تہذیبوں کو خطرہ حضرت یوسفؑ کا تحقیقاتی انتظام معاشرت
برٹرینڈرسل نے حضرت موسی ٰ کو تفویض کردہ دس خدائی احکامات کے جواب میں جو دس لبرل ’’احکامات‘ پیش کیے تھے
نمک کے ساتھ لیموں:- تاریخ کے موجودہ انسانی ارتقائی مرحلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور انتہاء پسند کارروائیوں کوکرہ ارض پر رائج تہذیبوں، نظام تمدن اور موجودات سمیت حیات کائنات کو لاحق خطرات کی فہرست میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔نائن الیون سانحے کے بعد ''اینٹ کا جواب پتھر سے دینے''کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اوراقوام عالم نے ان سے نمٹنے کے لیے عالمی طور پر مقبول، معروف و مروج مغربی نظریات ونظام تمدن کے داعی ریاست ہائے متحدہ امر یکا کی سرپرستی میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف گزشتہ ساڑھے پندرہ سال سے جنگ شروع کی ہوئی ہے ۔ جس میں دن بدن اضافہ اور شدت آتی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضراثرات کو عقلی بنیادوں اور مادی وسائل واسباب کے دم پرترقی یافتہ تہذیبوں (مغربی تہذیب)کو مزید عرصہ حیات فراہم کرنے کی خاطرگزشتہ برس فرانس کے دارالحکو مت پیرس میں کانفرنس آف پارٹیزکی اکیسویں ماحولیاتی کانفرنس میں کرہ ارض کی حفاظت کے لیے اقوام عالم کے مابین ایک تحریری معاہدہ بھی کیا گیا، جس پر 195ممالک کے نمایندوں نے اپنے اپنے ممالک کی طرف سے تصویبی و تصدیقی دستخط کیے تھے اوردیگر ممالک کو بھی اس معاہدے میں شامل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا۔''آب وہوا میں تبدیلی'' کے عنوان سے بلائی گئی۔
اس کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثرہ ممالک کے لیے 100 ارب ڈالرزکے فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا،جب کہ اسی مقصدکو واضح کرنے کے لیے بہت پہلے 3D گرافکس سے بھی کہیں آگے کی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہالی وڈکی مشہورعالم فلم2012 میں ماحولیاتی تبدیلیوںکے ہولناک وبھیانک نتائج کوعملی طور پرمؤثراندازمیں بیان کرنے کی خاطر عجائبات کرہ ارض کو سونامی کے بپھرے ہوئے اژدہا کے منہ میں جاتے ہوئے دکھایا بھی جاچکا ہے اوراس قسم کی دیگر بیسیوں فلموں سے بھی اقوام عالم کویہ پیغام سمجھایا جاچکا ہے کہ جو انسانی گروہ آج کے جدید ،ترقی یافتہ نظام تمدن میں رائج نظریات اور ایجادات کو عملی طور پر اپنانے سے گریزاں رہے گا اس کے مٹنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
یعنی انسانوں کی تاریخ کے موجودہ مرحلے پر محبوب ترین مغربی ترقی یافتہ نظام تمدن کو لاحق خطرات اور ان کے سائیڈ افیکٹس سے متاثرہ دیگر تہذیبوں سے متعلق انسانی گروہو ںکے پاس ان جدید مادہ پرست محققین کی جانب سے تجویز کیے گئے حل کے سوا اورکوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا کہ جس کی بنیا د پر ماحولیاتی تبدیلیوں اور انتہاء پسندی کے خطرات کا سدباب کیاجانا ممکن بنتا ۔
ایسی صورتحال میں جو نتائج کے پھل اقوام عالم یا عالم انسانیت کی جھولی میں گرنے کے امکانات ہیں ان کی حقیقت جاننے کے لیے ہر ذی فہم اور صاحب عقل انسان کو اپنے سامنے ان مادہ پرست محققین کی جانب سے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک دانتوں کی صفائی کے لیے مارکیٹ میں بیچے جانے والے ٹوتھ پیسٹ کی مثال رکھنا ہی کافی ہو گا۔ جس میں انھوں نے اتنے طویل عرصے کے بعد ناخواندہ ، تنگ نظر، بنیادپرست وفرسودہ انداز معاشرت سے چمٹے رہنے والے اپنے صارف پر طنز سے مشابہ سوال پوچھا''کیا آپ کے ٹوتھ پیسٹ میں نمک ہے ؟'نمک کے ساتھ لیموں ہے؟''
خطرہ:- مادہ پرست تہذیبوں کو لاحق خطرات کے تمام واضح اسباب خود انسانی ایجادات اوراس کے رائج کردہ استبدادی نظام معاشرت سے ہی وابستہ وپیوستہ قراردیے جاچکے ہیں اور انسانوں ہی کوجدید ایجادات اورمادی نظریات کے دم پران کے سدباب کی ذمے داریاں سونپے جانے کا اعلا ن کیا جاچکا ہے ۔اس لیے ہمیں استدلال کے اسی مقام پر انسانوں کی مستند، معلوم، مفروضی وقیاسی تاریخ میںدیکھنا پڑے گا کہ تہذیبوں کوکب اورکیوں خطرات لاحق ہوتے ہیں؟
آج تو جدید مشنر ی اورایندھن سے پیدا ہونے والے گیسزکو خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کی جڑ قراردیا جارہا ہے ، لیکن مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی موئن جودڑو جیسی تہذیبوں کی تباہی کے وقت کون سی مشینو ں کے ایندھن سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونماء ہوئی تھیں؟مبینہ طور سات ہزار سال پرانی تہذیب فراعین کے اختتام پذیر ہونے کے وقت کون سے ''انتہاء پسندوں'' نے اس تہذیب کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا؟600 قبل مسیح کے لگ بھگ ہینگنگ گارڈن جیسی بخت نصری تہذیب کیونکر اپنے تہذیبی ڈھانچے کو نشانی کے طو ر پر چھو ڑکر تاریخ کے سمندروں میں غرقاب ہوئی؟
دیوارچین کے غلاموں پر مشتمل معماروں کا توکوئی اتا پتا نہیں لیکن تہذیب چائنہ اپنے مکمل آب وتاب سے کرہ ارض پر رائج تمام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ، زندہ وتابندہ ہونے کے باوجود، دیوارچین کا سنگ بنیاد رکھنے والے ''کی شے خاندان ''کی پیروی میں مزید دیواریں کیونکر تعمیر کرنے سے گریزاں ہے؟کرہ ارض پر موجودہ تمام عظیم الجثہ تاریخی عمارتیں جبرواستبداد کی بنیاد پر غلام کاریگروں کے ہاتھوں استبداد کے دم پرتعمیرکرائی گئی تھیں، لیکن آگرہ کاتاج محل دولت خرچ کرکے بنوایا گیا تھا تو پھرکیونکر اسے بھی استبدادی تعمیرات سے جوڑا جاتا رہا ہے ؟ ''تہذیب تاج محل'' کی معمارقوم کے موجودہ ارتقائی مرحلے سمیت عالم انسانیت میں موجودہ مقام اورکردار کیا ہے ؟
عالم انسانیت کی وحدانی ویکساں کیفیت کے تمام ارتقائی مراحل کی نشاندہی کرتی ان کھلی اور لاثانی نشانیوں کے باوجود وہ کون سا صاحب عقل ودانش انسانی گروہ ہے کہ جس نے کرہ ارض پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے کے نتیجے میں انسانیت کوگروہوں میں تقسیم کرکے اجتماعیت ،قابل عمل مساوات اور برابری کی آفاقی اور لازوال تحقیقات کو فرسودہ قرار دیکردنیا پر اپنی طلسماتی ایجادات اور سرابی نظریات کو رائج کرتے ہوئے اب حیات کائنات کو لاحق خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنے کاٹھیکا لیے ہوئے ہے ؟ ان کی خود کی تاریخ کیا ہے؟کیااس انسانی گروہ کے سر برآوردہ محققین ،منتظمین ومفکرین مصر کے جناب یُوضارصِیف جیسے عظیم تر، منتظم، مفکر، مدبر و محقق سے آشناء نہیں ہیں کہ جنہوں نے تہذیب فراعین مصرمیں رائج نظام تمدن سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسانوں اور تہذیبوں کی معلوم تاریخ میں پہلی باردریائے نیل کے سات سال تک خشک ہوجانے اور قحط گرنے کے نہ صرف تحقیقی نتائج بیان کیے بلکہ چودہ سال کے قلیل عرصے میں مصرکاانتظام ریاست چلا کران تبدیلیوں کے نتیجے میں مصر سمیت آس پاس کے ملکوں میں رہنے والے انسانوں کو لاحق ہونے وا لے خطرات سے نہ صرف محفوظ رکھابلکہ ان کے ساتھ تہذیب مصر کو مزید پانچ صدیوں پرمشتمل زندگی عطا کردی تھی۔
انھوں نے اس کی نظری وفکری ابتداء اپنی مصنوعات یا ایجادات بیچ کر یا پھر چندوں اور امدادوں کی خاطر بڑے بڑے اجلاس بلا کرنہیں کی تھی ، بلکہ عزیزمصرمحترم پُوتی فارکے عبرانی غلام (حضرت) یوسف ؑ (مصری نام یوضارصیف) کی حیثیت سے مصر ی معبدخانے کے خدا حاکم مصرآمون ہوتپ سوئم کے در بار میں ان کے جانشین آمون ہوتپ چہارم سے اپنی تعظیم کروانے سے کی تھی۔ جب کہ عملی ابتداء انھوں نے ہم سرعزیز مصر، مصری خدا آمون کے معبدخانہ کی دیوی اور مصرکی خاتون دوئم بانو زلیخا کے تخت رواںکے انسانوں کے کاندھوں پر ہونے کا سبب بتاکراس پر بیٹھنے کا انکارکر نے سے کی تھی۔
مزیدار پہلو یہ کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تشخص کے لباد ے میں موجود انسانی گروہو ں میں نظری وفکر ی طور پر حضرت یوسف ؑیکساں طور پر قابل صد احترام ، صاحب عمل وکامل محقق (نبی)ہیں۔تو بس پھر فیصلہ کرنے کے لیے یہی رہ جاتا ہے کہ عالم انسانیت کودعوت فکردی جائی اور بتایا جائے کہ کرہ ارض پر موعود مادی نظام تمدن اور ان کے تخلیق کاروں کی تحقیقات وایجادات کا ''تخت رواں'' اگر دوسرے قوم نماء انسانی غلاموں کے کاندھوں پر ہے تو ''تخت رواں'' پر بیٹھنے والے ہر ایک یوسف،جوزف اور یوضارصیف سے تہذ یبوں، نظام تمدن اور حیات کائنات کوضرورخطرہ لاحق رہے گا۔