انجمن ترقی پسند مصنفین کا یوم تاسیس

یہ زمانہ تھا 1935 کا جب دنیا بھر کے جدید فکر کے حامل ادبا انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھتے ہیں



ISLAMABAD: یہ زمانہ تھا 1935 کا جب دنیا بھر کے جدید فکر کے حامل ادبا انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھتے ہیں، یہ ادبا اپنے اپنے ممالک کی نمایندگی کر رہے تھے، یہ ادبا کن کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس کنونشن میں شریک ہوئے تھے اور اپنے اپنے ممالک میں ان ادبا کے ساتھ واپسی پر کیا برتاؤ ہوا یہ ایک الگ داستان ہے، بہرکیف یہ ادبا اس امر پر نازاں تھے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے اور وہ مقصد تھا دنیا بھر کے ادبا کو ایک سامراج مخالف مگر غیر سیاسی محاذ پر کھڑا کرنا۔ یہ ضرور ہے کہ ادب کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاسکتا مگر اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ ادیب سیاست کی بالادستی قبول نہیں کرسکتا اور اگر ادیب سیاسی بالادستی قبول کرتا ہے تو پھر وہ ادیب نہیں البتہ منشی ہے جوکہ ساگر کو چھوڑ کر خود کو ایک کوزے میں مقید کر رہا ہے۔

تو ہم ذکر کررہے تھے پریس کانفرنس کا جس میں ہندوستان کی نمایندگی کر رہے تھے نامور ترقی پسند ادیب محترم سید سجاد ظہیر جب کہ ان کے ہم رکاب تھے ملک راج آنند۔ اس پریس کانفرنس کا عنوان تھا ثقافت کا دفاع۔ چنانچہ جب کانفرنس کے اختتام پر اس کا اعلامیہ جاری ہوا تو سید سجاد ظہیر اس اعلامیہ سے بے حد متاثر ہوئے اور اس عزم کے ساتھ واپس ہندوستان آئے کہ ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام ضرور عمل میں لائیں گے۔ چنانچہ سید سجاد ظہیر واپس ہندوستان آکر انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشور کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔

اس سلسلے میں ان کا بھرپور ساتھ دینے والوں میں شریک تھے ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، ڈاکٹر ملک راج آنند، ڈاکٹر ایس سنہا و ایس کے بھٹ۔ منشور کی تیاری کے بعد دسمبر 1935 میں اس منشور پر مولوی عبدالحق، جوش ملیح آبادی، منشی پریم دیا نرائن نگم، فراق گورکھپوری، احتشام حسین، وقار عظیم، اعجاز حسین و دیگر نے دستخط کردیے تو قبل اس کے کہ وہ پنجاب کا دورہ کرتے یعنی سید سجاد ظہیر، انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کل ہند کی الٰہ آباد میں بنیاد رکھ دی اور بعدازاں پنجاب کا دورہ کیا۔ پنجاب میں انجمن کے منشور پر دستخط کرنے والے تھے فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، فیروز الدین منصور، محمود الظفر، میاں افتخار الدین اور رشید جہاں۔ ان تمام امور سے فراغت پانے کے بعد سید سجاد ظہیر کے سامنے اگلا مرحلہ تھا انجمن ترقی پسند مصنفین کا انعقاد جس کے لیے مقام جو منتخب کیا وہ تھا لکھنو کا اور تاریخ تھی 10 اپریل 1936۔

یہ تاریخ مقرر کرنے کے پس پردہ مقاصد یہ تھے کہ ان ہی دنوں میں آل انڈیا کانگریس کا اجلاس لکھنو میں ہو رہا تھا، چنانچہ انجمن ترقی پسند مصنفین کل ہند کانفرنس میں شرکت کرنے والے مندوبین کے لیے قیام و طعام کا بندوبست آل انڈیا کانگریس میں شرکت کرنے والوں کے ساتھ ارزاں نرخوں پر ممکن ہوسکتا تھا جب کہ دیگر مندوبین جوکہ ہندوستان بھر سے تشریف لا رہے تھے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں قیام پذیر ہوسکتے تھے، کیونکہ سید سجاد ظہیر ان مندوبین کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کرنے سے قاصر تھے، جب کہ دوسرا مرحلہ تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کی صدارت کون کرے گا؟

