دعا کیجیے کہ ’میاں صاحب‘ کو لندن میں شفاء مل جائے
جو شخص اتنی لمبی موٹر وے بنا سکتا ہے، اس کے لیے معدے کے علاج کے لیے اسپتال بنانا کونسا مشکل کام تھا؟
یہ 25 دسمبر 1949 کا حسین دن تھا جب میاں شریف کے گھر میاں نوازشریف کی صورت ایک پھول سے بچے کا جنم ہوا۔ اُس وقت تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر دو بار پنجاب کا وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم بنے گا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ سب ہوا، اور صرف یہی نہیں ہوا بلکہ اسی پھول جیسے نواز شریف کی پارٹی گزشتہ 30 برسوں سے پنجاب میں اقتدار میں ہے۔
سننے میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب کھیل تماشہ ہے، لیکن نہیں جناب اس کے لیے نواز شریف اور ان کے خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اقتدار کے دوران تمام تر مشکلات اور روڑے اٹکائے جانے کے باوجود میاں نواز شریف نے کبھی عوام کی خدمت سے گریز نہیں کیا، معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ پاکستان کو ترقی کی ایسی راہ پر گامزن کیا کہ جہاں سے واپسی اب ہرگز ممکن نہیں۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھ گیا، موٹر وے نے سفر کو آسان بنادیا، میٹرو بھی بنی اور اورنج لائن کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ویسے تو ترقیاتی منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن موضوع اس وقت کچھ اور ہے اس لیے کسی اور دن ترقیاتی منصوبوں پر بات کریں گے۔
اصل موضوع اس وقت جناب وزیراعظم کی صحت کا ہے۔ میاں صاحب کو معدے کی تکلیف نے آ گھیرا ہے اور اس خطرناک بیماری کے علاج کے لیے وہ اور اُن کا پورا خاندان لندن روانہ ہوچکا ہے۔ معدے کی تکلیف کا تھوڑا سا اپنے قارئین کو بتادوں کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے اور اس کا علاج ابھی پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ علاج سے ہٹ کر بات کی جائے تو ہمارے گھروں میں کسی کو معدے کی تکلیف ہو تو اسے اجوائین نمک میں ملا کر پھکی بنانے کے بعد ٹھنڈی سیون اپ کے ساتھ پلا دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں فوری طور پر معدے کی تکلیف ٹھیک ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ ٹوٹکا تو عام پاکستانیوں کے لیے ہے مگر وزیراعظم کو سیکورٹی خدشات کے سبب یہ ٹوٹکا پیش نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ان کو بحالت مجبوری لندن جانا پڑا۔
اب آپ یہ سوال ضرور اٹھا سکتے ہیں کہ آخر میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کوئی ایسا قابل ِ فخر اسپتال کیوں نہیں بنایا جو 'معدے' جیسی خطرناک بیماری کا علاج کر سکے؟ ویسے تو اس کا جواب ہم سرسری طور پر اوپر دے چکے ہیں کہ دورِ اقتدار میں مسلسل روڑے اٹکائے جانے کی وجہ سے میاں صاحب کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اگرچہ دیگر ترقیاتی کاموں میں تو ان پر بہت آسانیاں رہی لیکن ریاست کے تمام ہی ادارے یہ طے کرچکے تھے کہ کچھ ہوجائے نواز شریف کو اچھا اسپتال نہیں بنانے دیں گے، بس آج نواز شریف کو لندن جانے کی جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُس کی وجہ وہی ادارے ہیں۔
ورنہ کیا بھلا ہم نواز شریف کے خلوص پر شک کرسکتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو؟ ہم نے تو قریبی رفقاء کو یہ بھی کہتے سنا کہ میاں صاحب اکثر اکیلے میں روتے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی غریب عوام کے لیے اچھے اسپتال نہیں بنا سکے، اور کئی بار تو مایوسی اور غصے میں اقتدار کو لات مارنے کا بھی فیصلہ کیا لیکن پھر لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے کہ لوگ یہ غم برداشت نہیں کرسکیں گے۔ عوام کو آپ سے محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ تاحیات اس ملک کے وزیر اعظم رہیں، بس یہ الفاظ سننے کے بعد میاں صاحب کو کچھ حوصلہ ملتا ہے اور پھر اقتدار پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ ورنہ جو شخص اتنی لمبی موٹر وے بنا سکتا ہے، اونچے پل بنا سکتا ہے اسکے لیے معدے کے علاج کے لیے اسپتال بنانا کونسا مشکل کام تھا؟
مختصر یہ کہ لندن یاترا کے حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں بھی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ فوری طور پر دور کرلے کیونکہ ہمیں تو نواز شریف سے مطلب ہے، وہ ہیں تو ہم ہیں۔ اگر لندن میں اُن کے معدے کا اچھا علاج ہوجائے تو کیا برائی ہے؟ اگر وہاں اس خطرناک بیماری کا کامیاب علاج ہوجائے تو میں میاں صاحب سے التجا کروں گا کہ مستقبل میں بھی آپ اسی طرح اپنے علاج کے لیے وہیں جایا کریں کیونکہ آپ کی صحت سے بڑھ کر اس قوم کے لیے کچھ بھی اہم نہیں۔
باقی جہاں تک عوام کے علاج کا تعلق ہے تو ہم ٹھہرے غریب لوگ، اگر علاج ہوگیا تو ٹھیک، نہیں ہوا تو کیا ہوا کہ دو چار غریبوں کی دنیا سے رخصتی بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ایک بات کا آپ کو ضرور یقین دلانا چاہوں گا کہ ہمارے جانے سے ملک سے غربت میں کمی تو ممکن ہے، لیکن آپ کی مقبولیت میں بالکل بھی فرق نہیں آئے گا۔
[poll id="1064"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سننے میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب کھیل تماشہ ہے، لیکن نہیں جناب اس کے لیے نواز شریف اور ان کے خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اقتدار کے دوران تمام تر مشکلات اور روڑے اٹکائے جانے کے باوجود میاں نواز شریف نے کبھی عوام کی خدمت سے گریز نہیں کیا، معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ پاکستان کو ترقی کی ایسی راہ پر گامزن کیا کہ جہاں سے واپسی اب ہرگز ممکن نہیں۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھ گیا، موٹر وے نے سفر کو آسان بنادیا، میٹرو بھی بنی اور اورنج لائن کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ویسے تو ترقیاتی منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن موضوع اس وقت کچھ اور ہے اس لیے کسی اور دن ترقیاتی منصوبوں پر بات کریں گے۔
اصل موضوع اس وقت جناب وزیراعظم کی صحت کا ہے۔ میاں صاحب کو معدے کی تکلیف نے آ گھیرا ہے اور اس خطرناک بیماری کے علاج کے لیے وہ اور اُن کا پورا خاندان لندن روانہ ہوچکا ہے۔ معدے کی تکلیف کا تھوڑا سا اپنے قارئین کو بتادوں کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے اور اس کا علاج ابھی پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ علاج سے ہٹ کر بات کی جائے تو ہمارے گھروں میں کسی کو معدے کی تکلیف ہو تو اسے اجوائین نمک میں ملا کر پھکی بنانے کے بعد ٹھنڈی سیون اپ کے ساتھ پلا دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں فوری طور پر معدے کی تکلیف ٹھیک ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ ٹوٹکا تو عام پاکستانیوں کے لیے ہے مگر وزیراعظم کو سیکورٹی خدشات کے سبب یہ ٹوٹکا پیش نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ان کو بحالت مجبوری لندن جانا پڑا۔
اب آپ یہ سوال ضرور اٹھا سکتے ہیں کہ آخر میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کوئی ایسا قابل ِ فخر اسپتال کیوں نہیں بنایا جو 'معدے' جیسی خطرناک بیماری کا علاج کر سکے؟ ویسے تو اس کا جواب ہم سرسری طور پر اوپر دے چکے ہیں کہ دورِ اقتدار میں مسلسل روڑے اٹکائے جانے کی وجہ سے میاں صاحب کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اگرچہ دیگر ترقیاتی کاموں میں تو ان پر بہت آسانیاں رہی لیکن ریاست کے تمام ہی ادارے یہ طے کرچکے تھے کہ کچھ ہوجائے نواز شریف کو اچھا اسپتال نہیں بنانے دیں گے، بس آج نواز شریف کو لندن جانے کی جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُس کی وجہ وہی ادارے ہیں۔
ورنہ کیا بھلا ہم نواز شریف کے خلوص پر شک کرسکتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو؟ ہم نے تو قریبی رفقاء کو یہ بھی کہتے سنا کہ میاں صاحب اکثر اکیلے میں روتے ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی غریب عوام کے لیے اچھے اسپتال نہیں بنا سکے، اور کئی بار تو مایوسی اور غصے میں اقتدار کو لات مارنے کا بھی فیصلہ کیا لیکن پھر لوگوں نے سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے کہ لوگ یہ غم برداشت نہیں کرسکیں گے۔ عوام کو آپ سے محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ تاحیات اس ملک کے وزیر اعظم رہیں، بس یہ الفاظ سننے کے بعد میاں صاحب کو کچھ حوصلہ ملتا ہے اور پھر اقتدار پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ ورنہ جو شخص اتنی لمبی موٹر وے بنا سکتا ہے، اونچے پل بنا سکتا ہے اسکے لیے معدے کے علاج کے لیے اسپتال بنانا کونسا مشکل کام تھا؟
مختصر یہ کہ لندن یاترا کے حوالے سے اگر کسی کے ذہن میں بھی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ فوری طور پر دور کرلے کیونکہ ہمیں تو نواز شریف سے مطلب ہے، وہ ہیں تو ہم ہیں۔ اگر لندن میں اُن کے معدے کا اچھا علاج ہوجائے تو کیا برائی ہے؟ اگر وہاں اس خطرناک بیماری کا کامیاب علاج ہوجائے تو میں میاں صاحب سے التجا کروں گا کہ مستقبل میں بھی آپ اسی طرح اپنے علاج کے لیے وہیں جایا کریں کیونکہ آپ کی صحت سے بڑھ کر اس قوم کے لیے کچھ بھی اہم نہیں۔
باقی جہاں تک عوام کے علاج کا تعلق ہے تو ہم ٹھہرے غریب لوگ، اگر علاج ہوگیا تو ٹھیک، نہیں ہوا تو کیا ہوا کہ دو چار غریبوں کی دنیا سے رخصتی بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ایک بات کا آپ کو ضرور یقین دلانا چاہوں گا کہ ہمارے جانے سے ملک سے غربت میں کمی تو ممکن ہے، لیکن آپ کی مقبولیت میں بالکل بھی فرق نہیں آئے گا۔
[poll id="1064"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