ٹاک شوز کے مہمان
پاکستان جس نظریاتی جمود کا شکار ہے، اس سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمے داری الیکٹرانک میڈیا پرعائد ہوتی ہے
پاکستان جس نظریاتی جمود کا شکار ہے، اس سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمے داری الیکٹرانک میڈیا پرعائد ہوتی ہے کیونکہ یہ ایسا میڈیم جس کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے، کیا تعلیم یافتہ کیا ناخواندہ سب ہی الیکٹرانک میڈیا کے پروگرام دیکھتے ہیں اور اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
اگرچہ معاشرے میں نظریاتی بیداری پیدا کرنے کی ذمے داری اہل علم، اہل قلم، اہل فکر پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ حضرات ہمارے معاشرے میں اچھوت بن کر رہ گئے ہیں اور نظریہ سازی کی ذمے داری ایلیٹ کلاس کے مڈل کلاسر غلام انجام دے رہے ہیں لہٰذا معاشرہ نظریاتی ترقی کے بجائے شدید نظریاتی انتشار کا شکار ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر بھی بڑی حد تک ان ہی ضمیرکے سوداگروں کا قبضہ ہے، لہٰذا ملک ایک ایسے نظریاتی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا انجام خانہ جنگی بھی ہوسکتا ہے۔
2007 کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جس کا مثبت استعمال کیا جاتا تو آج ملک اس نظریاتی جمود سے نکل سکتا تھا جس میں وہ 69 سالوں سے پھنسا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے میڈیا کی اولین ترجیح سیاست اور جمہوریت ہے لیکن چونکہ سیاست جمہوریت اور حکومت پر ایک ہی گروہ کا قبضہ ہے جسے ملک و ملت کی اجتماعی بھلائی اور عوام کے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا یہ گروہ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کو اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے لائق و فائق مبصرین حکومت پر بھرپور تنقید کرتے ہیں بلکہ بعض وقت یہ تنقید ہجوگوئی تک پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے ملک کی اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک ہی سکے کے دو رخ بنے ہوئے ہیں لہٰذا یہاں کسی تبدیلی اور اعلیٰ تبدیلی کے بجائے باری باری کا وہ مکروہ اور عیارانہ کھیل جاری ہے جس کا نتیجہ ہر حال میں ایلیٹ کی بالادستی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کھیل کو جاری رکھنے اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے ایسے ایسے ڈرامے رچائے جاتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان ڈراموں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور نتیجہ عوام کی تقسیم در تقسیم ہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ 69 سالہ Status Quo کو توڑنا ہے 2014 میں کچھ سیاسی جلوہ گر عوام کی نفسیات کو محسوس کرکے اسٹیٹس کو توڑنے اور انقلاب لانے کے نعروں کے ساتھ سیاسی میدان میں داخل ہوئے مگر ان کا اصل مدعا چونکہ انقلاب یا بامعنی تبدیلی نہیں بلکہ اقتدار تھا سو طاقتور اقتداری گروہوں نے اور ان کی اپنی احمقانہ سیاست نے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ برسر اقتدار طاقتور گروہ مضبوطی سے قدم جما رہے ہیں لیکن بے رحمانہ سیاست اور اقتصادی زبوں حالی نے عوام کے اندر ایک ایسی بے چینی پیدا کردی ہے جسے مثبت سمت میں موڑا جائے تو اس ملک کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔ اس ملک کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اہل فکر اور اہل قلم ہماری اشرافیائی جمہوریت کے اس قدر دعویدار ہیں کہ اس کے کردار کو سمجھے بغیر لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے کی آواز بلند کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کی مخالفت کا مقصد آمریت کی حمایت نہیں بلکہ ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو ایلیٹ نے عوامی جمہوریت کی راہ میں کھڑی کر رکھی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ یا سازش وہ ولی عہدی نظام ہے جس کے ذریعے سیاسی ایلیٹ آنے والی کئی نسلوں تک سیاست اور اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی سازش کر رہی ہے۔
یہ جمہوریت کی ایسی شرمناک نفی ہے جس پر ہماری مڈل کلاس کے اہل فکر اہل دانش غور کرنے کی زحمت ہی کے لیے تیار نہیں۔ کیا جمہوریت کے نام پر ولی عہدی نظام کو مستحکم کرنے کی سازش کے خلاف آواز اٹھانا جمہوریت دشمنی ہے؟ ہماری سیاست اور اقتدار پر گنتی کے چند خاندان قابض ہیں اور ہر خاندان نے ولی عہدوں کے ریوڑ کے ریوڑ تیار کر رکھے ہیں کیا ان ریوڑوں کی موجودگی میں نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھر سکتی ہے؟ ایک دوسرا ذریعہ بلدیاتی نظام تھا جس سے نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھاری جاسکتی تھی سو ان سازشیوں نے بلدیاتی نظام کو بھی اختیارات سے محروم کرکے اسے لٹکا کے رکھا ہے اور اس صورتحال کو جوں کا توں رکھنے میں خود مڈل کلاس کے بے عقل لوگ ٹارزن کی طرح سیاست میں آرہے ہیں۔
ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان کی قیادت بھی درمیانے طبقے کے ہاتھوں میں ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی زندگی کو رول ماڈل ماننے والی یہ جماعتیں اپنا سارا زور عیاراتی پہلوؤں پر لگاتی آرہی ہیں بلاشبہ ہر مذہب میں عبادات ذہنی آسودگی کا ایک بڑا وسیلہ مانی جاتی ہیں لیکن ہمارے عظیم پیغمبر کی زندگی کو رول ماڈل کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے والے محترمین کے نزدیک غالباً اس بات کی اہمیت نہیں کہ ہمارے پیغمبر نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار تھے نہ صنعتکار۔ کیا ہماری مذہبی قیادت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ہمارے معاشرے ہمارے ملک میں جو جمود طاری ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک کا جاگیردار سرمایہ دار اور صنعتکار طبقے کا طاقتور ہونا ہے۔
کیا مذہبی جماعتوں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ نان ایشوز پر ہزاروں لوگوں کو جمع کرنے اور دھرنے دینے کے بجائے حقیقی مسائل پر جن کا تعلق عوامی زندگی اور عوامی جمہوریت سے ہے، عوام کو متحرک کریں ایک ریلی جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھی نکالیں ایک دھرنا Status Quo کے خلاف بھی دیں جو ہماری سیاست پر 69 سال سے سوار ہے۔
اس دانستہ یا نادانستہ کوتاہی کا شکار صرف دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ بائیں بازو کی علمبردار سیاسی جماعتیں بھی ہیں جب کہ اسٹیٹس کو توڑنے کی اصل ذمے داری بائیں بازو پر عائد ہوتی ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں ایک میڈیا ہی ایسا وسیلہ رہ جاتا ہے جو ولی عہدی نظام کے خلاف اور لولی لنگڑی جمہوریت کا پردہ چاک کرکے عوام کو عوامی جمہوریت کی بحالی کے لیے متحرک کرسکتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں ٹاک شوز ایک ایسا وسیلہ ہیں جن کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کرکے انھیں جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی ترغیب فراہم کی جاسکتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے اشرافیہ کے ایجنٹوں کا اکھاڑہ بنادیا گیا ہے جہاں 24 گھنٹے ایک جماعت دوسری جماعت کی ٹانگ کھینچتی نظر آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹاک شوز میں دانشوروں کو بلایا جائے اہل فکر اور اہل قلم کو بلایا جائے سائنسدانوں کو بلایا جائے خلائی ماہرین اور ماہرین ارض کو بلایا جائے آزاد خیال ماہرین معیشت مزدوروں اور کسانوں کے نمایندوں کو بلایا جائے تاکہ ان کی آرا سے معاشرے کی ترقی میں مدد لی جاسکے۔
اگرچہ معاشرے میں نظریاتی بیداری پیدا کرنے کی ذمے داری اہل علم، اہل قلم، اہل فکر پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ حضرات ہمارے معاشرے میں اچھوت بن کر رہ گئے ہیں اور نظریہ سازی کی ذمے داری ایلیٹ کلاس کے مڈل کلاسر غلام انجام دے رہے ہیں لہٰذا معاشرہ نظریاتی ترقی کے بجائے شدید نظریاتی انتشار کا شکار ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر بھی بڑی حد تک ان ہی ضمیرکے سوداگروں کا قبضہ ہے، لہٰذا ملک ایک ایسے نظریاتی انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا انجام خانہ جنگی بھی ہوسکتا ہے۔
2007 کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جس کا مثبت استعمال کیا جاتا تو آج ملک اس نظریاتی جمود سے نکل سکتا تھا جس میں وہ 69 سالوں سے پھنسا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے میڈیا کی اولین ترجیح سیاست اور جمہوریت ہے لیکن چونکہ سیاست جمہوریت اور حکومت پر ایک ہی گروہ کا قبضہ ہے جسے ملک و ملت کی اجتماعی بھلائی اور عوام کے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا یہ گروہ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کو اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے لائق و فائق مبصرین حکومت پر بھرپور تنقید کرتے ہیں بلکہ بعض وقت یہ تنقید ہجوگوئی تک پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے ملک کی اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک ہی سکے کے دو رخ بنے ہوئے ہیں لہٰذا یہاں کسی تبدیلی اور اعلیٰ تبدیلی کے بجائے باری باری کا وہ مکروہ اور عیارانہ کھیل جاری ہے جس کا نتیجہ ہر حال میں ایلیٹ کی بالادستی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کھیل کو جاری رکھنے اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے ایسے ایسے ڈرامے رچائے جاتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان ڈراموں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور نتیجہ عوام کی تقسیم در تقسیم ہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ 69 سالہ Status Quo کو توڑنا ہے 2014 میں کچھ سیاسی جلوہ گر عوام کی نفسیات کو محسوس کرکے اسٹیٹس کو توڑنے اور انقلاب لانے کے نعروں کے ساتھ سیاسی میدان میں داخل ہوئے مگر ان کا اصل مدعا چونکہ انقلاب یا بامعنی تبدیلی نہیں بلکہ اقتدار تھا سو طاقتور اقتداری گروہوں نے اور ان کی اپنی احمقانہ سیاست نے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ برسر اقتدار طاقتور گروہ مضبوطی سے قدم جما رہے ہیں لیکن بے رحمانہ سیاست اور اقتصادی زبوں حالی نے عوام کے اندر ایک ایسی بے چینی پیدا کردی ہے جسے مثبت سمت میں موڑا جائے تو اس ملک کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔ اس ملک کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اہل فکر اور اہل قلم ہماری اشرافیائی جمہوریت کے اس قدر دعویدار ہیں کہ اس کے کردار کو سمجھے بغیر لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے کی آواز بلند کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کی مخالفت کا مقصد آمریت کی حمایت نہیں بلکہ ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو ایلیٹ نے عوامی جمہوریت کی راہ میں کھڑی کر رکھی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ یا سازش وہ ولی عہدی نظام ہے جس کے ذریعے سیاسی ایلیٹ آنے والی کئی نسلوں تک سیاست اور اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی سازش کر رہی ہے۔
یہ جمہوریت کی ایسی شرمناک نفی ہے جس پر ہماری مڈل کلاس کے اہل فکر اہل دانش غور کرنے کی زحمت ہی کے لیے تیار نہیں۔ کیا جمہوریت کے نام پر ولی عہدی نظام کو مستحکم کرنے کی سازش کے خلاف آواز اٹھانا جمہوریت دشمنی ہے؟ ہماری سیاست اور اقتدار پر گنتی کے چند خاندان قابض ہیں اور ہر خاندان نے ولی عہدوں کے ریوڑ کے ریوڑ تیار کر رکھے ہیں کیا ان ریوڑوں کی موجودگی میں نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھر سکتی ہے؟ ایک دوسرا ذریعہ بلدیاتی نظام تھا جس سے نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھاری جاسکتی تھی سو ان سازشیوں نے بلدیاتی نظام کو بھی اختیارات سے محروم کرکے اسے لٹکا کے رکھا ہے اور اس صورتحال کو جوں کا توں رکھنے میں خود مڈل کلاس کے بے عقل لوگ ٹارزن کی طرح سیاست میں آرہے ہیں۔
ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان کی قیادت بھی درمیانے طبقے کے ہاتھوں میں ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی زندگی کو رول ماڈل ماننے والی یہ جماعتیں اپنا سارا زور عیاراتی پہلوؤں پر لگاتی آرہی ہیں بلاشبہ ہر مذہب میں عبادات ذہنی آسودگی کا ایک بڑا وسیلہ مانی جاتی ہیں لیکن ہمارے عظیم پیغمبر کی زندگی کو رول ماڈل کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے والے محترمین کے نزدیک غالباً اس بات کی اہمیت نہیں کہ ہمارے پیغمبر نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار تھے نہ صنعتکار۔ کیا ہماری مذہبی قیادت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ہمارے معاشرے ہمارے ملک میں جو جمود طاری ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک کا جاگیردار سرمایہ دار اور صنعتکار طبقے کا طاقتور ہونا ہے۔
کیا مذہبی جماعتوں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ نان ایشوز پر ہزاروں لوگوں کو جمع کرنے اور دھرنے دینے کے بجائے حقیقی مسائل پر جن کا تعلق عوامی زندگی اور عوامی جمہوریت سے ہے، عوام کو متحرک کریں ایک ریلی جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھی نکالیں ایک دھرنا Status Quo کے خلاف بھی دیں جو ہماری سیاست پر 69 سال سے سوار ہے۔
اس دانستہ یا نادانستہ کوتاہی کا شکار صرف دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ بائیں بازو کی علمبردار سیاسی جماعتیں بھی ہیں جب کہ اسٹیٹس کو توڑنے کی اصل ذمے داری بائیں بازو پر عائد ہوتی ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں ایک میڈیا ہی ایسا وسیلہ رہ جاتا ہے جو ولی عہدی نظام کے خلاف اور لولی لنگڑی جمہوریت کا پردہ چاک کرکے عوام کو عوامی جمہوریت کی بحالی کے لیے متحرک کرسکتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں ٹاک شوز ایک ایسا وسیلہ ہیں جن کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کرکے انھیں جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی ترغیب فراہم کی جاسکتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے اشرافیہ کے ایجنٹوں کا اکھاڑہ بنادیا گیا ہے جہاں 24 گھنٹے ایک جماعت دوسری جماعت کی ٹانگ کھینچتی نظر آتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹاک شوز میں دانشوروں کو بلایا جائے اہل فکر اور اہل قلم کو بلایا جائے سائنسدانوں کو بلایا جائے خلائی ماہرین اور ماہرین ارض کو بلایا جائے آزاد خیال ماہرین معیشت مزدوروں اور کسانوں کے نمایندوں کو بلایا جائے تاکہ ان کی آرا سے معاشرے کی ترقی میں مدد لی جاسکے۔