میثاق استعماریت

ایک عجیب معاہدہ…چور اور گرہ کٹ کے درمیان، کالم کم اسٹیج ڈرامہ، کوئی سمجھ پائے گا کوئی نہیں

saifuzzaman1966@gmail.com

WASHINGTON:
ایک عجیب معاہدہ...چور اور گرہ کٹ کے درمیان، کالم کم اسٹیج ڈرامہ، کوئی سمجھ پائے گا کوئی نہیں لیکن اس موقعے پر مجھے جون ایلیا کا ایک شعر ضرور یاد آ گیا۔

کیسا عجیب شخص ہوں' اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال تک نہیں

بہرحال آگے بڑھتے ہیں۔ دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ کبھی چور نے گرہ کٹ کو پکڑوا دیا، کبھی گرہ کٹ نے چورکو۔ دونوں میں حسد کا رشتہ ہمیشہ سے مضبوط۔ بہت وقت گزر گیا۔ کبھی چور جیل میں تو گرہ کٹ کے مزے، کبھی گرہ کٹ علاقہ بدر تو چور کی چاندی۔ بہت سے علاقہ بدمعاش بیچ میں پڑے بیچ بچاؤکروانے کے لیے۔ کوتوال شہر نے بھی سمجھایا لیکن کوئی ایک نہ مانا۔ آخر کار قانون نافذ کرنے والوں نے دونوں کو علاقے سے نکال دیا۔ دونوں ملک سے باہر چلے گئے اور اپنی اپنی زندگی جینے لگے۔

رفتہ رفتہ انھیں ملک کی یاد ستائی، چوری شدہ گھر، کٹی ہوئی جبیں یاد آئیں۔ آخر کار رابطہ ہوا اور ایک مقام پر ملاقات کے دوران دونوں نے اتفاق کیا کہ ایک دوسرے کو معاف کر دیا جائے۔آیندہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسا معاہدہ تحریر ہو، تقریر ہو، جو بطور سند موجود رہے۔ دونوں اس کی پاسداری کریں، شرائط پر من و عن عمل ہو اور علاقے میں باری باری دونوں رہیں پیار و امن سے۔ معاہدہ ہوا معاملات طے پا گئے دستخط کر دیے گئے اور دونوں نے اتفاق رائے سے اسے ''میثاق استعماریت'' کا نام دیا۔ دوران معاہدہ ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی اور جو شرائط طے ہوئیں ان کی تفصیل کم و بیش کچھ اس طرح ہے۔

(1)۔ آیندہ کبھی کوئی کسی کے جرم کی شکایت کسی اور سے نہیں کرے گا۔

(2)۔ اگر بادل ناخواستہ کوئی فریق پکڑا گیا تو دوسرا اس کی دامے، درمے، سخنے مدد کرے گا۔

(3)۔ چوری اور گرہ کٹ کے فن کو روز افزوں ترقی اور انھیں فنون لطیفہ کی فہرست میں شامل کروایا جائے گا۔

(4)۔ علاقے میں فریقین اول و دوئم کے علاوہ کسی سوئم کو قبول نہیں کیا جائے۔ خواہ وہ ان فنون میں پچھلے دونوں سے بہتر ہے بلکہ ایسے نو آموز کے خلاف متحد ہو کر تحریک چلائی جائے جو کم از کم علاقہ بدری پر ختم ہو۔

(5)۔ علاقے میں گھر اور جیبیں مساویانہ بنیادوں پر تقسیم ہوں گی نیز کوئی فریق اپنی کارروائی سے دوسرے فریق کو آگاہ رکھے گا۔

(6)۔ گرہ کٹ اور چوری فن ہیں، جنھیں تاریخی سچائی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور جنھیں دوسرے ہمعصر فنون پر ایک طرح کی برتری حاصل ہے۔ لہٰذا علاقہ ٹھگ، لوٹ مار کرنے والے ڈاکو، دھوکے باز، فریبی، جعلسازی جیسے جرائم کی مکمل بیخ کنی کی جائے گی اور ان سے کسی قسم کا اتحاد آیندہ کوئی فریق نہیں کرے گا۔ معاہدہ ختم۔ جس کے بعد زبانی بات چیت کے دور کا آغاز ہوتا ہے جب کہ ہونے والی گفتگو بھی معاہدہ میثاق استعماریت کا حصہ تسلیم کی گئی۔

چور:ہمیں خوشی ہے کہ اب ہم محفوظ ہو گئے۔ امید ہے کہ اب ملک ترقی کرے گا۔

گرہ کٹ:جی ہاں! ایسا ہی ہے لیکن گلہ یہ ہے کہ آپ کو چور مکھیا نے بنایا۔ جب کہ اسی نے ہمیں سزا دی اورآپ ان سے ہماری شکایت کرتے رہے۔


چور:جی ہرگز نہیں، آپ کا گلہ بے جا ہے۔ مجھے تک ''مکھیا'' نے نہیں بتایا۔ آپ کے بزرگ البتہ انھی کے پروردہ تھے اور شکایت ان سے میں نے کم کی آپ نے زیادہ۔

گرہ کٹ: لیکن آپ نے تو ہمارے ہی پردھان کو ہمارے خلاف کیا جب کہ انھیں علاقے میں لگایا بھی ہم نے تھا اور وہ ہمارے ساتھی تھے۔

چور:جی یہ کام بھی آپ نے پہلے کیا، اگر آپ کو یاد ہو تو جب آپ باہر سے تشریف لائے تو پردھان ہمارے لگے ہوئے تھے۔ آپ نے جانے انھیں کیا پڑھایا۔ آناً فاناً انھوں نے ہمیں نکال باہرکیا۔

گرہ کٹ:لیکن مکھیا ہمیشہ آپ کے علاقے سے ہوتا ہے۔وہ آپ کا Favour کرتا ہے۔ آپ کو سزا کے طور پر صرف ملک بدرکیا جاتا ہے، جب کہ ہمیں سال ہا سال جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اس کا کیا حل؟

چور:''میثاق استعماریت'' ہی اس کا حل ہے جی۔ اب کوئی مکھیا کوئی پردھان نہ آپ کو ہٹا سکے گا نہ ہمیں۔ مل کر لڑیں گے آخر ہمارے بھی حقوق ہیں کہ نہیں۔

گرہ کٹ:اور وہ بنارسی ٹھگ ...وہ کیا چیز ہے۔ کبھی آپ کے ساتھ کبھی ہمارے ساتھ۔ کبھی ہاں کبھی ناں، ناراض ہو گیا، من گیا، یہ ہمیں بے وقوف بناتا ہے۔ آخر میں مکھیا کو آواز دیتا ہے آ جاؤ، جلدی آ جاؤ! میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس کا کیا کریں؟

چور:دیکھیے! جیساکہ ہم نے معاہدے میں ایک شرط کے طور پر تحریر کیا کہ ہم میں سے کوئی بنارسی ٹھگ سے آیندہ اشتراک نہیں کرے گا۔ خواہ کچھ بھی ہو، لہٰذا امید ہے کہ اپنی موت آپ مارا جائے گا۔

گرہ کٹ:ملک سے باہر آپ کی جائیداد پر، انڈسٹریز پر ملک میں بہت نقطہ چینی ہو رہی ہے۔ اسی طرح میں نے 40 ایکڑ کا ایک چھوٹا سا گھر یہاں لے لیا تھا۔ اس معاملے کو بھی بہت اچھالا گیا۔ اس کا مستقل حل کیا ہے۔ ہمارے یہ ناقدین تو نہیں جانتے کہ ہم نے کس محنت سے، ایمانداری سے یہ تھوڑا کچھ بنایا ہے۔ انھیں کیسے قابو کیا جائے؟

چور:قابوکرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ دیکھیے! ہمارے ملک میں سب سے اچھی روایت یہ ہے کہ الزام کتنا ہی بڑا ہو۔ جرم کتنا ہی سنگین ہو آپ اس کی صحت سے انکارکردیں، صاف مکر جائیں، مثلاً لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں مکھیا سے معاہدہ کرکے بھاگ گیا۔ میں نے انکارکر دیا اور آج کتنے ہی برس بیتے اپنے انکار پر قائم ہوں۔

گرہ کٹ :جی انکار تو میں نے بھی کیا لیکن کتنا۔ آخر مان لیا۔ الامان کس قدر شور ہوا۔ بہرحال آپ چور برادری کے بڑے ہیں، معروف چور ہیں اور آپ کا طریقہ کار بڑا انجینئرڈ ہے۔ ہمارے ہم پلہ بھی ہیں۔ ماننا ہو گا کہ آپ جتنی عمدگی سے، تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اس کا جواب نہیں۔ آپ برا نہ مانیے گا یہ دراصل آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔

چور : اجی ہم کیا ہماری اوقات کیا۔ یہ تو آپ کا حسن زن ہے۔ لیکن آپ نے اچھا کیا ''ہم پلہ'' کہہ کر۔ کیونکہ ہمارے نقطہ نظر سے آپ کا طریقہ کار ہم سے کچھ بہتر ہے ہمیں تو واردات کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے یعنی اندھیرا ہو، لوگ دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند میں غرق ہوں تب کہیں جا کر ہمیں موقع ملتا ہے۔ اس میں بھی کہیں کوئی جاگ گیا تو جان کے لالے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے۔ آج کل کوئی جاگے نہ جاگے یہ میڈیا ہر گھڑی بیدار ہے۔ ارے صاحب! کسی کی چھینک نکل جائے تو شور مچ جاتا ہے۔ یہ تو چوری کا معاملہ ہے۔ لیکن جسے اللہ دے شکر ہے۔ ہر حال میں شکر ہے۔

گرہ کٹ:کیا کہہ رہے ہیں بھائی! ہمیں تو سب کچھ جاگتے میں کھلے عام کرنا پڑتا ہے۔ سوچیے کھلی آنکھوں، عین بھیڑ میں کب کوئی غافل ہو، بڑا مشکل ہے ۔ دراصل اب یہ فنون ان کے فنکار مشکل میں ہیں اور دن بہ دن مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ پہلے صرف قانون نافذ کرنے والے تھے اب تو کتنے ہی ادارے ہمیں گرفت میں لینے کے لیے بنا دیے گئے۔

چور:خیر...اب شاید ہمیں اتنی مشکل درپیش نہ آئے کیونکہ اب ہمارے درمیان ''میثاق استعماریت'' ہے۔ ایک تاریخی معاہدہ جو ملک کی تقدیر بدل دے گا انشا اللہ۔

گفتگو انجام بخیر ہوئی۔ معاہدہ طے ہوگیا۔ قارئین کرام! آج حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ''میثاق استعماریت'' پر کس قدر عمدگی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ ادھر ہم...اُدھر تم۔
Load Next Story