بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہے اس کا جغرافیہ اسے فراموش کردیتا ہے

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہے اس کا جغرافیہ اسے فراموش کردیتا ہے۔ 1971 میں پاکستان کا ٹوٹ جانا اتنا بڑا سانحہ ہے جس کی مثال مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی، اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں ہوسکے گا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے المیے سے دنیا بھر میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، وہیں بطور خاص پاکستان کی سیاست کا رنگ بھی بدلا اور وقت کے ساتھ اٹھنے والی ہر علاقائی تحریک لاشعوری طور پر مشرقی پاکستان کی تحریک کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہوگئی اور اس طرح یہ سانحہ علیحدگی پسندوں کے لیے ایک ''ماڈل'' کا کام دے گیا۔

اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو روز اول سے لا تعداد سنگین مسائل کا سامنا رہا ملک کے دونوں اہم حصوں کو متحد رکھنے اور ایک متفقہ آئین (دستور) کی تیاری کے سلسلے کے علاوہ اہل پاکستان کو نامساعد سماجی، اقتصادی اورانتظامی صورت حال سے بھی عہدہ برآ ہونا تھا ملک و قوم کو درپیش یہ آزمائشی دور ایک بے لوث اور مخلص قیادت کا متقاضی تھا مگر بد قسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے جانشین اس زرخالص سے ہمیشہ محروم چلے آرہے ہیں۔

یہ ضرورت ہمیشہ سے پاکستان کو لاحق رہی کہ تعلقات عامہ کے جدید ترین ہتھیاروں سے کام لیتے ہوئے نظریاتی اور سماجی واقتصادی عوامل کو بروئے کار لاکر قومی یکجہتی کے مقاصد کے حصول کے لیے غیر معمولی مساعی کی جائیں مگر بد قسمتی سے یہ دونوں کام ممکن نہ ہوسکے۔ ثقافتی اور لسانی اختلافات بھی ملکی یکجہتی کے لیے مضر ثابت ہوئے اور سب سے بڑھ کر مختلف ادوار میں سیاست اور آئینی لغزشوں نے بھی پاکستان دشمنوں کو ملک کے دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو گہرا کرنے کے مواقعے فراہم کیے۔

پاکستان کا دستور قومی اسمبلی کی جانب سے 10 اپریل 1973 کو پاس ہوا تھا جس کو صدارتی منظوری 12 اپریل 1973کو ملی۔ تاریخ عامہ سے واقفیت رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارا آئین (دستور) صرف قوانین کا کتابچہ نہیں بلکہ جد وجہد کی وہ طویل اور ناقابل فراموش داستان ہے جو قید و بند اور پاکستان کے عوام کی قربانیوں سے لبریز ہے جو انھوں نے اپنے بنیادی حقوق اور تحفظ کے لیے دیں۔ سینیٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال کی طرح امسال بھی 10 اپریل اور 12 اپریل کی یادگار تاریخوں کو اجاگر کرنے کے لیے ''یوم دستور'' منانے کا اہتمام و انتظام کیا، پارلیمنٹ ہاؤس میں چراغاں، سیمینار، خصوصی دن کے حوالے سے قرارداد، ٹی وی، ریڈیو پر خصوصی پروگرام اور ملک کی منتخب قیادت کی جانب سے خصوصی پیغامات وغیرہ الغرض آئین کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے عوام الناس کو شعور و آگاہی دینا اس کا مقصد اولین ٹھہرا۔


مذکورہ بالا عوامل کے تناظر میں یہی وقت ہے کہ پاکستان کے ان گمنام ہیروزکو تسلیم کیا جائے جنھوں نے دستور کے لیے ناقابل فراموش قربانیاں دیں۔ جستجوکی لیکن تاریخ کے صفحات میں رقم نہ ہوسکے۔ یہی وہ ساعتیں ہیں، یہی وہ لمحات ہیں جب پاکستان کے عوام کو احساس دلایا جائے کہ پاکستان کے عوام ہی آئین کے اصل محافظ ہیں۔

وطن عزیز کی تاریخ و روایت پر نگاہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں آج بھی بہت سے ایسے قوانین ابھی تک نافذ العمل ہیں جن میں بیشتر ایسے ہیں جنھیں عہد برطانیہ یا فرنگی دور میں تقریباً سو سال قبل نافذ کیا گیا تھا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف کا کہنا ہے کہ وہ ان پرانے قوانین پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ انھیں وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر موثر بنایا جا سکے اس حوالے سے انھوں نے توہین عدالت کے قانون کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ادارے نہیں ان میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔

اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا یہ کہنا غور طلب اور فکر انگیز ہے کہ ملک میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور عدلیہ کا ہر فرد پوری ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کررہاہے اور وہ پوری ذمے داری سے کہتے ہیں کہ ملک کے عدالتی نظام میں کوئی خرابی نہیں بلکہ اس پر عمل در آمد کرنے اور عملی جامہ پہنانے والے مختلف کرداروں میں خرابی ہے اس لیے موجودہ عدالتی نظام پر تنقید بلا جواز ہے، معاشرے میں سچ جھوٹ اور حلال و حرام کی تمیز ختم ہورہی ہے اس لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے ملکی سطح پر مصالحتی ادارے قائم کیے جائیں۔

بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان سارے حقائق کے باوجود قانون کی پاسداری کا عمل ہمارے معاشرے میں عنقا ہی نظر آرہا ہے جس کا سب سے بڑا اور ٹھوس ثبوت بلدیاتی اداروں کو ان کے اختیار نہ دینا ہے، یہ بلدیاتی ادارے ہی تھے جو لوکل کونسل کی سطح پر مصالحتی ادارے قائم کرکے روز مرہ کی بنیاد پر درجنوں معاشرتی مسئلے حل کراکے گھر اور در دونوں کو اجڑنے سے بچاتے تھے۔

اسے ہمارے دستور کا المیہ کہا جائے گا کہ ملک کا دستور بنانے والے کو پھانسی اور اسے توڑنے والے کو فری ہینڈ دے دینا فہم سے باہر ہی کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ وگرنہ فطرت کا آفاقی اصول کسے نہیں معلوم کہ آئین اور قانون کا نفاذ سب پر برابر ہونا چاہیے، طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا قانون اس مہذب دور میں انتہائی نا انصافی ہے۔ کاشف ہمارے ارباب اختیار آج جان لیں کہ طاقت کے ستونوں کے درمیان اختیارات کا توازن نظام کی خوبصورتی بھی ہوتا ہے اور کامیابی کی ضمانت بھی۔
Load Next Story