پانامہ لیکس تین ہدف 2
پانامہ لیکس کے اصل ہدف چین، روس اور پاکستان کیوں ہیں؟ اس ضمن میں جاری گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
پانامہ لیکس کے اصل ہدف چین، روس اور پاکستان کیوں ہیں؟ اس ضمن میں جاری گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تو اس وقت سوویت یونین ٹوٹ کر رشین فیڈریشن بن چکا تھا، امریکا طویل محاذ آرائی کی قیمت کھربوں ڈالر میں ادا کر کے معاشی لحاظ سے نڈھال، بے حال تھا اور یہی حشر مغربی یورپ کا ہوا تھا۔ چین کی شرح نمو 10 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی جب کہ امریکا اور یورپ میں کساد بازاری تھی اور شرح نمو ایک سے ڈیڑھ فیصد سالانہ تک گر چکی تھی۔
امریکا واضح طور پر سمجھ چکا تھا کہ اس کی 145 برسوں پر پھیلی ہوئی معاشی بالادستی اب بدترین خطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔ اسے چینی سرمایہ کاری اور اپنے سامان کے لیے چینی منڈی کی ضرورت یقیناً تھی لیکن وہ یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ چین، امریکا کے لیے ناگزیر بن جائے۔ اب کچھ کر گزرنے کا وقت آ گیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ 9/11 کا سانحہ پیش آ گیا اور امریکا کے لیے داخلی سیکیورٹی اور عالمی دہشت گردی جیسے مسائل اہم ترین ہو گئے۔ اس طرح 9/11 کے بعد چین کو معاشی استحکام کے لیے مزید پندرہ سال مل گئے کیونکہ امریکا کے پاس اسے روکنے کا نہ وقت تھا اور نہ وہ اس کے خلاف کوئی محاذ کھولنے کا متحمل ہو سکتا تھا۔
2015 ء تک حالات بہت بدل گئے تھے اور چین ناقابل یقین حد تک آگے بڑھ چکا تھا۔ آج وہ کتنی بڑی معاشی طاقت ہو چکا ہے اس کا اندازہ چند حقائق سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ چین اب امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
یعنی وہ صارفین کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے جسے نظر انداز کرنا کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔ کاروباری لحاظ سے چین کس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس مرتبہ کے ''فارچون 500'' کے مطابق سب سے بڑی عالمی کمپنیوں میں چین کی کمپنیوں کی تعداد 98 جب کہ امریکی کمپنیوں کی تعداد 128 ہے۔ آج سے 10 سال پہلے اس صورتحال کا تصور بھی محال تھا۔ یہ پڑھ کر بہت سے لوگوں کو حیرانی ہو گی کہ اس وقت دنیا میں چین کی 30 ہزار سے زیادہ کمپنیاں کاروبار میں مصروف ہیں۔ امریکا کی ایک بہت بڑی پریشانی یہ ہے کہ عالمی معیشت میں چین کے پھیلاؤ کو اگر نہ روکا گیا تو امریکی معیشت کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے کیونکہ بہت ہی کم مدت میں عالمی سطح پر چین کی سرمایہ کاری کا حجم ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
چین کے حوالے سے امریکا کے لیے ایک اور تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان جو تجارت اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اس میں بھی چین کو امریکا پر غیر معمولی سبقت حاصل ہو چکی ہے۔ 2015ء میں چین کو امریکی برآمدات کا حجم 186،116 ملین ڈالر جب کہ چین سے ہونے والی درآمدات کا حجم 886،481 ملین ڈالر تھا، یعنی امریکا کو سالانہ 698، 346 ملین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے بھی اہم حقیقت یہ ہے کہ چین کا سرمایہ، امریکا پر غلبہ حاصل کر رہا ہے۔ پچھلے 3 برسوں سے چین ہر سال امریکا میں 10 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکس چینج، نیویارک اسٹاک ایکس چینج ہے لیکن اب چین کی دو اسٹاک ایکس چینج کا کل سرمایہ 10.3 کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اسٹاک ایکس چینج بن چکی ہیں۔
کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ یہاں صرف چند حقائق بیان کیے گئے ہیں جن سے یہ بتانا مقصود ہے کہ پہلے سرد جنگ کا طویل زمانہ اور بعد ازاں 9/11 کے بعد کی ڈیڑھ دہائیوں کے بعد اب امریکا کو کچھ فرصت ملی ہے کہ وہ چند پیش بندیاں کرے اور چین کی تیز رفتار ترقی کو کم کرنے کے لیے وہاں محدود نوعیت کا سیاسی بحران پیدا کرے۔ امریکا کے نقطہ نظر سے کافی وقت پہلے ہی ضایع ہو چکا ہے۔
پانامہ لیکس کے ذریعے چین کے صدر اور حکومت کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز قیادت کی ساکھ خراب کرنے سے چین کے اندر امکانی طور پر ایک بحرانی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے۔ چین اس وقت معاشی ترقی کے لیے نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے جس کے تحت ملک کے اندر مالیاتی اور کاروباری اصلاحات، کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے اہم اقدامات میں شامل ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا جہاں کھربوں ڈالروں کا غیر قانونی کاروبار ہوتا ہو وہاں کے کسی بھی قابل ذکر ادارے، کمپنی یا شخصیت کا نام ایک کروڑ 11 لاکھ دستاویزات میں شامل نہ ہو لیکن چین کے صدر کی نیک نامی اور ساکھ کو خراب کیا جا رہا ہو جن کا نام کسی دستاویز میں شامل نہیں ہے۔
پانامہ لیکس کے ذریعے یوں تو بہت سے تیر چلائے گئے ہیں تاہم، تین تیر خاص نشانوں پر چلائے گئے ہیں جس کا مقصد 3 افراد کو شکار کرنا ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے سب سے پہلا ہدف چین ہے جسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے صدر ژی جن پنگ کے حوالے سے ان کے قریبی رشتے داروں کو چنا گیا ہے۔ چین میں یہ معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ملک کے اندر کی بدعنوانیوں کی کہانیوں سے قطع نظر عالمی سطح پر پانامہ لیکس جیسے معاملے نے چین میں بہت ہلچل مچائی ہے۔ حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ پولٹ بیورو کے ارکان کو ملوث کر کے چین کی حکمران پارٹی کو تقسیم کر دیا جائے جس کا مقصد چین کو تیزی سے آگے بڑھنے اور امریکا کی جگہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے سے روکنا یا اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
پانامہ لیکس کا دوسرا نشانہ روس کے صدر پیوٹن ہیں۔ ان کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وہ روسی رہنما ہیں جنھوں نے مشکل ترین حالات میں اپنے ملک کو نہ صرف سنبھالا بلکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت کو دوبارہ بحال کیا۔ روس بہت سے معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس کی شرح نمو میں کمی آئی ہے۔ ان حالات کے باوجود صدر پیوٹن اپنے ملک کی معیشت کو بحال کرنے اور امریکا کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ ان کی پالیسی ہے کہ دنیا میں روس کو ایک کمزور ریاست ثابت کرنے کا جو تاثر پیدا کیا جا رہا ہے اس کا ازالہ کیا جائے اور امریکا کو بالخصوص یہ باور کرایا جائے کہ مشکل معاشی صورتحال کے باوجود، روس آج بھی دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور اس حوالے سے اس کے اثر و نفوذ کوکم نہ سمجھا جائے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کے مسئلے پر روس کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی، اسے معاشی پابندیوں سے بھی خوفزدہ کیا گیا لیکن صدر پیوٹن نے کمزوری نہ دکھائی اور امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں سرد جنگ کے دوران روس کا کردار انتہائی اہم تھا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس اپنا یہ کردار ادا کرنے کی حیثیت اور صلاحیت بڑی حد تک کھو چکا تھا جس کا بھرپور فائدہ امریکا نے اٹھایا۔ اپنے حامی ملکوں میں جمہوری اصلاحات پ رزور دینے کے بجائے اس نے بحران پیدا کرنے کے لیے ان عرب اور افریقی ملکوں کا انتخاب کیا جو ماضی میں روس کے زیر اثر تھے اور جہاں غیر مذہبی آمرانہ حکومتیں بر سر اقتدار تھیں۔ پہلا نشانہ عراق بنا، اس کے بعد لیبیا اور پھر شام میں بحران پیدا کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے باغیوں کی مدد لی گئی اور ایک مرحلے پر مذہبی عسکریت پسندوں کی بھی اعانت کی گئی۔ جمہوریت کو لانے کے نام پر ان دونوں ملکوں میں اب تک لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے۔
صدر پیوٹن نے یہ فیصلہ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی من مانی اور یکطرفہ کارروائیوں کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ صدر پیوٹن نے بشارالاسد کی حمایت میں فضائی اور فوجی کارروائیاں شروع کیں اور جو کام امریکا نہ کر سکا تھا وہ انھوں نے چند مہینوں میں کر دکھایا۔ شام میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے، مذہبی عسکریت پسندوں سے اہم شہر اور علاقے واپس لیے جا چکے ہیں اور اب شام کے بحران کے حل کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔
عالمی سطح پر امریکا کو چیلنج کرنے کا خمیازہ اب صدر پیوٹن کو پانامہ لیکس سمیت مختلف شکلوں میں برداشت کرنا پڑے گا۔ صدر پیوٹن کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے جب ہی انھوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہہ دیا ہے کہ جیسے جیسے روس میں انتخابات قریب آئیں گے روس کو کمزور کرنے کے لیے اس طرح کی مزید گمراہ کن خبریں سامنے لائی جائیں گی۔
(جاری ہے)
امریکا واضح طور پر سمجھ چکا تھا کہ اس کی 145 برسوں پر پھیلی ہوئی معاشی بالادستی اب بدترین خطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔ اسے چینی سرمایہ کاری اور اپنے سامان کے لیے چینی منڈی کی ضرورت یقیناً تھی لیکن وہ یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ چین، امریکا کے لیے ناگزیر بن جائے۔ اب کچھ کر گزرنے کا وقت آ گیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ 9/11 کا سانحہ پیش آ گیا اور امریکا کے لیے داخلی سیکیورٹی اور عالمی دہشت گردی جیسے مسائل اہم ترین ہو گئے۔ اس طرح 9/11 کے بعد چین کو معاشی استحکام کے لیے مزید پندرہ سال مل گئے کیونکہ امریکا کے پاس اسے روکنے کا نہ وقت تھا اور نہ وہ اس کے خلاف کوئی محاذ کھولنے کا متحمل ہو سکتا تھا۔
2015 ء تک حالات بہت بدل گئے تھے اور چین ناقابل یقین حد تک آگے بڑھ چکا تھا۔ آج وہ کتنی بڑی معاشی طاقت ہو چکا ہے اس کا اندازہ چند حقائق سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ چین اب امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
یعنی وہ صارفین کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے جسے نظر انداز کرنا کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔ کاروباری لحاظ سے چین کس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس مرتبہ کے ''فارچون 500'' کے مطابق سب سے بڑی عالمی کمپنیوں میں چین کی کمپنیوں کی تعداد 98 جب کہ امریکی کمپنیوں کی تعداد 128 ہے۔ آج سے 10 سال پہلے اس صورتحال کا تصور بھی محال تھا۔ یہ پڑھ کر بہت سے لوگوں کو حیرانی ہو گی کہ اس وقت دنیا میں چین کی 30 ہزار سے زیادہ کمپنیاں کاروبار میں مصروف ہیں۔ امریکا کی ایک بہت بڑی پریشانی یہ ہے کہ عالمی معیشت میں چین کے پھیلاؤ کو اگر نہ روکا گیا تو امریکی معیشت کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے کیونکہ بہت ہی کم مدت میں عالمی سطح پر چین کی سرمایہ کاری کا حجم ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
چین کے حوالے سے امریکا کے لیے ایک اور تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان جو تجارت اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اس میں بھی چین کو امریکا پر غیر معمولی سبقت حاصل ہو چکی ہے۔ 2015ء میں چین کو امریکی برآمدات کا حجم 186،116 ملین ڈالر جب کہ چین سے ہونے والی درآمدات کا حجم 886،481 ملین ڈالر تھا، یعنی امریکا کو سالانہ 698، 346 ملین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے بھی اہم حقیقت یہ ہے کہ چین کا سرمایہ، امریکا پر غلبہ حاصل کر رہا ہے۔ پچھلے 3 برسوں سے چین ہر سال امریکا میں 10 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکس چینج، نیویارک اسٹاک ایکس چینج ہے لیکن اب چین کی دو اسٹاک ایکس چینج کا کل سرمایہ 10.3 کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اسٹاک ایکس چینج بن چکی ہیں۔
کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ یہاں صرف چند حقائق بیان کیے گئے ہیں جن سے یہ بتانا مقصود ہے کہ پہلے سرد جنگ کا طویل زمانہ اور بعد ازاں 9/11 کے بعد کی ڈیڑھ دہائیوں کے بعد اب امریکا کو کچھ فرصت ملی ہے کہ وہ چند پیش بندیاں کرے اور چین کی تیز رفتار ترقی کو کم کرنے کے لیے وہاں محدود نوعیت کا سیاسی بحران پیدا کرے۔ امریکا کے نقطہ نظر سے کافی وقت پہلے ہی ضایع ہو چکا ہے۔
پانامہ لیکس کے ذریعے چین کے صدر اور حکومت کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز قیادت کی ساکھ خراب کرنے سے چین کے اندر امکانی طور پر ایک بحرانی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے۔ چین اس وقت معاشی ترقی کے لیے نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے جس کے تحت ملک کے اندر مالیاتی اور کاروباری اصلاحات، کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے اہم اقدامات میں شامل ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا جہاں کھربوں ڈالروں کا غیر قانونی کاروبار ہوتا ہو وہاں کے کسی بھی قابل ذکر ادارے، کمپنی یا شخصیت کا نام ایک کروڑ 11 لاکھ دستاویزات میں شامل نہ ہو لیکن چین کے صدر کی نیک نامی اور ساکھ کو خراب کیا جا رہا ہو جن کا نام کسی دستاویز میں شامل نہیں ہے۔
پانامہ لیکس کے ذریعے یوں تو بہت سے تیر چلائے گئے ہیں تاہم، تین تیر خاص نشانوں پر چلائے گئے ہیں جس کا مقصد 3 افراد کو شکار کرنا ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے سب سے پہلا ہدف چین ہے جسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے صدر ژی جن پنگ کے حوالے سے ان کے قریبی رشتے داروں کو چنا گیا ہے۔ چین میں یہ معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ملک کے اندر کی بدعنوانیوں کی کہانیوں سے قطع نظر عالمی سطح پر پانامہ لیکس جیسے معاملے نے چین میں بہت ہلچل مچائی ہے۔ حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ پولٹ بیورو کے ارکان کو ملوث کر کے چین کی حکمران پارٹی کو تقسیم کر دیا جائے جس کا مقصد چین کو تیزی سے آگے بڑھنے اور امریکا کی جگہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے سے روکنا یا اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
پانامہ لیکس کا دوسرا نشانہ روس کے صدر پیوٹن ہیں۔ ان کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وہ روسی رہنما ہیں جنھوں نے مشکل ترین حالات میں اپنے ملک کو نہ صرف سنبھالا بلکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت کو دوبارہ بحال کیا۔ روس بہت سے معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس کی شرح نمو میں کمی آئی ہے۔ ان حالات کے باوجود صدر پیوٹن اپنے ملک کی معیشت کو بحال کرنے اور امریکا کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ ان کی پالیسی ہے کہ دنیا میں روس کو ایک کمزور ریاست ثابت کرنے کا جو تاثر پیدا کیا جا رہا ہے اس کا ازالہ کیا جائے اور امریکا کو بالخصوص یہ باور کرایا جائے کہ مشکل معاشی صورتحال کے باوجود، روس آج بھی دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور اس حوالے سے اس کے اثر و نفوذ کوکم نہ سمجھا جائے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کے مسئلے پر روس کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی، اسے معاشی پابندیوں سے بھی خوفزدہ کیا گیا لیکن صدر پیوٹن نے کمزوری نہ دکھائی اور امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں سرد جنگ کے دوران روس کا کردار انتہائی اہم تھا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس اپنا یہ کردار ادا کرنے کی حیثیت اور صلاحیت بڑی حد تک کھو چکا تھا جس کا بھرپور فائدہ امریکا نے اٹھایا۔ اپنے حامی ملکوں میں جمہوری اصلاحات پ رزور دینے کے بجائے اس نے بحران پیدا کرنے کے لیے ان عرب اور افریقی ملکوں کا انتخاب کیا جو ماضی میں روس کے زیر اثر تھے اور جہاں غیر مذہبی آمرانہ حکومتیں بر سر اقتدار تھیں۔ پہلا نشانہ عراق بنا، اس کے بعد لیبیا اور پھر شام میں بحران پیدا کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے باغیوں کی مدد لی گئی اور ایک مرحلے پر مذہبی عسکریت پسندوں کی بھی اعانت کی گئی۔ جمہوریت کو لانے کے نام پر ان دونوں ملکوں میں اب تک لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے۔
صدر پیوٹن نے یہ فیصلہ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی من مانی اور یکطرفہ کارروائیوں کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ صدر پیوٹن نے بشارالاسد کی حمایت میں فضائی اور فوجی کارروائیاں شروع کیں اور جو کام امریکا نہ کر سکا تھا وہ انھوں نے چند مہینوں میں کر دکھایا۔ شام میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے، مذہبی عسکریت پسندوں سے اہم شہر اور علاقے واپس لیے جا چکے ہیں اور اب شام کے بحران کے حل کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔
عالمی سطح پر امریکا کو چیلنج کرنے کا خمیازہ اب صدر پیوٹن کو پانامہ لیکس سمیت مختلف شکلوں میں برداشت کرنا پڑے گا۔ صدر پیوٹن کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے جب ہی انھوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہہ دیا ہے کہ جیسے جیسے روس میں انتخابات قریب آئیں گے روس کو کمزور کرنے کے لیے اس طرح کی مزید گمراہ کن خبریں سامنے لائی جائیں گی۔
(جاری ہے)