کارپوریٹ گورننس
بات صرف گڈ گورننس کی ہی نہیں، کارپوریٹ گورننس کی بھی ہے
KARACHI:
بات صرف گڈ گورننس کی ہی نہیں، کارپوریٹ گورننس کی بھی ہے۔ کس طرح کمپنیوں کے نام پر فراڈ ہوتے ہیں، کس طرح کمپنی جس کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، روح نہیں ہوتی، وہ خود ایک قانونی فرد کی حیثیت بنالیتی ہے۔ جس کو انگریزی میں Legal Person کہا جاتا ہے اور وہ خود اپنے نام پر خرید و فروخت کرسکتی ہے بینک میں اکاؤنٹ رکھ سکتی ہے۔
مگر کمپنی اگر گناہ کرے یا یوں کہیے کہ جرم کرے تو اسے وہ سزا نہیں ہوسکتی جو انسان کو ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ جیل میں نہیں ڈالی جاسکتی نہ اس کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔ اسے بس صرف مالی سزا مل سکتی ہے کوئی جرمانہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ جو vicarious liability کا اصول ہے کہ اگر کمپنی کا ڈرائیور ایکسیڈنٹ کرے تو ذمے داری کمپنی کی ہوگی یا پھر یوں کہ اگر کوئی جرم کسی کونے سے کمپنی کے ہوا ہے تو وہاں Doctrine of Alter Ego صادر کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اس روح تک پہنچا جاتا ہے جس نے اپنی ذہنی سوچ سے کمپنی کے نام پر جرم کو تخلیق کیا ہوتا ہے۔
دوسری طرف کمپنی کوئی بری چیز نہیں، جب صنعتی انقلاب آیا تو یوں کہیے Economy of Scale آئی، یا یوں سمجھیے کہ یہ Division of Labour کا دوسرا نام تھا جسے آدم اسمتھ نے اٹھارویں صدی میں اپنی کتاب Wealth of Nation میں بڑی خوبصورتی سے لکھا ہے۔ جسے Laissez Faire یا یوں کہے کہ سب کچھ مارکیٹ پر چھوڑ دو کہ وہ کس طرح فیصلے کرتی ہے۔
اتنی ساری پیداوار ایک فرد کے نام پر یا پراپرٹیز کے نام پر نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے بات پرائیویٹ کمپنی سے بڑھ کر پبلک لمیٹڈ کمپنی تک آئی۔ اتنا سارا سرمایہ جو اکٹھا کرنا تھا بینکوں سے لین دین جو کرنی تھی۔ یہ تھا وہ صنعتی انقلاب یا انفرااسٹرکچر کا انقلاب یا پھر بہ الفاظ دیگر کمپنی کا انقلاب۔
مگر کمپنی کی بنیاد کلیسا کے دور سے ہے جب چرچ کے نام پر فارم ہوتے تھے جس کو نان سیکولر ملکیت کہا جاتا تھا اور جو لارڈ کی ملکیت ہوتی تھی اسے سیکولر ملکیت کہا جاتا تھا۔ اور پھر وہی انداز کمپنی نے اپنایا اور اس طرح اسے قانون میں فرد کی حیثیت دی گئی مگر معاشی اصطلاح میں اسے artificial person کہا گیا، جب کہ ہم جیسے انسانوں کو فطری فرد۔
دیکھنے کو تو بظاہر اوباما کے پاس کچھ ملکیت نہیں نہ ہیلری کلنٹن کے پاس ہوگی لیکن امریکا میں صدارتی انتخابات میں کروڑوں ڈالر کے اخراجات کارپوریٹ دنیا کرتی ہے جو جنگی ساز و سامان بناتی ہیں وہ جارج بش جیسے جنگی جنون والے کے الیکشن میں خرچہ کرتی ہیں اور جو دنیا میں دوسرے کام کرتی ہیں وہ ڈیموکریٹ کے کینیڈیڈیٹ کو فنڈ دیتی ہیں۔
برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نے سب کچھ نجکاری میں دے دیا اور اس طرح کمپنیوں کی چاندی لگ گئی انھوں نے اونے پونے قیمت پر سرکاری املاک و کارخانے وغیرہ خریدے یہ وہ زمانے تھے جب کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز بہت طاقتور ہوگئے۔ خاص کرکے پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے یعنی وہ کمپنیاں جنھوں نے سرمایہ اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے اکٹھا کیا تھا۔ اب ان عام آدمی کو کیا پتا کہ جس کمپنی کے اس نے حصص لیے ہیں وہ کیا کر رہی ہے۔ اس دھوکے میں بڑی بڑی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی فرم بھی ملوث ہوا کرتی تھیں۔
آج سے دس سال قبل جو دنیا میں مارگیج کی وجہ سے بینک تباہ ہونے کا جو بحران آیا تھا جس نے پوری دنیا کے معاشی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا وہ کیا تھا۔ 1930 میں جو بہت شدید وال اسٹریٹ کے بحران اور کساد بازاری نے امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا وہ کیا تھا اور پھر اس طرح جان مینارڈ کینز بیچ کا راستہ نکالنے والی معاشی تھیوری لے آئے اور یہ کہا کہ سب کچھ مارکیٹ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور ریاست کو بیچ میں آنا پڑے گا۔ جب مارکیٹ میں مندی ہو تو سود کی شرح کم اور بینکوں سے قرضے لے کر بھی مجموعی شرح نمود کو معقول انداز میں رکھنا پڑے گا تاکہ بے روزگاری کم ہو وغیرہ وغیرہ۔
یورپ کی معیشت پر کینز کا اثر رہا مگر یعنی Mired Economy رہی مگر امریکا میں نہیں۔
آج پوری دنیا ان کارپوریٹ دنیا کے کمینگیوں کی ایک شکل کے سوا کچھ نہیں۔ امریکا اپنی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ اور پھر اس سارے مفادات کی جنگ میں یورپ اور امریکا ایک ہوجاتے ہیں، یہی تھے وہ کیپٹل دنیا کے مفادات جس نے مشرق وسطیٰ کے اندر اپنی سیاسی حیثیت کھڑی کی۔
یہ سب ایک ہوگئے سوویت یونین کو ختم کرنے کے لیے ،کیونکہ سوویت یونین نے اس کمپنیوں والی معیشت کو نہیں مانا اس نے Mixed Economy کو بھی نہیں مانا۔ اتنی ساری پیداوار کے لیے سب کچھ ریاست کا تھا۔
ہاں لیکن انسان ابھی اس غار کی جبلتوں سے نکلا نہیں تھا، سوویت یونین کے نام پر ''دنیا کے مزدورو ایک ہوجاؤ'' کے نام پر سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد کے نام پر سوویت یونین میں، جاگیرداری میں منظر میں پلا بڑھا جارجیا کا جوزف اسٹالن قبضہ کر بیٹھا۔ سارا کا سارا سوشلسٹ بلاک بھسم ہوکے بیٹھ گیا۔ مگر اس ساری دنیا میں جو بھیانک کام ہے وہ پاناما لیکس نے آپ کے سامنے ظہور پذیر کیا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ غریب ملک کے حکمرانو اپنے غریبوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ لوٹو اور ان لوٹے ہوئے مال کو یہاں چپکے سے لے آؤ اور ہمارے ملکوں میں سرمایہ کاری کرو۔
جب دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے دنیا ہماری مدد چاہتی ہے تو دنیا کو ہماری بھی مدد کرنی چاہیے کہ اس غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت کو جو جھوٹی آف شور کمپنیوں میں چھپائی جاتی ہے اسے ہمیں واپس کرو۔ ہاں مگر جب گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے تو باہر سے کوئی غیبی طاقت آکے آپ کی مدد نہیں کرے گی۔ اس کے لیے یہاں اپنے لوگوں کو بیدار کرنا ہوگا۔
یہ شرفاء کا پاکستان ہے اور یہ اشرفیائی جمہوریت ہے اور اس کے سامنے ہے شرفاؤں کی آمریت۔ نہ یہ گڈگورننس دے سکتے ہیں اور نہ کارپوریٹ گورننس۔