تا ثریا می رود دیوار کج

اس کے برعکس آج دنیا میں حکمرانی کسی فرد واحد کی مطلق حاکمیت کے تابع نہیں ہوتی

muqtidakhan@hotmail.com

شام7سے12 بجے سے مختلف چینلوں پر سجے سیاسی اکھاڑے ہوں یا کوئی سیمینار و سمپوزیم ویسے تو ہر سیاسی جماعت کے رہنما اپنی جماعت کے سربراہ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں، مگر حکمران جماعت کی تو بات ہی نرالی ہے۔ اس کے وزرا اور اراکین جس انداز میں اپنے قائد کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں، اس سے تو ملا دوپیازہ، ابوالفضل اور فیضی بھی شرما جائیں۔ یہ مناظر دیکھنے کے بعد گمان ہوتا ہے کہ ہم اکیسویںصدی کی دوسری دہائی میں نہیں بلکہ سترھویں صدی کے مغلیہ دور میں بستے ہیں۔ جہاں ظلِ الٰہی کی شان میں صبح و شام قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ شہنشاہ عالم کا ہر حکم، ہر فرمان اور ہر اقدام خواہ کتنا ہی بے مصرف کیوں نہ ہو،ان کی تعریف کے پل باندھنا درباری رتنوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا ،کیونکہ وہ اسی کی کھاتے تھے۔

اس کے برعکس آج دنیا میں حکمرانی کسی فرد واحد کی مطلق حاکمیت کے تابع نہیں ہوتی، بلکہ اجتماعی فیصلہ سازی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اسی طرح پارٹی کا ہر رکن فرد واحد کے فیصلوں اور اقدامات کا ترجمان نہیں ہوتا، بلکہ اپنی جماعت کے نظریات، سیاسی ایجنڈے اور منشور کا وفادار اور اس کا مبلغ ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ بھی انھی کارکنوں کا منتخب کردہ رہنما ہوتا ہے، مگر پاکستان میں یہ سیاسی کلچر ابھی بہت دور کی بات ہے۔

یہاں قائد سے وفاداری ہی جماعت اور نظریات سے وفاداری تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، ایسے تمام معاشرے جو صدیوں تک غلامی کے زیر اثر رہے ہوں، وہاں عوام و خواص کے رویوں میں شخصیت پرستی کا عنصر غالب ہو جاتا ہے۔ ان کے مزاج میں منکسرالمزاجی کی جگہ خوشامد، حق گوئی کی جگہ مصلحت کوشی اور بے باکی کی جگہ چاپلوسی گھر کر لیتی ہے۔ طاقتور کے آگے سجدہ ریز ہونا اور کمزور کو آنکھیں دکھانا ایسے معاشروں کا وطیرہ بن جاتا ہے۔

دوئم، قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط گرفت عام لوگوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے۔ انھیں ہر وہ چیز بھلی معلوم ہوتی ہے جو قبیلہ کے سربراہ یا علاقے کی بااثر شخصیت کی پسند ہو، جب کہ ان حقیقتوں اور سچائیوں سے دانستہ نظریں چرائی جاتی ہیں جو ان مقامی آقاؤں کی ناراضگی کا باعث بنیں۔ گویا معیارات زندگی مقامی آقاؤں اور ان کے کمداروں کے ابرو ِچشم سے مشروط ہوجاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بیشتر انسانی صفات Genesکے ذریعے منتقل ہوتی ہیں، مگر معلوم دنیا میں انسانوں نے اپنے رویوں اور روش میں ایسی انقلاب آفریں تبدیلیاں کی ہیں، جن کی بدولت انسان کے جنیاتی اوصاف میں بہتری اور اس دھرتی کے رنگوں میں نکھار آیا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی معاشرے سے قبائلیت اور جاگیرداری کا خاتمہ ہو اور لوگ قبائلی یا برادری کی بندشوں سے آزاد ہوکر اپنی عقل سلیم کو استعمال کرنے پر قادر ہوجائیں۔ اس کے بعد ہی عوام میں مثبت کردارسازی کا عمل شروع ہوتا ہے جو اعتماد کے ساتھ ایسی فیصلہ سازی پر راغب کرتا ہے، جس میں دیانتداری، حق وانصاف اور سچائی اور حقیقت کا عنصر غالب ہو۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے چند مثالوں پر نظر ڈالنا ہوگی۔

امریکی تاریخ کاسب سے بڑا اسکینڈل'' واٹرگیٹ اسکینڈل'' ہے۔ جس کی وجہ سے امریکی عوام کا حکمرانوںکے لیے اعتماد متزلزل ہوا، جب کہ ذرایع ابلاغ کے لیے توقیر میں اضافہ ہوا۔ 1972کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران واٹرگیٹ نامی ہوٹل میں ہونے والے ڈیموکریٹ کنونشن کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ری پبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے خفیہ طور پر ان کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی سازش کی۔ واشنگٹن پوسٹ کے دو صحافیوں کارل برنسٹین اور باب وڈورڈ جو اس کنونشن کی رپورٹنگ پر مامور تھے، انھیں شک تھا کہ سرکاری سطح پر کچھ غلط ہو رہا ہے۔ جب FBIکے ایک اہلکار مارک فیلٹ(Mark Felt) نے انھیں نام نہ ظاہر کرنے کے وعدے پر حقیقت حال آشکار کی، تو ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ دونوں صحافیوں نے اپنے کیرئیرکو داؤ پر لگا کر اس اسٹوری کو شایع کیا۔ قصہ مختصر معاملہ عدالت تک پہنچا اور بالآخر ثبوت مہیا ہونے پر نکسن حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔۔


گیری ہارٹ جارج بش کے مقابلے میں ڈیموکریٹ امیدوار تھا۔ پارٹی نامزدگی کے لیے مہم کے دوران وال اسٹریٹ جرنل میں اس کی ایک پرانی تصویر شایع ہوئی، جس میں وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ نائٹ کلب میں داخل ہورہا تھا۔ تین روز بعد واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والی تصویر میں اسے ایک ماڈل کے ساتھ قابل اعتراض انداز میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا۔ ان تصاویر کی اشاعت کے بعد امریکی سماج میں تہلکہ مچ گیا۔ امریکی معاشرے میں قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے عام شہریوں کی لغزشوں کونظر انداز کیا جاتا ہے۔ مگر وہ اپنے حکمرانوں کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک صاحب کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہفتے کے اندر گیری ہارٹ کو عوامی دباؤ پر انتخابی دوڑ سے الگ ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

دوسرا واقعہ امریکی صدر بل کلنٹن کا ہے۔ اپنی رومان پرور طبیعت سے مجبورہو کر وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خوبرو دوشیزہ مونا لیونسکی کے ساتھ دفتری اوقات کے دوران اٹھکیلیاں کرنے لگے۔ کچھ دنوں تک تو یہ داستان چھپی رہی، مگر جلد ہی ایک دوسری اہلکار کی زبانی منظر عام پر آہی گئی جس کے نتیجے میں صدر کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ اگر وہ بروقت ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے معافی نہیں مانگتے، تو اقتدار سے ہاتھو دھونا پڑتے۔ آج ان کی بیگم ہیلری کو اپنی جماعت میں صدارتی امیدوارکی نامزدگی کے لیے جن مشکلات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک کمزورکردار کے شخص سے انھوں نے طلاق حاصل نہ کر کے دراصل اپنے کردار کی کمزوری کو ظاہر کیا ہے۔ اس لیے تمامتر خوبیوں کے باوجود ان کی یہ کوتاہی ان کی نامزدگی کی راہ میں آڑے آرہی ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا کا عالمی استعماری کردار اپنی جگہ قابل مذمت سہی، مگر ریاستی ڈھانچے کو چلانے کے لیے وہاں جو اصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں، ان پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ یہی طرزعمل اس مملکت کو عالمی طاقت بنانے کا اصل سبب ہے۔ ہمارا معاملہ قطعی مختلف ہے۔ ہم ایسے معیارات متعین نہیں کرسکے ہیں جو نظم حکمرانی کو بہتر بنا سکیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے تو 68برسوں کے دوران نظام حکمرانی کو وہ استحکام نہیں مل سکا جو معیارات طے کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

ملک پر زیادہ تر فوجی آمریتیں مسلط رہیں جوسیاسی حکومتیں قائم ہوئیں، ان میں ان قوتوں کی بالادستی رہی ہے ،جواقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خاطرہر قسم کی تبدیلی اور اصلاح کے خلاف مزاحمت کرتی ہیںاورStatus quoکو جاری رکھنے پر مصر رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوام خواندگی کی کمتر شرح اور قبائلیت میں جکڑنے ہونے کے باعث ریاستی امور کی نزاکتوں اور باریکیوں کو سمجھنے اور ضرورت کے مطابق ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ان کا طرز عمل غیر متوازن ہے۔ معمولی نوعیت کے کسی واقعے یا نان ایشو پر تو اکثر اتنا شدید ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ پورا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے جب کہ اہم اور سنگین نوعیت کے مسئلے پر چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسئلے کی اہمیت اور سنگینی تک متاثر ہوجاتی ہے۔

اس تناظر میں اگر سمندر پار(Off Shore)کاروبار کا جائزہ لیں، تویہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ملکی وسائل کو لوٹنے کی حقیقت پر مبنی داستانیں طویل عرصے سے زبانِ زد عام ہیں۔ ہر دور حکومت میں عوام کی خون پسینے سے کمائی دولت لوٹنے کا عمل جاری رہا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دراصل ہم احتساب کے ایسے شفاف اور غیر جانبدارانہ اصول و ضوابط بنانے میں ناکام چلے آرہے ہیں، جو ریاستی امور کو درست سمت میں رکھ سکیں۔ احتساب کا جو مکینزم مختلف ادوار میں بنایا گیا، اسے مفاد پرست مراعات یافتہ طبقات نے دانستہ متنازع بنا دیا تاکہ مفادات حاصل کیے جاسکیں۔ دوسری طرف جب حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور لغزشوں پر آواز اٹھائی جاتی ہے، تو اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر آواز اٹھانے والے کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ 68 برسوں کے دوران کسی ایک دن بھی نظم حکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوں اور کمزوریوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر ان کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی تیار کرنے کی زحمت کسی بھی جانب سے گوارا نہیں کی گئی۔ ایسی صورتحال میں پاناما لیکس کی کیا حیثیت ہے؟اس سے بڑے انکشافات بھی حکمران اشرافیہ کی بدعنوانیوںاور بے اعتدالیوںکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ایک ایسا معاشرہ جو ہاتھ میں جبھی پھانس نکالنے کے بجائے اس پر مرہم پٹی کو ہی علاج سمجھتا ہو، اس کے سیاسی شعور پر کیا تبصرہ کیا جاسکتاہے۔البتہ شیخ سعدی کا یہ شعر اس معاشرے پرضرور صادق آتا ہے:

خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا می رود دیوار کج
Load Next Story