعے ہوتا ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا نیروبی کیلیے پرواز بند ہوگئی ہے کیونکہ یہ روٹ ترکش ایئرلائن کو دیا گیا ہے، ، ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کا حال مال مفت دل بے رحم جیسا ہوگیا ہے جہاں کرپشن پر کوئی پوچھنے والا نہیں، مقدمے کی مزید سماعت تین دسمبرکو ہوگی۔