لندن کا شفا خانہ
قانون پر من وعن عملدرآمد ہو تو کسی بھی اسکینڈل پر سیاستدانوں کو لندن میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
آخر لندن شہر میں ایسی کیا خوبی ہے کہ پاکستان میں جب بھی سیاسی بھونچال آتا ہے تو لندن شہر سیاستدانوں کی بیٹھک بن جاتا ہے، گزشتہ حکومت میں میمو گیٹ کے معاملے پر لندن توجہ کا مرکز بنا پھر اس کے بعد جب آصف زرداری کچھ عرصہ کے لئے ارادی طور پر بیمار ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست کی ڈوریں لندن سے ہلائی جاتی رہیں۔ اگر دور مشرف پر نظر دوڑائی جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی لندن میں ہی بیٹھ کر ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کو بی بی شہید سے ملنے کے لئے لندن جانا پڑا۔ شاید لندن میں ایسا کوئی مقناطیس ہے جو مشکل کی کسی بھی گھڑی میں سیاستدان کو کھینچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
پاناما لیکس کے بعد ایک مرتبہ پھر لندن سیاست کا مرکز بن گیا اور میڈیا کی تمام تر توجہ لندن میں ہونے والی سرگرمیوں پر لگ گئی ہیں، لیکن اب تک یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ آف شور کمپنیوں کا ہنگامہ برپا ہونے کے بعد وزیراعظم علاج کی غرض سے لندن پہنچ گئے۔ چوہدری نثار بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ بذریعہ لندن جرمنی کے لئے اڑان بھر گئے، شہباز شریف کے اہلخانہ بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر لندن پہنچے ہیں۔ عمران خان بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ لندن پہنچ گئے جن کی روانگی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چندہ جمع کرنے لندن گئے۔ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری تو پہلے ہی لندن میں موجود ہیں اور ملک کی چوتھی بڑی جماعت ایم کیو ایم کے قائد تو رہتے ہی لندن میں ہیں۔
اگر جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بات کی جائے تو وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ انہیں قابل قبول ہوگا۔ اس طرح ملک کی 4 بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان لندن میں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کی کسی دوسرے سربراہ سے ملاقات ہوگی؟
وزیراعظم نواز شریف کے علاج کے لئے پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال یا ڈاکٹر نہیں جو ان کا چیک اپ کرسکے، عارضہ کے اعتبار سے وزیراعظم کو پرانا کوئی درد ہے جس کے علاج کے لئے وزیراعظم لندن میں موجود ہیں اور شاید چوہدری نثار کی اہلیہ کے لئے بھی پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال نہیں بن سکا جو ان کے علاج کا متحمل ہوسکے۔ آصف زرداری بھی انہیں سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا اور وہ گزشتہ کئی ماہ سے اپنی مرضی سے علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ آصف زرداری کو نہ جانے ایسا کون سا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے لندن میں قیام ان کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے اور وہیں سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں انہیں تشفی حاصل ہوتی ہے۔
پاناما لیکس پر برپا ہونے والے شور شرابے کے بعد معیشت، ملک میں جاری ترقیاتی کام، اسٹاک ایکسچینج کو بھی جھٹکا لگا ہے اور شہریوں میں بھی حکومت کے حوالے سے گومگوں کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ کیا ہمارا قانون اتنا کمزور ہے کہ کسی ایک اسکینڈل، ایک خبر یا ایک شخص کے غلط فعل سے پوری ریاست ہل کر رہ جائے؟ اگر ملکی ادارے مضبوط ہوں اور قانون پر من وعن عملدرآمد ہو تو کسی بھی اسکینڈل پر سیاستدانوں کو لندن میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ کسی سیاستدان کو علاج کے لئے لندن کا رخ کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاناما لیکس کے بعد ایک مرتبہ پھر لندن سیاست کا مرکز بن گیا اور میڈیا کی تمام تر توجہ لندن میں ہونے والی سرگرمیوں پر لگ گئی ہیں، لیکن اب تک یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ آف شور کمپنیوں کا ہنگامہ برپا ہونے کے بعد وزیراعظم علاج کی غرض سے لندن پہنچ گئے۔ چوہدری نثار بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ بذریعہ لندن جرمنی کے لئے اڑان بھر گئے، شہباز شریف کے اہلخانہ بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر لندن پہنچے ہیں۔ عمران خان بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ لندن پہنچ گئے جن کی روانگی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چندہ جمع کرنے لندن گئے۔ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری تو پہلے ہی لندن میں موجود ہیں اور ملک کی چوتھی بڑی جماعت ایم کیو ایم کے قائد تو رہتے ہی لندن میں ہیں۔
اگر جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بات کی جائے تو وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ انہیں قابل قبول ہوگا۔ اس طرح ملک کی 4 بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان لندن میں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کی کسی دوسرے سربراہ سے ملاقات ہوگی؟
وزیراعظم نواز شریف کے علاج کے لئے پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال یا ڈاکٹر نہیں جو ان کا چیک اپ کرسکے، عارضہ کے اعتبار سے وزیراعظم کو پرانا کوئی درد ہے جس کے علاج کے لئے وزیراعظم لندن میں موجود ہیں اور شاید چوہدری نثار کی اہلیہ کے لئے بھی پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال نہیں بن سکا جو ان کے علاج کا متحمل ہوسکے۔ آصف زرداری بھی انہیں سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا اور وہ گزشتہ کئی ماہ سے اپنی مرضی سے علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ آصف زرداری کو نہ جانے ایسا کون سا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے لندن میں قیام ان کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے اور وہیں سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں انہیں تشفی حاصل ہوتی ہے۔
پاناما لیکس پر برپا ہونے والے شور شرابے کے بعد معیشت، ملک میں جاری ترقیاتی کام، اسٹاک ایکسچینج کو بھی جھٹکا لگا ہے اور شہریوں میں بھی حکومت کے حوالے سے گومگوں کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ کیا ہمارا قانون اتنا کمزور ہے کہ کسی ایک اسکینڈل، ایک خبر یا ایک شخص کے غلط فعل سے پوری ریاست ہل کر رہ جائے؟ اگر ملکی ادارے مضبوط ہوں اور قانون پر من وعن عملدرآمد ہو تو کسی بھی اسکینڈل پر سیاستدانوں کو لندن میں جمع ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ کسی سیاستدان کو علاج کے لئے لندن کا رخ کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