اس سلسلے میں جو نام سامنے آئے وہ تھے جواہر لال نہرو، مسٹر کنہیا لال، سید ذاکر حسین و منشی پریم چند۔ ان ناموں میں مسٹر کنہیا لال متنازعہ شخصیت بن چکے تھے۔ منشی پریم چند کے پاس لاہور کے ہندی سمیلن و حیدر آباد دکن کے ہندی پرچار سبھا کے دعوت نامے آچکے تھے۔ چنانچہ ان دعوت ناموں کو جواز بناکر وہ لکھنو ادبی کانفرنس سے شرکت سے اپنی معذوری ظاہر کررہے تھے جب کہ سید ذاکر حسین و جواہر لال نہرو دونوں حضرات مکمل سیاسی لوگ تھے جب کہ منشی پریم چند و سید سجاد ظہیر اس امر پر اتفاق کر چکے تھے کہ ادبی کانفرنس کی صدارت کے لیے کسی ادیب ہی کا ہونا مناسب تھا، چنانچہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس اپنے وقت مقررہ پر منشی پریم چند کی زیر صدارت منعقد ہوئی اور امیدوں سے بڑھ کر کامیاب رہی کیونکہ پورے ہندوستان سے ترقی پسند ادیب حضرات اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔

یوں 10 اپریل 1936 کو ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا سفر شروع ہوا، البتہ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ نتیجہ یہ کہ ادبا کثیر تعداد میں موجودہ خطے سے ہجرت کرگئے اور یہاں یعنی پاکستان میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے فروری 1948 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا اجلاس کلکتہ میں منعقد ہوا، جس میں فیصلہ ہوا کہ سید سجاد ظہیر پاکستان جائیں گے اور وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت و ترقی پسند ادبا کی رہنمائی کریں گے۔ چنانچہ سید سجاد ظہیر 1948 میں پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سنبھال لی، جب کہ اپنی آمد کے ایک برس بعد وہ یہاں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ ذکر ہے 1949 کا۔ یوں پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا سفر پاکستان میں بھی شروع ہوگیا مگر یہ ادبی سفر فقط 5 برس تک ہی محدود رہا۔ 26 جولائی 1954 کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی اور ساتھ ہی انجمن ترقی پسند مصنفین بھی پابندی کا شکار ہوگئی جب کہ سید سجاد ظہیر پاکستان سے جلاوطن ہونے کے بعد ہندوستان جاکر سکونت پذیر ہوگئے۔

اگرچہ انجمن ترقی پسند مصنفین پابندی کا شکار ہوچکی تھی مگر یہ پابندی ترقی پسند فکر پر عائد نہ کی جاسکی۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پابندی کے 32 برس یعنی 1986 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو اس برس منعقد کردہ تقریبات قابل دیدنی تھیں، مگر اس کے باوجود انجمن کا قیام عمل میں نہ آسکا، البتہ 2007 میں انجمن کا دوبارہ احیا ملتان کانفرنس میں ممکن ہوسکا۔ اس کانفرنس میں سوبھوگیان چندانی صدر و حمید اختر سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب تین برس کے لیے تھا مگر 2010 میں انجمن کا کنونشن منعقد نہ ہوسکا۔

2011 کو فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں، جن کے باعث اس برس بھی انجمن کا کنونشن منعقد نہ ہوسکا۔ البتہ 2012 میں ملتان کنونشن میں ممتاز نقاد محمد علی صدیقی صدر و سلیم راز سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ سیکریٹری جنرل کے لیے اگرچہ راحت سعید نے بھی اپنا نام پیش کیا تھا مگر محمد علی صدیقی کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا اور دو مرکزی عہدے ایک صوبے کے لوگوں کے پاس ہونا نامناسب تھا، اس لیے راحت سعید نے اپنا نام واپس لے لیا۔ یوں انجمن کے عہدے دار ایک برس کے لیے منتخب ہوگئے تھے، مگر محمد علی صدیقی کی 8 جنوری 2013 کو رحلت ہوگئی اور انجمن کے مسلم شمیم صدارت پر فائز ہوگئے۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کے 80 ویں یوم تاسیس پر ہم تمام ترقی پسند فکر کے حامل ادبا کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور تمام ترقی پسند ادبا کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے ترقی پسند فکر کے قافلے میں شریک ہوکر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں