مائنڈ سیٹ

یہ تربیت ہمیں دینا ہوگی کہ اس کے بغیر ملکی سیاست پر گہرا اثر ڈالنا...


Amir Khakwani July 21, 2012
[email protected]

یہ پچھلے ماہ کی ایک نسبتاً کم گرم صبح تھی، جون میں پنجاب کا ہر شہرشدید گرمی سے دہک رہا ہوتا ہے، مگر اس سال تو حد ہوگئی۔ ایک تو ٹمپریچر مئی ہی سے پینتالیس تک پہنچ گیا، جون میں اس نے سینتالیس ،اڑتالیس سینٹی گریڈ کو چھو لیا۔ اس پر مزید قیامت بدترین لوڈ شیڈنگ نے برپا کر دی،ہر گھنٹے کے بعد بتی جا رہی تھی، شام کو بسا اوقات دو دو تین تین گھنٹے اکٹھی چلی جاتی۔

انھی دنوں شومئی قسمت میرا بہاولپور، احمد پورشرقیہ کا چکر لگا۔ گرمی سے تنگ آ کر ایک روز بچوں کے ساتھ قریبی گائوں میں اپنے ایک عزیز کے آموں کے باغ جانے کا پروگرام بنایا۔ وہاں ان کے باغ کے درمیان سے نہر بہتی ہے۔ ہمارے بچپن کا رومانٹسزم دوبارہ سے جاگ اٹھا۔ آموں کے درختوں کی ٹھنڈی سبز چھائوں، بہتی نہر کنارے بیٹھ کربرف میں لگے آم کھانے، ٹھنڈی لسی کی بالٹی ہمراہ ہو، اس سے پہلے اگر مکھن چپڑی گرم تندوری روٹی کے ساتھ لسوڑے، مرچ اور آم کا اچار بھی ساتھ ہوتو کیا کہنے ایسی دعوت کے...۔

عقلمندی ہم نے یہ کی کہ صبح سویرے تاروں کی چھائوں میں روانہ ہوئے اور رکتے رکتے چھ سات بجے تک منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ وہاں بچوں نے تو خیر انجوائے کرنا ہی تھا، نہر میںنہانا ان کے لیے ایک اچھوتا تجربہ تھا، بکری کے ننھے بچوں کو گود میں اٹھا کر تصویریں کھنچوانا، گائے بھینس کا تازہ دودھ دوہنا، اس نیم گرم کچے دودھ کو پینا وغیرہ ۔

سادہ سا ڈیرہ تھا، جس کے باہر ایک عظیم الجثہ ٹاہلی کا درخت تھا۔ وہاں چارپائیاں بچھی تھیں۔ ہم بیٹھ گئے۔ آس پاس کے دوچارکسان بھی آ گئے۔ باتیں ہونے لگیں۔ مقامی لوگوں نے اپنی دلچسپی کی گفتگو شروع کردی۔ شدید گرمی کا ذکر ہوا۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف تند وتیز تبصرے کیے گئے۔ مہنگائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے حکمران جماعت کے لتے لیے گئے۔ ڈیزل مہنگا ہونے پر کسان ویسے ہی شاکی ہیں، انھیں گلہ تھا کہ اب دیہات میں بھی رہنا دوبھر ہوگیا ہے۔

اچانک میں نے گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے مقامی ایم این اے کے بارے میں پوچھا کہ ان کی پوزیشن کیسی ہے؟اس ایم این اے کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ، مجھے توقع تھی کہ جس طرح یہ لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت سے برگشتہ ہیں، اس پارٹی کے رکن اسمبلی پر تو مزید تنقید کریں گے۔مجھے شدید حیرت ہوئی کہ جب ان مقامی لوگوں نے یک زبان اس رکن اسمبلی کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ موصوف فعال اور متحرک سیاستدان ہیں، لوگوں کے کام کرتے ہیں، رابطہ کرنے پر دستیاب ہوتے ہیں، فراخدلی سے تھانے کچہری کے معاملات میں فون کر دیتے ہیں... وغیرہ وغیرہ۔

حیرت سے میں یہ رام کہانی سنتا رہا، پھر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ ان صاحب کو جتوائو گے تو پھر سے ان کی پارٹی ہی اقتدار میں آئے گی، جس سے آپ کو بہت زیادہ شکوے ہیں۔ لوگوں نے میری بات سنی ضرور،پھر ایسی نظروں سے دیکھاجن سے کسی طفل کو تکا جاتا ہے، مسکرا کر ایک صاحب بولے، پارٹی کو ہم نے کیا کرنا ہے، یہ بندہ اچھا ہے ، اس لیے اسے ووٹ دیں گے۔ میں نے اپنے میزبان اور بزرگ افضل مسعود ایڈووکیٹ صاحب کی جانب دیکھا۔

افضل صاحب پرانے سیاستدان ہیں، بھٹو صاحب کے اسیر ہوئے ، پیپلز پارٹی میں برسوں گزارے، پھر سرائیکی قوم پرست تحریک نے انھیں اپنی طرف کھینچ لیا، پاکستان سرائیکی پارٹی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بنی رہی۔جن چند لوگوں کا خون اور پسینہ سرائیکی قوم پر ست سیاست کی بنیادوں میں شامل ہے،ان میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ میں نے انھیں معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ وہ مسکرا کر بولے،'' یہ وہ عملی سیاست ہے ، جس کا شہری تجزیہ نگاروں کو اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔

انھیں اندازہ ہی نہیں کہ دیہات کی سیاست کس قدر مختلف ہے اور لوگ کس زاویے سے سیاست اور سیاستدانوں کو دیکھتے ہیں۔ ''

میں نے صحافت کے دوران یہ محسوس کیا کہ شہروں سے تعلق رکھنے والے ہمارے صحافی دوستوں کو دیہات کی زندگی ،وہاں کے باسیوں کی سوچ کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ لاہور کے مکین صحافیوں کو تو پھر بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ان سے اکثرکا پنڈ سے تعلق ہے۔ البتہ کراچی کے صحافی دوستوں کے لیے پنجاب کی دیہاتی سیاست اور طرز فکر کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس سے بھی برا حال انگریزی پریس کے صحافیوں خصوصاً تجزیہ کاروں کا ہے۔ ہمارے بیشتر انگریزی لکھنے والے عام آدمی، اس کی زندگی اور اس کے سوچنے کے انداز سے قطعی بے بہرہ ہوتے ہیں۔

ان کا تمام تر مشاہدہ سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اتفاق سے بدقسمتی سے ان بزعم خود انگریزی بولنے، لکھنے اور سوچنے والے صاحبان میں کچھ خواتین وحضرات اردو ٹی وی چینلز کے اینکر بن بیٹھے۔یہ ان کی مجبوری تھی کہ ملک میں کوئی انگریزی چینل اس وقت ہے ہی نہیں، ورنہ یہ وہ لوگ تھے جو اردو بولنا اور لکھنا اپنی تحقیر سمجھتے تھے۔ بعض اردو ٹاک شوز میں اسی وجہ سے اکثر اوقات زمینی حقائق سے یکسر غیر متعلق تجزیے بیان کیے جاتے ہیں۔

احمد پورشرقیہ کے ایک گائوں میں ہونے والے تجربے کی طرح کا واقعہ میرے ساتھ پچھلے سال لودھراں سے پیپلز پارٹی کے سابق رکن اسمبلی حیات اللہ ترین کے حلقہ انتخاب میں بھی ہوا۔ ایک عزیز کے انتقال پر وہاں جانا پڑا، میرا طریقہ ہے کہ کسی بھی دیہات یا قصبے میں جانا ہوتومقامی ہوٹل یا چائے خانے میں ضرور جاتا ہوں۔ عام آدمی کی سوچ وہاں ہی سے پتہ چلتی ہے۔ حیات اللہ ترین کی ڈگری جعلی نکلی، دوبارہ الیکشن ہوا، جس میں وہ ہار گئے تھے۔انھی دنوں میرا وہاں چکر لگا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی ہار میں جعلی ڈگری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

چند مقامی شخصیات کی ناراضی، مخالف خاندان کا آپس کے اختلافات دور کرنا اور ایک آدھ دوسرا فیکٹر اس شکست کی وجہ تھا۔ کم وبیش اسی طرح کے خیالات مظفر گڑھ میں جمشید دستی کے حلقے سے سامنے آئے ۔ جمشید دستی اور وہاڑی کے نذیر جٹ کو ڈگری جعلی ہونے پر نااہل کر دیا گیا، جمشید دستی کو دوبارہ لڑنے کی اجازت مل گئی، نزیر جٹ نے اپنے قریبی عزیز کو کھڑا کیا۔ دونوں جیت گئے ، جس پر صدر زرداری نے فخریہ تقریر میں کہا،'' ہمارے جٹ اور دستی جیت گئے ہیں،

یہ عوام کے ہمارے اوپر اعتماد کی علامت ہے۔'' حقیقت یہ تھی کہ ان دونوں انتخابات کے چند ہی ہفتوں بعد لودھراں میں جعلی ڈگری والے حیات اللہ ترین پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اپنی سیٹ ہار گئے، پھر نوشہرہ ورکاں سے ن لیگ کے مدثر قیوم ناہرا جعلی ڈگری کے باعث نااہل ہوئے ،اپنے بھائی کوالیکشن لڑایا ،مگر ہار گئے۔ ان چاروں انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اگر جعلی ڈگری والے دو ایم این اے جیتے تو فوراً ہی بعد دو جعلی ڈگری والے ایم این اے سیٹ ہار بھی گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں ہارنے والوں کی کسی نے بات نہیں کی۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نہ جعلی ڈگری والوں کے جیتنے میں ڈگری کا ایشو مقامی سطح پر زیر بحث آیا نہ ہی ہارنے والوں کو اس جعلسازی کا نقصان ہوا۔ درحقیقت یہ وہاں کی مقامی سیاست میں ایشو تھا ہی نہیں۔ وہاں لوگوں نے یہ دیکھا کہ کون سا شخص ان کے ساتھ رابطے میں رہا، ان کے ذاتی کام وغیرہ کیے یا مقامی سطح پر جوڑ توڑ اور گروپنگ فیصلہ کن ثابت ہوئی۔مثلاًاگر لودھراں کا کانجو خاندان متحد نہ ہوتا تو حیات اللہ ترین آسانی سے جیت جاتے۔

مجھے اندازہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی اور شوکت بوسن کے انتخاب پر بھی جانے کیا کیا تجزیے تراشے جائیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس الیکشن میں بھی مقامی فیکٹرز ہی اہم ہوئے۔ جو لوگ وہاں کی سیاست کو جانتے ہیں ان کے خیال میں شوکت جیسے نوآموز کا اتنے ووٹ لے جانا ایک طرح کی جیت ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نیشنل پالیٹکس کی اپنی نہج ہے اور مقامی سطح پر ہر حلقے کی الگ الگ سیاست ہے۔

بدقسمتی سے کوئی بھی نیشنل ایشو پورے ملک کے حلقوں پر نظر انداز نہیں ہو سکتا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سندھ سے ق لیگ اور فنکشنل لیگ کو درجن بھر نشستیں نہ ملتیں۔ یہ لوگ سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے شدید ہمدردی اور سوگ کی لہر کے باوجود اپنی شخصی اور خاندانی اثرورسوخ کے باعث کامیاب ہوئے۔ ہمارے دیہاتی ووٹر کو ابھی یہ تربیت ہی نہیں ملی کہ اپنی ذاتی مفاد سے اٹھ کر ملکی اور قومی مفاد اور بڑے تناظر میں کس طرح سوچنا اور ووٹ دینا ہے۔یہ تربیت ہمیں دینا ہوگی کہ اس کے بغیر ملکی سیاست پر گہرا اثر ڈالنا ممکن نہیں۔ سوال مگر یہ کہ ایسا کرے گا کون...؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں