یہ گینگ
ہماری پولیس اس گینگ کے مقابلے میں بے بس ہو چکی ہے
ہماری پنجاب حکومت کو چھوٹو گینگ نامی کوئی آزار ایسا لاحق ہوا ہے کہ ہمارے پاس جتنا اسلحہ اور جنگی سامان موجود ہے وہ سب ہم نے اس گینگ کی سرکوبی بلکہ اسے شکست دینے اور ختم کرنے پر لگا دیا ہے۔
ہماری پولیس اس گینگ کے مقابلے میں بے بس ہو چکی ہے بلکہ پولیس کے علاوہ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا فی الحال وہ سب ہم نے ان باغیوں کو ختم کرنے میں لگا دیا ہے یہانتک کہ ہم نے فوج بھی بلا لی ہے اور وہ سول باغیوں کو زیر کرنے کے لیے چار و ناچار میدان میں آ گئی ہے۔ کچے کا علاقہ جہاں سے یہ گینگ امن دشمن کارروائیاں کر رہا ہے ہم نے چھوٹو گینگ کے ٹھکانوں پر فوجی ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ بھی کی ہے اس علاقے میں کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے اور پورا علاقہ سیل کر دیا گیا ہے۔ غرض ہماری صوبائی حکومت کے پاس ان غنڈوں کو ختم کرنے کا جو ذریعہ بھی موجود تھا وہ ہم نے استعمال کیا ہے۔
بس ایک آخری حربہ اور ذریعہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے ہمارا مشہور و معروف ایٹم بم مگر کچے کے علاقے میں موجود یہ گینگ ایٹم بم سے ڈرنے والا نہیں ہے کیونکہ یہاں ایٹم بھی پھینکا گیا تو اس سے جتنی تباہی اور بربادی ہو گی وہ سب ہماری اپنی ہو گی اور چھوٹو صاحب کو یہ سب معلوم ہے اسی لیے وہ اکڑا ہوا ہے کیونکہ اس بم سے کم تو ہم سب کر چکے ہیں اور کوئی معلوم حربہ اور اسلحہ ایسا نہیں چھوڑا جو ہم نے استعمال نہیں کر دیا۔ لیکن راجن پور کے کچے کے علاقے میں موجود اور اس پر قابض اس گینگ کو ابھی تک کوئی طریقہ شکست نہیں دے سکا اس گینگ کی طرف سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ اگر فوج کو لایا گیا تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فوج سے کم جو بھی۔
آپ کے پاس ہے وہ آپ لے آئیں اور اس کا تماشا دیکھ لیں بس ایک فوج ہے جس کا مقابلہ ہم نہیں کریں گے اور یہ گویا ایک رعایت ہے جو اس گینگ نے ہمیں دی ہے ورنہ وہ جس علاقے میں ہیں وہاں وہ فوج سے بھی لڑ سکتے ہیں بات وہی ہے کہ ایک ایٹم بم ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں ہے ورنہ ہماری پولیس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کا توڑ ان کے پاس موجود ہے بلکہ پولیس کے کچھ ساتھی بھی انھوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں اور پولیس ان سے اپیلیں کر رہی ہے کہ وہ ہمارے ساتھیوں کو کچھ نہ کہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ راجن پور کے کچے کا علاقہ میں نے بھی دیکھا ہوا ہے دریا کے کنارے کا یہ علاقہ درختوں میں چھپا ہوا ہے اور اس کی زمین سخت نہیں کچی اور نرم ہے جس پر چلنا بھی آسان نہیں ہے۔
پنجاب سے لے کر سندھ تک دریا کے کناروں کا یہ علاقہ ڈاکوؤں کا مرکز ہے اور اس سے زیادہ محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہے۔ یہاں کوئی باقاعدہ کارروائی کرنا آسان نہیں اور پولیس ہمیشہ کچے میں کسی آپریشن سے کتراتی ہے کیونکہ اسے اس کی تکلیف اور مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ پولیس افسر ہمیشہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے سے واپس چلے جائیں ساتھ ہی لالچ بھی دیا جاتا ہے جو اب بھی لاکھوں تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسے گینگ سے مقابلہ کیوں نہیں کر پاتے کہ سوائے کسی حتمی ہتھیار کے ہم ان باغیوں کو شکست نہیں دے سکتے۔
جب سے راجن پور کے اس گینگ کا ذکر شروع ہوا ہے تب سے میں اس کی ہر خبر ایک شرمندگی کے احساس سے پڑھتا ہوں کہ میں کس ملک میں رہتا ہوں جہاں کچھ ڈکیت جب چاہیں ایک بڑے علاقے اور اس میں موجود آبادی کو یرغمال بنا لیں۔ کل کلاں میں بھی کسی ایسے علاقے میں پھنس سکتا ہوں جہاں ڈاکو مجھے یرغمال بنا لیں اور میرے ساتھی میری رہائی کی اپیل کرتے رہ جائیں۔ جو صورت حال اس نئے گینگ کے حوالے سے سامنے آئی ہے وہ کسی بھی جگہ پیدا ہو سکتی ہے اور کیا کہا جائے کہ کوئی ساتھی ہماری آواز بھی بلند کرے گا کسی ڈاکو کا کوئی وطن اور ملک نہیں ہوتا اور ہر یرغمالی اس کی ایک آسامی ہوتا ہے جس کی رہائی پر کچھ رقم لگی ہوئی ہوتی ہے۔
