جمہوریت کا دم آخر

ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہوا کہ کراچی میں ضمنی انتخابات ہوئے مگر ان انتخابات نے کچھ زیر لب پیغامات دیے


Anis Baqar April 14, 2016
[email protected]

KOLKATA: ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہوا کہ کراچی میں ضمنی انتخابات ہوئے مگر ان انتخابات نے کچھ زیر لب پیغامات دیے جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ ویسے تو بانی پاکستان محمد علی جناح نے بارہا جن پیغامات کو دیا وہ کسی سے چھپے نہیں کہ پاکستان جمہوری، فلاحی ریاست ہو گا، جہاں ہر شخص کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی ہو گی، استحصال سے پاک معاشرہ، ہر انسان کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے، مگر 70 برس ہونے کو آ رہے ہیں اور اب تک ملک کا سیاسی رخ متعین نہ ہو سکا۔ ہر شخص اپنے من کی تشریح کرنے میں مصروف ہے۔

1970ء میں یحییٰ خان کا دور آیا اور پاکستان کی تاریخ کا بہترین انتخاب ہوا، ایک آدمی ایک ووٹ۔ اس میں بھی مشرقی پاکستان والوں کو ان کا جائز حق نہ ملا اور ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بھی انھیں مجبور کیا جاتا رہا کہ 5 برابر ہے 7، جب کہ پولنگ کی شرح 70 فیصد تھی۔ دنیا بدل چکی تھی۔

مغربی پاکستان کی اکثر پارٹیوں نے عوام کا فیصلہ نہ مانا، حالانکہ ووٹنگ کی شرح 70 فیصد تھی۔ پاکستان کی ڈیموگرافی ہی بدل ڈالی، مشرقی پاکستان تو ایک الگ ملک بن گیا جب کہ سندھ میں ایک نئی آواز سنائی دی کہ بہارین نہ کھپن۔ مشرقی پاکستان کی تبدیلی کے اثرات نے نئے پہلو نمایاں کیے اور یہاں سے شہری اور دیہی کشمکش کا آغاز ہوتا ہے مگر ایم کیو ایم کی شہری حکومت نے اس پہلو کو نرمی سے گزرنے دیا، بالآخر شہری لوگوں کو بھی کسی حد تک ملازمتوں میں حصہ ملنے لگا۔ آصف زرداری کی حکومت کے اردو اسپیکنگ کو ملازمتوں میں حصہ دینے کی وجہ سے دیہی اور شہری تضاد میں اضافہ نہ ہوا مگر یہ پہلو نرم گرم ہوتا رہا۔

گو کہ شہری علاقوں میں بنگلہ دیش کے اتنے شہری بہاری آباد نہ ہوئے جتنے کی توقع تھی مگر پھر بھی یہ وہ شہری تھے جنھیں دشواریاں اٹھانے کی عادت تھی اور دشوار گزار منزلیں طے کرنے کے عادی تھے تو انھوں نے کراچی کے حالات میں سخت روی اور حقوق کے حصول کے لیے کشمکش چلتی رہی، یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب پٹھان مہاجر کشیدگی میں اضافہ ہوا۔70ء کی دہائی کے وسط میں صوبہ سندھ کئی اقسام کی کشمکش سے گزرا، بنگالی، نان بنگالی، سندھی مہاجر اندرونی کشمکش، مگر دونوں جانب کی ادبی سنگتوں نے رواداری کا کام کیا، اس وقت تک ترقی پسندوں کا سندھ میں خاصا اثر تھا، خصوصاً دونوں حلقوں یعنی سندھی مہاجر میں، جس میں آج کل ترقی ہوتی جا رہی ہے۔

آرٹس کونسل کراچی میں سندھی ادبی جلسے اور بعض حلقوں میں سندھی اردو مشترکہ محفلیں ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہیں، کم از کم اب آپس میں ملاپ کی کیفیت ایسی بہتر ہو چکی ہے کہ اب ان دونوں کے درمیان کوئی بڑی رکاوٹ پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔ گو کہ ووٹ بینک ایک مسئلہ ہے جو آپس میں جدائی کا سبب ہے، مگر اس میں رواداری اس قدر آگے آ چکی ہے کہ درمیان میں کوئی بڑا مناقشہ پیدا کرنا آسان نہیں رہا، جس قدر دوری ہونی تھی ہو چکی، اب مزید کے امکانات نہیں، کیونکہ ایک واضح طبقہ نے آپس میں شادی بیاہ کی رسم سے خود کو باندھ لیا ہے۔

ایک اور اہم بات ہے کہ اہل قلم نے سندھی ادبی اور اردو ادبی فورم کو قریب تر لانے میں اہم کردار انجام دیا ہے۔ گو کہ قلم کار وڈیرہ شاہی کے کلچر کو ختم نہیں کر سکے، مگر اس کلچر کو معاشرے کا ناسور ضرور قرار دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس طرح درمیانہ طبقہ آپس میں میل ملاپ بڑھاتا جا رہا ہے مگر انقلابی شعور ہنوز دور ہے۔ سندھی اردو کلچر قریب تر تو آ گیا مگر دونوں کے درمیان ہلکی سی دوری ابھی بھی موجود ہے جس کا فائدہ رجعت پسند لیڈران اب بھی اٹھاتے جا رہے ہیں، کبھی یہ آواز آتی ہے کہ سندھ کا وزیراعلیٰ سندھی بولنے والا ہی آئے گا تو کہیں سے آواز آتی ہے کہ سندھ کا آیندہ کا وزیراعلیٰ اردو بولنے والا ہو گا۔

یہ تضاد ابھی بھی ختم نہ ہوا، وہ دن لگتا ہے قریب تر ہے کہ ایسی قوتیں برسر اقتدار آنے والی ہیں کہ سندھ کا آیندہ وزیراعلیٰ متوسط غریب طبقات اور روشن خیال ہو گا، تا کہ اصل موضوع کی طرف نظر ہو۔ عوام کو آپس میں تصادم کی جانب لے جانے والی قوتیں کمزور تو ہوئی ہیں مگر اس تصادم کو ختم کرنے میں فوج کا بڑا دخل ہے، حالانکہ یہ کام لیڈروں کا تھا۔ کراچی کی قدیم بستی لیاری کے مکینوں کا کیا حال ہوا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ غریب مساکین کو دربدر اور مکانوں سے بے دخل کرنے میں کن کا ہاتھ تھا؟ وہ جو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر آئے تھے مگر وہ دن ابھی دور ہیں جب ایک جلوس چاکیواڑہ لیاری سے چلے اور اردو چوک لیاقت آباد آئے اور دوسرا عوامی جلوس لیاقت آباد سے چلے گا اور چیل چوک پر اس کے گلے میں ہار پڑیں گے۔

کاش! ابھی تک دلوں کی گرد مکمل طور پر صاف نہ ہوئی۔ یہ کام میڈیا کا تھا اور لیڈروں کا، مگر میڈیا کو چٹ پٹے پروگراموں سے فرصت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہوتے جا رہے ہیں مگر ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 15 سے 10 فیصد کم ہو رہی ہے، حالانکہ ہونا تو اس کے برعکس چاہیے تھا کہ اب الیکٹرانک میڈیا ہے مگر عوام کو یقین آ چکا ہے کہ الیکشن سے کوئی تبدیلی رونما نہ ہو گی، یہ سوچ معاشرے میں ہیجان برپا کرنے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اللہ اللہ کر کے ایک خلفشار سے جان چھوٹتی ہے اور دوسرا خلفشار تیار کھڑا ہے، ابھی آپ کے سامنے کی بات ہے کہ کراچی کے ضمنی انتخابات کا کیا حشر ہوا، نہ شور شرابہ، نہ ووٹوں کا انبار، یہ وہ حلقے ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں ووٹ پڑا کرتے تھے، مگر اب دیکھیے کہ 7 تا 10 فیصد ووٹ پڑے اور اس پر جشن کا منظر۔

آپ اگر غور کریں انتخابات کی گرتی ہوئی شرح کیا کہہ رہی ہے؟ یہ زبردست سوالیہ نشان ہے ویسے تو ضمنی انتخابات میں عام طور پر اتنی گہما گہمی نہیں ہوتی مگر اتنی کہ لوگوں کو آواز دے کر بلایا جائے اور 7 فیصد ووٹ آئیں، یہ خاموش لوگ جو 90 فیصد سے زیادہ ہیں کیا کہہ رہے ہیں، اہم سوالیہ نشان ہے لوگ کہہ رہے ہیں:

٭کچھ نیا نہ ہو گا کتنے ہی انتخابات کیوں نہ ہو جائیں۔

٭بلدیاتی انتخابات کا کیا ہوا؟ جو اس کا کچھ ہو جائے گا۔٭کیا پارلیمانی طرز انتخاب پاکستان کے لیے ناموزوں ہے؟70 سال میں اس نے کیا دیا ماسوائے لاقانونیت اور لیڈروں کا پیٹ بھرا۔

٭طرز حکومت بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ پارلیمنٹ ناکارہ لوگوں کی تنخواہ کا ادارہ ہے۔ فوجی حکومتوں نے تقریباً نصف حکومت کی اور نصف جمہوری دونوں طرز حکومت ملک کو اب تک دلدل سے نہ نکال سکے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے اور مزید کی توقع ہے فرضی ترقی کی داستان عوام سنتے جا رہے ہیں آیندہ انتخابات میں شرح انتخاب اور کم ہو گا لہٰذا جمہوریت بچانے کے لیے مہارتی طرز حکومت کی طرف رخ کی ضرورت ہے اگر کچھ تبدیلی آئے تو ممکن ہے کہ لوگوں میں دلچسپی پیدا ہو ورنہ یہ جمہوریت کا دم آخر ہو۔

مگر جب کبھی آئین کی بات ہوتی ہے تو حاکموں کو جھرجھری سی آتی ہے حال کی بات ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین فرماتے ہیں کہ آئین کو کچھ ہوا تو ہمالیہ روئے گا افسوس جب مشرقی بازو کٹ گیا، خون بہا تو ہمالیہ نہ رویا، عوام کو پینے کا پانی نہ ملے تو ہمالیہ نہ روئے، 70 فیصد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں تو ہمالیہ نہ رویا، تھر میں بچوں کا بستر مرگ لگا ہے مگر ہمالیہ کا آنسو نہ نکلا بس حکمرانوں کی خیر ہو ان کو کچھ نہ کہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |