اردو بے قاعدہ د سے دبلا بننے کے نایاب نسخے
ماہنامہ ’’اول جلول‘‘ کا تازہ شمارہ مارکیٹ میں آتے ہی خواتین کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا
ماہنامہ ''اول جلول'' کا تازہ شمارہ مارکیٹ میں آتے ہی خواتین کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ آنسہ گڑ بڑ خانم نے اول جلول کے ایک قدیم شمارے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک سنسنی خیز خط لکھا تھا کہ مذکورہ شمارے میں مطبوعہ خط پر عمل کرنے سے ان پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور وہ مائل بہ خودکشی ہیں۔ مدیر نے انھیں دلاسہ دیا تھا کہ وہ اپنی روداد قلمبند کر کے اشاعت کے لیے بھیجیں تا کہ اس کا کوئی شافی علاج تلاش کیا جا سکے۔ آنسہ گڑبڑ خانم نے جواباً جو کچھ لکھا اسے مدیر دبیر نے فیشن کے فقید المثال نمبر کے طور پر شایع کر دیا۔ جس کی آج تک گلی کوچوں میں مانگ ہے۔
آنسہ گڑبڑ خانم نے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ پڑھا کہ صرف اور صرف دودھ ہی وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بھینسیں گھر کے باڑے میں پلی تھیں اور ابا دودھ کے سپلائر تھے۔ میری فرمائش پر انھوں نے علیحدہ سے میرے لیے پانچ کلو دودھ بھجوا دیا۔ جسے میں نے ہدایت کے مطابق چولہے پر خوب پکایا۔ میرا وزن بڑھ چکا تھا اور مجھے بین الملکی مقابلے میں شرکت کا انعام جیتنا تھا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ و زیر اعلیٰ کی اہلیہ اس سلسلے میں انعامات تقسیم کریں گی۔
جہاں تک دودھ پیے جانے کا تعلق ہے تو اس کے باے میں واضح ہدایت دی گئی ہوں گی کہ اسے کتنی مقدار میں پیا جائے اور پھر اس کے ساتھ کتنی ورزش کی جائے۔ مگر میں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی، اس لیے کہ میں تو اپنا وزن گھٹانے کے چکر میں تھی۔ دن بھر پکنے کے بعد دودھ خوب لالم لال ہو گیا۔ اسے پینے کے بعد سرخم سرخ ہو گئی۔ میں یہ سمجھ کر خوشی سے سرشار ہو گئی کہ یہ میری پہلے کامیابی ہے۔ جب کہ میں نے نہ تو اپنا وزن کیا اور ان کپڑوں کی طرف توجہ دی جو دن بہ دن تنگ ہوتے جا رہے تھے۔
ایک روز خیال آیا کہ میں یہ تگ و دو اس لیے کر رہی ہوں کہ میرا وزن گھٹ جائے تا کہ میں انعام جیت سکوں۔ میں وزن بتانے والی مشین پر کھڑی ہو گئی۔ اس وقت دل کی دھڑکنوں میں کافی اضافہ ہو گیا جب میں نے نتائج کو برخلاف پایا، مجھ پر سنسنی طاری ہو گئی۔ میں مخمصے میں گرفتار ہو گئی کہ دودھ پینا چھوڑ دوں یا ورزش کرنا شروع کر دوں؟ دراصل ورزش کے بارے میں میرے خیالات زیادہ اچھے نہیں تھے، اس لیے کہ میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دادا ابا کی بڑی بڑی مونچھوں والی تصویریں دیکھی تھیں، جس میں وہ آدمی کم اور افریقہ کے کسی وحشی قبیلے کے سردار زیادہ نظر آتے تھے۔
میں نے سوچا کہ دوسری ترکیبوں پر عمل کرنا بہتر ہو گا۔ آگے لکھا تھا کہ کیا میٹھا کھاتی ہیں؟ اسے فوراً ترک کر دیجیے۔ تیسری ترکیب یہ تھی کہ فاقے کیجیے۔ مسلسل نہیں ایک دن چھوڑ کر۔ دونوں باتوں پر عمل کرنا ہمارے گھر میں ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میٹھے کے سب شوقین تھے۔ حد یہ ہے کہ اماں جو ذیابیطس کی مریضہ تھیں چھپ چھپ کر مٹھائی کھاتی تھیں۔ میں نے خود انھیں کئی بار غسل خانے میں مٹھائی کھاتے دیکھا تھا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ ڈائٹنگ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سب ہی اونچے درجے کی خواتین ڈائٹنگ کرتی ہیں۔ ہدایت تھی کہ فاقے مسلسل نہ کیے جائیں۔ پس میں نے کسی سے مشورہ کیے بغیر ایک روز کھانا اور دوسرے دن روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ نتائج ممکن ہے کہ میرے حق میں نکلتے لیکن امی نے دیکھ لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔ ''ارے لڑکی یہ درگت بنا لی ہے تو نے؟ کیوں اپنے پیچھے پڑی ہوئی ہے؟ اچھا بھلا چہرہ اور جسم ہے جسے برباد کیے دے رہی ہے۔ رشتے آنا مشکل ہو جائیں گے۔''
میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ جب ہی ان دنوں میرا منگیتر مجھے عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھنے لگتا ہے؟ راحیلہ بتا رہی تھی کہ اس کا منگیتر کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھار وزن بتانے والی مشین پر بھی کھڑی ہو جایا کرو۔
میں نے تہیہ کر لیا کہ ایسے کسی لفڑے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہے۔ تو پھر؟ میں نے مزید مطالعہ کیا تو ہدایات درج تھیں کہ گوشت نہ کھائیں۔ سبزیوں پر گزارا کریں۔ اوئی اللہ! یہ تو دنیا کا سب سے دشوار گزار معاملہ ہے۔ گھر میں تو گوشت ہی گوشت تھا۔ ہمارے گھر میں آئے دن دعوتیں۔ دعوتیں نہ بھی ہوں تو خود گھر والوں کا نوالہ گوشت کے بغیر نہیں اٹھتا تھا۔ رہا میرا معاملہ۔ بھئی۔ مرغ بریانی، حلیم، نہاری، پائے، باریک کٹا قیمہ اور شامی کباب کسے ناپسند ہوتے ہیں؟
میں یہ چیزیں کھا کر جب بستر پر لیٹتی تھی تو سیدھے پرستان پہنچ جایا کرتی تھی۔ تو کیا اب یہ سب کچھ چھوڑ کر لوکی، توری اور شلغم کھانے لگوں؟ سبزیاں تو ہمارے ہاں بکری کھاتی ہے۔ ہاں یاد آیا ہمارے محلے میں ایک لڑکی بیوٹیشن ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تین ماہ میں آپ کو سینک سلائی بنا دے گی۔ میں اس کے بارے میں معلومات اکٹھا کر چکی تھی۔ وہ اللہ کی ماری سوائے سبزیوں کے کسی چیز کو ہاتھ ہی نہیں لگاتی تھی۔ محلے کی لڑکیاں اسے بکری خانم کہا کرتی تھیں۔ اب اگر میں بھی اس کے نقش قدم پر چل پڑی تو جسم میں سوائے چمڑی کے کچھ نہ رہ جائے گا۔
یہ سوچ کر میں نے آپ کا ماہنامہ اٹھایا اور دوسری ترکیبیں دیکھنا شروع کر دیں۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ چہل قدمی اور اس کے بعد جاگنگ کیجیے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے۔ فراٹے، بھرنا، خراٹے مارنا اور سیر سپاٹے لگانا کسے نہیں آتا؟ پھر یہ میرے لیے کوئی دشوار نہیں تھا، اس لیے کہ ایک بڑا پارک ہمارے مکان کے سامنے ہی تھا۔ ہم بہنیں وہاں جاتی رہتی تھیں۔ مگر یہ سوچ کر نہیں کہ اس سے اپنا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے باقاعدگی ضروری تھی۔ شام کو تو چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنا مقصد پورا کیا جا سکتا تھا۔ صبح والد صاحب کو ساتھ لیا جا سکتا تھا۔ وہ پارک میں ٹہلتے تھے مگر بے قاعدگی کے ساتھ۔ میں نے ان سے گزارش کی تو انھوں اسے منظور کر لیا۔ پہلے دن ہی طبیعت میں چونچالی آ گئی۔ دو راؤنڈ لگانے کے بعد ایسا لگا جیسے میں ہلکی پھلکی ہو کر فضا میں اڑنے لگوں گی۔ میں نے سوچا یہ ترکیب تو واقعی کارگر ثابت ہو گی۔ بس ذرا سنجیدگی سے پارک میں آنا ضروری تھا۔
پہلے دن تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی کہ پارک میں کون آ رہا ہے اور جا رہا ہے۔ اس لیے کہ میں تو صرف اپنی طرف دیکھ رہی تھی۔ دوسرے دن میں نے اسے آوارہ پرندے کی طرح اپنے گرد منڈلاتے دیکھا۔ مناسب جسم، خوش جمال، خوش لباس۔ سب چیزیں لائق تعریف تھیں۔ اس نے میرے نزدیک آ کر کہا۔ ''یہ آپ کا رومال ہے؟''
رومال والی بات بہت پرانی ہو چکی ہے۔ عموماً تیسرے درجے کی فلموں میں، میں نے بہت دیکھی ہے۔
''میرا کیسے ہو سکتا ہے؟'' میں نے تیکھے لفظوں میں پوچھا۔
''یہ اسی ٹریک پر پڑا ہوا تھا۔'' وہ بولا اور مستفسرانہ نگاہ سے دیکھتا رہا۔میرے طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہ ملنے پر اس نے رومال سے ناک پونچھی اور اسے ٹریک پر اڑا دیا۔ پھر وہ مخالف سمت میں چلا گیا۔ کندۂ ناتراش، جاہل اور تہذیب ناآشنا۔ میرے ابتدائی تاثرات یہ تھے۔ اچانک یاد آیا کہ امی نے چلتے وقت ایک چھوٹا سا رومالچہ میرے پرس میں ڈال دیا تھا۔ ہو نا ہو یہ وہی رومالچہ تھا۔ اوہ! مگر اب کیا ہو سکتا تھا وہ ناک پونچھ کر اسے ہوا میں اڑا چکا تھا۔
دوسرے دن اس کا رویہ اسکول کے ہیڈ ماسٹروں جیسا تھا۔ وہ مجھے سمجھانے لگا کہ میں جو گھگھو گھوڑے کی طرح ٹریک پر اچھل کود م کون کس کے کتنا قریب ہو گیا۔ اس کا کسی کو ہوش نہیں تھا۔ البتہ جب اس نے حجلۂ عروسی میں آ کر میرا گھونگھٹ الٹا جب ہوش آیا۔ سب اس شادی پر حیران تھے کہ ہم نے آپس ہی میں سب طے کر لیااور کسی کو زحمت ہی نہیں دی۔
دو سال بعد میرے شوہر بھولو برادر بن چکے ہیں، البتہ میں سوکھ کر کانٹا بن چکی ہوں۔ سب کا یہی خیال ہے کہ میں نے اسمارٹ بننے کے چکر میں خود پر کافی ظلم کیا ہے۔ اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ بہنیں لمبی صراحی بننا چاہتی ہیں انھیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ اکثر ساری تدبیریں الٹی بھی ہو جایا کرتی ہیں۔
آنسہ گڑبڑ خانم نے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ پڑھا کہ صرف اور صرف دودھ ہی وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بھینسیں گھر کے باڑے میں پلی تھیں اور ابا دودھ کے سپلائر تھے۔ میری فرمائش پر انھوں نے علیحدہ سے میرے لیے پانچ کلو دودھ بھجوا دیا۔ جسے میں نے ہدایت کے مطابق چولہے پر خوب پکایا۔ میرا وزن بڑھ چکا تھا اور مجھے بین الملکی مقابلے میں شرکت کا انعام جیتنا تھا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ و زیر اعلیٰ کی اہلیہ اس سلسلے میں انعامات تقسیم کریں گی۔
جہاں تک دودھ پیے جانے کا تعلق ہے تو اس کے باے میں واضح ہدایت دی گئی ہوں گی کہ اسے کتنی مقدار میں پیا جائے اور پھر اس کے ساتھ کتنی ورزش کی جائے۔ مگر میں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی، اس لیے کہ میں تو اپنا وزن گھٹانے کے چکر میں تھی۔ دن بھر پکنے کے بعد دودھ خوب لالم لال ہو گیا۔ اسے پینے کے بعد سرخم سرخ ہو گئی۔ میں یہ سمجھ کر خوشی سے سرشار ہو گئی کہ یہ میری پہلے کامیابی ہے۔ جب کہ میں نے نہ تو اپنا وزن کیا اور ان کپڑوں کی طرف توجہ دی جو دن بہ دن تنگ ہوتے جا رہے تھے۔
ایک روز خیال آیا کہ میں یہ تگ و دو اس لیے کر رہی ہوں کہ میرا وزن گھٹ جائے تا کہ میں انعام جیت سکوں۔ میں وزن بتانے والی مشین پر کھڑی ہو گئی۔ اس وقت دل کی دھڑکنوں میں کافی اضافہ ہو گیا جب میں نے نتائج کو برخلاف پایا، مجھ پر سنسنی طاری ہو گئی۔ میں مخمصے میں گرفتار ہو گئی کہ دودھ پینا چھوڑ دوں یا ورزش کرنا شروع کر دوں؟ دراصل ورزش کے بارے میں میرے خیالات زیادہ اچھے نہیں تھے، اس لیے کہ میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دادا ابا کی بڑی بڑی مونچھوں والی تصویریں دیکھی تھیں، جس میں وہ آدمی کم اور افریقہ کے کسی وحشی قبیلے کے سردار زیادہ نظر آتے تھے۔
میں نے سوچا کہ دوسری ترکیبوں پر عمل کرنا بہتر ہو گا۔ آگے لکھا تھا کہ کیا میٹھا کھاتی ہیں؟ اسے فوراً ترک کر دیجیے۔ تیسری ترکیب یہ تھی کہ فاقے کیجیے۔ مسلسل نہیں ایک دن چھوڑ کر۔ دونوں باتوں پر عمل کرنا ہمارے گھر میں ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میٹھے کے سب شوقین تھے۔ حد یہ ہے کہ اماں جو ذیابیطس کی مریضہ تھیں چھپ چھپ کر مٹھائی کھاتی تھیں۔ میں نے خود انھیں کئی بار غسل خانے میں مٹھائی کھاتے دیکھا تھا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ ڈائٹنگ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سب ہی اونچے درجے کی خواتین ڈائٹنگ کرتی ہیں۔ ہدایت تھی کہ فاقے مسلسل نہ کیے جائیں۔ پس میں نے کسی سے مشورہ کیے بغیر ایک روز کھانا اور دوسرے دن روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ نتائج ممکن ہے کہ میرے حق میں نکلتے لیکن امی نے دیکھ لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔ ''ارے لڑکی یہ درگت بنا لی ہے تو نے؟ کیوں اپنے پیچھے پڑی ہوئی ہے؟ اچھا بھلا چہرہ اور جسم ہے جسے برباد کیے دے رہی ہے۔ رشتے آنا مشکل ہو جائیں گے۔''
میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ جب ہی ان دنوں میرا منگیتر مجھے عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھنے لگتا ہے؟ راحیلہ بتا رہی تھی کہ اس کا منگیتر کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھار وزن بتانے والی مشین پر بھی کھڑی ہو جایا کرو۔
میں نے تہیہ کر لیا کہ ایسے کسی لفڑے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہے۔ تو پھر؟ میں نے مزید مطالعہ کیا تو ہدایات درج تھیں کہ گوشت نہ کھائیں۔ سبزیوں پر گزارا کریں۔ اوئی اللہ! یہ تو دنیا کا سب سے دشوار گزار معاملہ ہے۔ گھر میں تو گوشت ہی گوشت تھا۔ ہمارے گھر میں آئے دن دعوتیں۔ دعوتیں نہ بھی ہوں تو خود گھر والوں کا نوالہ گوشت کے بغیر نہیں اٹھتا تھا۔ رہا میرا معاملہ۔ بھئی۔ مرغ بریانی، حلیم، نہاری، پائے، باریک کٹا قیمہ اور شامی کباب کسے ناپسند ہوتے ہیں؟
میں یہ چیزیں کھا کر جب بستر پر لیٹتی تھی تو سیدھے پرستان پہنچ جایا کرتی تھی۔ تو کیا اب یہ سب کچھ چھوڑ کر لوکی، توری اور شلغم کھانے لگوں؟ سبزیاں تو ہمارے ہاں بکری کھاتی ہے۔ ہاں یاد آیا ہمارے محلے میں ایک لڑکی بیوٹیشن ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تین ماہ میں آپ کو سینک سلائی بنا دے گی۔ میں اس کے بارے میں معلومات اکٹھا کر چکی تھی۔ وہ اللہ کی ماری سوائے سبزیوں کے کسی چیز کو ہاتھ ہی نہیں لگاتی تھی۔ محلے کی لڑکیاں اسے بکری خانم کہا کرتی تھیں۔ اب اگر میں بھی اس کے نقش قدم پر چل پڑی تو جسم میں سوائے چمڑی کے کچھ نہ رہ جائے گا۔
یہ سوچ کر میں نے آپ کا ماہنامہ اٹھایا اور دوسری ترکیبیں دیکھنا شروع کر دیں۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ چہل قدمی اور اس کے بعد جاگنگ کیجیے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے۔ فراٹے، بھرنا، خراٹے مارنا اور سیر سپاٹے لگانا کسے نہیں آتا؟ پھر یہ میرے لیے کوئی دشوار نہیں تھا، اس لیے کہ ایک بڑا پارک ہمارے مکان کے سامنے ہی تھا۔ ہم بہنیں وہاں جاتی رہتی تھیں۔ مگر یہ سوچ کر نہیں کہ اس سے اپنا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے باقاعدگی ضروری تھی۔ شام کو تو چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنا مقصد پورا کیا جا سکتا تھا۔ صبح والد صاحب کو ساتھ لیا جا سکتا تھا۔ وہ پارک میں ٹہلتے تھے مگر بے قاعدگی کے ساتھ۔ میں نے ان سے گزارش کی تو انھوں اسے منظور کر لیا۔ پہلے دن ہی طبیعت میں چونچالی آ گئی۔ دو راؤنڈ لگانے کے بعد ایسا لگا جیسے میں ہلکی پھلکی ہو کر فضا میں اڑنے لگوں گی۔ میں نے سوچا یہ ترکیب تو واقعی کارگر ثابت ہو گی۔ بس ذرا سنجیدگی سے پارک میں آنا ضروری تھا۔
پہلے دن تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی کہ پارک میں کون آ رہا ہے اور جا رہا ہے۔ اس لیے کہ میں تو صرف اپنی طرف دیکھ رہی تھی۔ دوسرے دن میں نے اسے آوارہ پرندے کی طرح اپنے گرد منڈلاتے دیکھا۔ مناسب جسم، خوش جمال، خوش لباس۔ سب چیزیں لائق تعریف تھیں۔ اس نے میرے نزدیک آ کر کہا۔ ''یہ آپ کا رومال ہے؟''
رومال والی بات بہت پرانی ہو چکی ہے۔ عموماً تیسرے درجے کی فلموں میں، میں نے بہت دیکھی ہے۔
''میرا کیسے ہو سکتا ہے؟'' میں نے تیکھے لفظوں میں پوچھا۔
''یہ اسی ٹریک پر پڑا ہوا تھا۔'' وہ بولا اور مستفسرانہ نگاہ سے دیکھتا رہا۔میرے طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہ ملنے پر اس نے رومال سے ناک پونچھی اور اسے ٹریک پر اڑا دیا۔ پھر وہ مخالف سمت میں چلا گیا۔ کندۂ ناتراش، جاہل اور تہذیب ناآشنا۔ میرے ابتدائی تاثرات یہ تھے۔ اچانک یاد آیا کہ امی نے چلتے وقت ایک چھوٹا سا رومالچہ میرے پرس میں ڈال دیا تھا۔ ہو نا ہو یہ وہی رومالچہ تھا۔ اوہ! مگر اب کیا ہو سکتا تھا وہ ناک پونچھ کر اسے ہوا میں اڑا چکا تھا۔
دوسرے دن اس کا رویہ اسکول کے ہیڈ ماسٹروں جیسا تھا۔ وہ مجھے سمجھانے لگا کہ میں جو گھگھو گھوڑے کی طرح ٹریک پر اچھل کود م کون کس کے کتنا قریب ہو گیا۔ اس کا کسی کو ہوش نہیں تھا۔ البتہ جب اس نے حجلۂ عروسی میں آ کر میرا گھونگھٹ الٹا جب ہوش آیا۔ سب اس شادی پر حیران تھے کہ ہم نے آپس ہی میں سب طے کر لیااور کسی کو زحمت ہی نہیں دی۔
دو سال بعد میرے شوہر بھولو برادر بن چکے ہیں، البتہ میں سوکھ کر کانٹا بن چکی ہوں۔ سب کا یہی خیال ہے کہ میں نے اسمارٹ بننے کے چکر میں خود پر کافی ظلم کیا ہے۔ اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ بہنیں لمبی صراحی بننا چاہتی ہیں انھیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ اکثر ساری تدبیریں الٹی بھی ہو جایا کرتی ہیں۔