تجربے کا شوق کہیں مہنگا نہ پڑجائے

زمانہ طالبعلمی میں ہم چائےاور سموسے کھایا کرتے تھےتو آج کے نوجوان شیشےکا استعمال ایسےکرتےہیں جیسے یہ کوئی عیب ہی نہیں


مزمل فیروزی April 15, 2016
سگریٹ نوشی اور شیشہ کا استعمال آج بطور فیشن یا ایڈونچر بھی کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف شیشہ بار میں مہیا کیا جانے والا رومانوی ماحول بھی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

ہماری نوجوان نسل بدقسمتی سے آج بیرون ملک سے برآمد فیشن کے نام پر ایک ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے جس نے نوجوانوں کو صحت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن سے بھی کوسوں دور کردیا ہے۔ جی ہاں! یہ بیماری ''شیشہ'' ہے جس کا استعمال اشرافیہ سے ہوتا ہوا اب متوسط طبقے میں شدت اختیار کرگیا ہے۔

آج کے نوجوان ہر چیز کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بُرے سے بُرے اور بڑے سے بڑے کام کا تجربہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر 15 سے20 سال تک کے لڑکوں کا موٹر سائیکل کو ایک وھیل پر چلانا، ہر نا ممکن کام کو ممکن بنانا، تعلیمی درسگاہوں میں سگریٹ نوشی اور اب شیشہ پینا ایک فیشن اور اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔

 

حال ہی میں لاہور کے سفر کے دوران اسٹیشن پر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکے لڑکیوں کو ہاتھوں میں حقہ اُٹھائے دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ واہیات رحجان اب شیشہ بار سے نکل کر یوں عام ہوگیا ہے جیسے ہم زمانہ طالب علمی میں کالج اور یونیورسٹی میں چائے اور سموسے کھایا کرتے تھے، یعنی ایک بار کی دانستہ آزمائش بعد میں مستقل عادت کا روپ دھار کر نوجوانوں کو ایسے مقام پر لے جا کر کھڑا کرتی ہے جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوجاتی ہے۔



انسان کے اندر تجربہ اور تجسس لازمی امر ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی تحقیق اور پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز نہیں کرسکتا، مگر منفی چیزوں پر تجربہ، غلط چیزوں کے بارے میں تجسس اور بے سروپا فیشن انسان کو ایسی جگہ لے جاتا ہے جہاں اسے ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل ہر چیز کا تجربہ کرنا چاہتی ہے اور نت نئے تجربات کی جستجو انہیں وقتی سرور سے تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کردیتی ہے۔ سگریٹ نوشی کے بعد شیشے کا رجحان ہمارے ملک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔

کراچی کے متمول گھرانوں کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کے نوجوان بھی شیشے کی اس لعنت میں بُری طرح مبتلا نظر آتے ہیں۔ڈیفنس، کلفٹن کے بعد اب گلستان جوہر اور طارق روڈ پر بھی جگہ جگہ ''شیشہ بار'' ایک کامیاب کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ شہر کے تمام پوش علاقوں میں شام ہوتے ہی نوجوان ان شیشہ بار کا رخ کرتے ہیں اور رات گئے تک ذائقے سے بھرے زہریلے تمباکو کے سرور سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 25 ملین افراد تمباکو کا نشہ کرتے ہیں، جن میں سے 36 فیصد نوجوان لڑکے اور 19 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔

اس کےعلاوہ ہمارے ملک میں ہر سال 60 ہزار افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملک کی نوجوان نسل جس زہر کو شیشہ کے نام پر اپنی رگوں میں گھول رہی ہے، پہلے اسے ''حقہ'' کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ جو اب جدید ہوکر شیشے کے نام سے مشہور ہے۔ اس بات سے سب بخوبی واقف ہوں گے کہ حقہ بنانے کے کیلئے تمباکو، ٹار اور نیکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ صحت کے لئے نہایت نقصان دہ ہے۔ ماہرین کے مطابق شیشے کا ایک کش 10 سگریٹوں کے برابر ہوتا ہے۔

https://twitter.com/PropitiousOn3/status/498720446863659008

پاکستانی قانون کے مطابق 16 سال سے کم عمر نوجوان کو سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عائد ہے۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ آج تک ہمارا ملک اس قانون کے اطلاق سے محروم نظر آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے تمام شیشہ بار فوری طور پر بند کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا، مگر کراچی کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ سندھ پولیس نے سپریم کورٹ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔ پولیس کی ملی بھگت کی وجہ سے شیشہ بار دو دن سے زیادہ کیلئے بند ہی نہیں ہوتے۔ حال ہی میں ایس ایچ او درخشاں نے کلفٹن کے شیشہ بار پر چھاپہ مارا تو ایس ایچ کی چھٹی کرادی گئی۔ لہذا ''جو ہورہا ہے ہونے دو'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پولیس نے شیشہ بار مالکان سے 10 سے 30 ہزار ماہانہ وصول کرکے انہیں قانونی تحفظ دینا شروع کردیا۔

کراچی کے مشہور شیشہ پارلرز میں شامل اوزون کیفے، ڈاؤن ٹاؤن کیفے، جیک چارلی کیفے، بخش کیفے، سگنیچرکیفے، حریرہا کیفے، کیفے لندن، ایریزونا کیفے، راؤنڈون کیفے، لیون کلب بہت مشہور ہیں۔ یہ کیفے زیادہ تر پولیس والوں یا ان کے رشتے داروں کی ملکیت ہیں۔ بعض کیفوں میں ڈانس فلور بھی بنے ہوئے ہیں، جہاں ڈانس پارٹیز کی فیس الگ سے وصول کی جاتی ہے۔ تمباکو نوشی کے مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس اور کینسر پھیلانے میں شیشہ بار سرِ فہرست ہے، جبکہ یہ مختلف فلیورز والا زہریلا تمباکو خواتین کو آنے والی زندگی میں بانجھ بھی بناسکتا ہے اور منہ کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں بھی شیشہ بار کی مہربانیاں ہیں۔



ایک پوش گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون کے مطابق شیشہ بار میں آنا انہیں ذہنی سکون مہیا کرتا ہے، اس سے ذہنی تناؤ اور بوریت ختم جبکہ مزاج میں بہتری اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذاتی مشاہدے کے مطابق سگریٹ نوشی، شیشہ اور دوسری نشہ آور اشیاء کا استعمال آج بطور فیشن یا ایڈونچر بھی کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف شیشہ بار میں مہیا کیا جانے والا رومانوی ماحول بھی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔



اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو بچانے کے لیے یہ امر بہت ضروری ہے کہ شیشے کی لعنت سمیت نشے سے متعلق تمام اشیاء سے جڑے نقصانات سے عوام الناس کو بھرپور روشناس کروایا جائے، جس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ تمام طبقات بالخصوص میڈیا، اساتذہ اور اہل قلم اپنی تحریروں، تقریروں، خطبات کے ذریعے اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس بُرے رجحان کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کو یقینی بنائیں۔

[poll id="1067"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں