انٹرنیٹ پرانے پن کے ساتھ نیا پن
ہر انسان کی خواہش ہو تی ہے کہ جس چیز کو وہ جذبہ دل سے طلب کرے وہ فوراً حاضر ہو جائے
ISLAMABAD:
ہر انسان کی خواہش ہو تی ہے کہ جس چیز کو وہ جذبہ دل سے طلب کرے وہ فوراً حاضر ہو جائے، منزل کے لیے دو گام چلے اور سامنے منزل آ جائے۔ انٹرنیٹ کی دنیا اسی خواہش کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں سائنس کی بے شمار ایجادات کے ساتھ انٹرنیٹ کمپیوٹر نے ہماری زندگیوں میں سہولتیں فراہم کی ہیں، وہاں شعر و ادب کی دنیا بھی اس کی احسان مند ہے، اب یہی دیکھیے کہ دنیا کے وہ اخبارات و رسائل جن کے بارے میں دوسروں سے محض تذکرہ ہی سنتے تھے، حسرت رہتی تھی، ہم بھی انھیں پڑھ سکیں اب ہماری دسترس میں ہیں۔
صحافت کو انٹرنیٹ کے استعمال نے بہت مدد دی، اسے بلندیوں پر پہنچایا۔ یہ قول کہ علم ایک سمندر ہے اب صحیح طور پر زیادہ واضح سمجھ میں آتا ہے۔ ہماری زندگی ختم ہو جائے گی لیکن اس چھوٹے سے کمپیوٹر پر دنیا جہاں کا علم ہم پورا نہیں دیکھ پائیں گے، انٹرنیٹ ہمارے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر دن ایک نیا تجربہ ہمارا منتظر رہتا ہے۔ اس کے وسیع خزانے سے آپ دنیا جہاں کی معلومات، کہانیاں، کھیل، شاعری غرض تمام موضوعات پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کو اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، اسی طرح دنیا بھر کے عظیم ادیبوں کی تخلیقات، ان کے حالات زندگی کے تمام پہلوؤں سے آگاہی اب محض ایک کلک پر موجود ہے۔
گوگل ہم سب کے لیے وہ جادو کا چراغ ہے، جسے صرف چھونے کی دیر ہوتی ہے، وہ آقا کی پسند کے مطابق معلومات کمپیوٹر کی جادوئی اسکرین پر حاضر کر دیتا ہے۔ ڈیجٹل لائبریری، ادبی، سائنسی، ثقافتی، تہذیبی و ادبی سائٹس موجود ہیں جہاں اسکولوں و کالجوں کے طالب علموں سے لے کر پی ایچ ڈی کرنے والے سب ہی کتابوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی معلومات سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ چھوٹا سا کمپیوٹر جسے ہم موبائل کہتے ہیں ہمارے ہاتھوں میں تمام دنیا کی خبریں و معلومات لیے ہوئے ہے، گویا آج کا انسان ہر خبر کو اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتا ہے جب چاہا کلک کیا، گردن جھکائی دیکھ لیا۔
یہ درست ہے کہ انسان پہلے خواب دیکھتا ہے، اسے تصور میں لاتا ہے پھر کسی نہ کسی دور میں یہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے آباء کے لیے یہ خواب ہی تو ہو گا کہ ایک ہی جگہ تمام ادباء کا کام مہیا ہو جائے، سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ آپ کی دسترس میں بھی ہو۔ ادب کی نشر و اشاعت میں بڑے زور و شور سے یہ ایک نئی روایت وجود میں آئی ہے اور وسیع پیما نے پر ایسی کوششیں ہو رہی ہیں جس کی تعریف نہ کرنا بخل ہو گا۔ انگریزی سمیت دنیا کی دیگر زبانوں میں انٹرنیٹ پر بہت کام منتقل کیا گیا ہے، اگر ہم اردو زبان کی بات کریں تو اس سلسلے میں اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے انٹرنیٹ پر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
اب انٹرنیٹ پر بے شمار سائٹس موجود ہیں جہاں ہمیں اردو زبان میں بہت نایاب ڈاکومینٹریز، رسائل و کتابیں، خود نوشتیں، لغات، بلاگز، کلاسیکل ناول، افسانوں کے مجموعے، فکشن، تنقید، صحافت، انشائیہ، مشہور شعراء کے پورے پورے دیوان اور انٹرویوز دستیاب ہیں۔ اردو زبان کی بڑی بڑی لائبریریوں کو برقی کتابوں کی شکل میں منتقل کرنے کا کام اعلیٰ پیمانے پر شروع کیا جا چکا ہے کچھ مکمل ہو چکی ہیں تو چند تکمیل کے مراحل میں ہیں اور جلد ہم سب کی دسترس میں ہوں گی۔ یہ وہ قیمتی اثاثہ ہیں جسے کسی زمانے میں محض راجہ مہاراجہ، بادشاہوں اور نوابوں کے ذاتی کتب خانوں تک محدود رکھا گیا تھا۔
خدشہ تھا کہیں یہ نایاب کتابیں زنگ آلود نہ ہو جائیں لیکن آج انٹرنیٹ ویب سائٹس کے مالکان کی خصوصی توجہ و دلچسپی کی وجہ سے ان کی عام قاری تک رسائی ممکن ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ہماری ویب اور راشد اشرف کا کام قابل ستائش ہیں، ہندوستان میں اس وقت ریختہ کی محنت اردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک لاجواب ویب سائٹ ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک صاحب علم و ادب نظریاتی بحث مباحثے بھی اسی کے ذریعے کرتے نظر آتے ہیں جس میں ہم سب بھی شریک ہو کر سیکھ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر و انٹر نیٹ کی آمد سے یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ اخبارات و کتابوں کی اہمیت گھٹ جائے گی، لیکن یہ تاثر غلط ثابت ہوا ۔
آئے دن نئے اخبارات اور کتابیں شایع ہو رہی ہیں بلکہ اس سے مزید ترقی کی راہیں کھلی ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے تمام خدشات دور کر دیے ہیں، صدیوں کی رفتارکو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر میں انٹر نیٹ کے اس ترقی یافتہ دور میں سمعی و بصری ذرایع ابلاغ کا استعمال بھی بھرپور انداز میں ہو رہا ہے۔ پرانے و نئے اسالیب مل رہے ہیں، گویا پہلی بار ایک نیا ادب پیدا ہو رہا ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کسی نئی تحریک کا آغاز ہو۔ امید ہے اسی طرح ہماری ادبی روایت زندہ رہے گی سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوتی رہے گی۔ اس قسم کی شعوری کوششیں ہوتی رہنی چاہییں۔ اب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اس کارآمد ایجاد میں معلومات کا خزانہ پنہاں ہے، بے شک یہ عجوبہ روزگار ہے۔ پرانے پن کے ساتھ اس نئے پن کی موجودہ اہمیت و حیثیت ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اس طرح کام کر نے والوں کو بڑا سہارا ملے گا۔ تمام تخلیقی کام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو سکے گا۔ یقینا سائنس دانوں نے ہمارے جذبہ شوق کو ایک بٹن کے ساتھ جوڑ دیا ہے جب چاہا کلک کیا، گردن جھکائی دیکھ لیا۔
ہر انسان کی خواہش ہو تی ہے کہ جس چیز کو وہ جذبہ دل سے طلب کرے وہ فوراً حاضر ہو جائے، منزل کے لیے دو گام چلے اور سامنے منزل آ جائے۔ انٹرنیٹ کی دنیا اسی خواہش کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں سائنس کی بے شمار ایجادات کے ساتھ انٹرنیٹ کمپیوٹر نے ہماری زندگیوں میں سہولتیں فراہم کی ہیں، وہاں شعر و ادب کی دنیا بھی اس کی احسان مند ہے، اب یہی دیکھیے کہ دنیا کے وہ اخبارات و رسائل جن کے بارے میں دوسروں سے محض تذکرہ ہی سنتے تھے، حسرت رہتی تھی، ہم بھی انھیں پڑھ سکیں اب ہماری دسترس میں ہیں۔
صحافت کو انٹرنیٹ کے استعمال نے بہت مدد دی، اسے بلندیوں پر پہنچایا۔ یہ قول کہ علم ایک سمندر ہے اب صحیح طور پر زیادہ واضح سمجھ میں آتا ہے۔ ہماری زندگی ختم ہو جائے گی لیکن اس چھوٹے سے کمپیوٹر پر دنیا جہاں کا علم ہم پورا نہیں دیکھ پائیں گے، انٹرنیٹ ہمارے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر دن ایک نیا تجربہ ہمارا منتظر رہتا ہے۔ اس کے وسیع خزانے سے آپ دنیا جہاں کی معلومات، کہانیاں، کھیل، شاعری غرض تمام موضوعات پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کو اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، اسی طرح دنیا بھر کے عظیم ادیبوں کی تخلیقات، ان کے حالات زندگی کے تمام پہلوؤں سے آگاہی اب محض ایک کلک پر موجود ہے۔
گوگل ہم سب کے لیے وہ جادو کا چراغ ہے، جسے صرف چھونے کی دیر ہوتی ہے، وہ آقا کی پسند کے مطابق معلومات کمپیوٹر کی جادوئی اسکرین پر حاضر کر دیتا ہے۔ ڈیجٹل لائبریری، ادبی، سائنسی، ثقافتی، تہذیبی و ادبی سائٹس موجود ہیں جہاں اسکولوں و کالجوں کے طالب علموں سے لے کر پی ایچ ڈی کرنے والے سب ہی کتابوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی معلومات سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ چھوٹا سا کمپیوٹر جسے ہم موبائل کہتے ہیں ہمارے ہاتھوں میں تمام دنیا کی خبریں و معلومات لیے ہوئے ہے، گویا آج کا انسان ہر خبر کو اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتا ہے جب چاہا کلک کیا، گردن جھکائی دیکھ لیا۔
یہ درست ہے کہ انسان پہلے خواب دیکھتا ہے، اسے تصور میں لاتا ہے پھر کسی نہ کسی دور میں یہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے آباء کے لیے یہ خواب ہی تو ہو گا کہ ایک ہی جگہ تمام ادباء کا کام مہیا ہو جائے، سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ آپ کی دسترس میں بھی ہو۔ ادب کی نشر و اشاعت میں بڑے زور و شور سے یہ ایک نئی روایت وجود میں آئی ہے اور وسیع پیما نے پر ایسی کوششیں ہو رہی ہیں جس کی تعریف نہ کرنا بخل ہو گا۔ انگریزی سمیت دنیا کی دیگر زبانوں میں انٹرنیٹ پر بہت کام منتقل کیا گیا ہے، اگر ہم اردو زبان کی بات کریں تو اس سلسلے میں اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے انٹرنیٹ پر گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
اب انٹرنیٹ پر بے شمار سائٹس موجود ہیں جہاں ہمیں اردو زبان میں بہت نایاب ڈاکومینٹریز، رسائل و کتابیں، خود نوشتیں، لغات، بلاگز، کلاسیکل ناول، افسانوں کے مجموعے، فکشن، تنقید، صحافت، انشائیہ، مشہور شعراء کے پورے پورے دیوان اور انٹرویوز دستیاب ہیں۔ اردو زبان کی بڑی بڑی لائبریریوں کو برقی کتابوں کی شکل میں منتقل کرنے کا کام اعلیٰ پیمانے پر شروع کیا جا چکا ہے کچھ مکمل ہو چکی ہیں تو چند تکمیل کے مراحل میں ہیں اور جلد ہم سب کی دسترس میں ہوں گی۔ یہ وہ قیمتی اثاثہ ہیں جسے کسی زمانے میں محض راجہ مہاراجہ، بادشاہوں اور نوابوں کے ذاتی کتب خانوں تک محدود رکھا گیا تھا۔
خدشہ تھا کہیں یہ نایاب کتابیں زنگ آلود نہ ہو جائیں لیکن آج انٹرنیٹ ویب سائٹس کے مالکان کی خصوصی توجہ و دلچسپی کی وجہ سے ان کی عام قاری تک رسائی ممکن ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ہماری ویب اور راشد اشرف کا کام قابل ستائش ہیں، ہندوستان میں اس وقت ریختہ کی محنت اردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک لاجواب ویب سائٹ ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک صاحب علم و ادب نظریاتی بحث مباحثے بھی اسی کے ذریعے کرتے نظر آتے ہیں جس میں ہم سب بھی شریک ہو کر سیکھ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر و انٹر نیٹ کی آمد سے یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ اخبارات و کتابوں کی اہمیت گھٹ جائے گی، لیکن یہ تاثر غلط ثابت ہوا ۔
آئے دن نئے اخبارات اور کتابیں شایع ہو رہی ہیں بلکہ اس سے مزید ترقی کی راہیں کھلی ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے تمام خدشات دور کر دیے ہیں، صدیوں کی رفتارکو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر میں انٹر نیٹ کے اس ترقی یافتہ دور میں سمعی و بصری ذرایع ابلاغ کا استعمال بھی بھرپور انداز میں ہو رہا ہے۔ پرانے و نئے اسالیب مل رہے ہیں، گویا پہلی بار ایک نیا ادب پیدا ہو رہا ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کسی نئی تحریک کا آغاز ہو۔ امید ہے اسی طرح ہماری ادبی روایت زندہ رہے گی سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوتی رہے گی۔ اس قسم کی شعوری کوششیں ہوتی رہنی چاہییں۔ اب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اس کارآمد ایجاد میں معلومات کا خزانہ پنہاں ہے، بے شک یہ عجوبہ روزگار ہے۔ پرانے پن کے ساتھ اس نئے پن کی موجودہ اہمیت و حیثیت ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اس طرح کام کر نے والوں کو بڑا سہارا ملے گا۔ تمام تخلیقی کام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو سکے گا۔ یقینا سائنس دانوں نے ہمارے جذبہ شوق کو ایک بٹن کے ساتھ جوڑ دیا ہے جب چاہا کلک کیا، گردن جھکائی دیکھ لیا۔