پنجاب پولیس بہت مشہور ہے۔ متحدہ ہندوستان میں پنجاب پولیس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور اس کا ایک تھانیدار کسی پورے شہر کو قابو کر سکتا تھا لیکن تقسیم کے بعد پنجاب پولیس کا ڈسپلن متاثر ہوا اور یہ ایک قدرتی عمل تھا ایک زمانے میں پولیس کو حکومت کی مکمل حمایت اور تحفظ حاصل ہوتا تھا اور ایک پولیس اہلکار اپنی حکومتی سرپرستی کے بھروسے پر کوئی بھی کارروائی کر گزرتا تھا اور گر وہ سچ پر ہوتا تو اسے کوئی خطرہ نہ ہوتا بلکہ بعض اوقات تو وہ انعام بھی پاتا تھا مگر افسوس کہ یہ زمانے گزر گئے اور اب نہ کوئی پولیس کی کسی کارروائی کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی پولیس کو بدنامی سے بچاتا ہے۔ اس لیے پولیس کے اہلکار بھی اپنی جان بچاتے ہیں اور نوکری بھی بچاتے ہیں۔
کچے کے علاقے میں پولیس کیسے پھنس گئی یہ کسی کی بے وقوفی ہے کیونکہ ان کی حکومت تو ایسی آزمائشوں سے جان بچاتی ہے جو پھر بھی نہیں بچتی۔ بہر حال پولیس والے اپنی احتیاط کریں اور ہم پر تکیہ نہ کریں اس سلسلے میں ہم پنجابی بھی اپنی سرکار سے عرض پرداز ہیں کہ ہماری جان کا بھی دھیان کیا کریں کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ کوئی گینگ بنانا ایک آسان مشغلہ ہے اور ہمارے ہاں ان دنوں ایسے مشغلے بہت مقبول ہیں۔ ہمارے حکمران عوام کی خدمت ضرور کریں مگر عوام کی جان و مال کی حفاظت پر دھیان دیں اور عوام کو کسی گینگ وغیرہ سے بچائیں۔
ہماری پولیس اس گینگ کے مقابلے میں بے بس ہو چکی ہے بلکہ پولیس کے علاوہ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا فی الحال وہ سب ہم نے ان باغیوں کو ختم کرنے میں لگا دیا ہے یہانتک کہ ہم نے فوج بھی بلا لی ہے اور وہ سول باغیوں کو زیر کرنے کے لیے چار و ناچار میدان میں آ گئی ہے۔ کچے کا علاقہ جہاں سے یہ گینگ امن دشمن کارروائیاں کر رہا ہے ہم نے چھوٹو گینگ کے ٹھکانوں پر فوجی ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ بھی کی ہے اس علاقے میں کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے اور پورا علاقہ سیل کر دیا گیا ہے۔ غرض ہماری صوبائی حکومت کے پاس ان غنڈوں کو ختم کرنے کا جو ذریعہ بھی موجود تھا وہ ہم نے استعمال کیا ہے۔
بس ایک آخری حربہ اور ذریعہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے ہمارا مشہور و معروف ایٹم بم مگر کچے کے علاقے میں موجود یہ گینگ ایٹم بم سے ڈرنے والا نہیں ہے کیونکہ یہاں ایٹم بھی پھینکا گیا تو اس سے جتنی تباہی اور بربادی ہو گی وہ سب ہماری اپنی ہو گی اور چھوٹو صاحب کو یہ سب معلوم ہے اسی لیے وہ اکڑا ہوا ہے کیونکہ اس بم سے کم تو ہم سب کر چکے ہیں اور کوئی معلوم حربہ اور اسلحہ ایسا نہیں چھوڑا جو ہم نے استعمال نہیں کر دیا۔ لیکن راجن پور کے کچے کے علاقے میں موجود اور اس پر قابض اس گینگ کو ابھی تک کوئی طریقہ شکست نہیں دے سکا اس گینگ کی طرف سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ اگر فوج کو لایا گیا تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فوج سے کم جو بھی۔
آپ کے پاس ہے وہ آپ لے آئیں اور اس کا تماشا دیکھ لیں بس ایک فوج ہے جس کا مقابلہ ہم نہیں کریں گے اور یہ گویا ایک رعایت ہے جو اس گینگ نے ہمیں دی ہے ورنہ وہ جس علاقے میں ہیں وہاں وہ فوج سے بھی لڑ سکتے ہیں بات وہی ہے کہ ایک ایٹم بم ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں ہے ورنہ ہماری پولیس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کا توڑ ان کے پاس موجود ہے بلکہ پولیس کے کچھ ساتھی بھی انھوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں اور پولیس ان سے اپیلیں کر رہی ہے کہ وہ ہمارے ساتھیوں کو کچھ نہ کہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ راجن پور کے کچے کا علاقہ میں نے بھی دیکھا ہوا ہے دریا کے کنارے کا یہ علاقہ درختوں میں چھپا ہوا ہے اور اس کی زمین سخت نہیں کچی اور نرم ہے جس پر چلنا بھی آسان نہیں ہے۔
پنجاب سے لے کر سندھ تک دریا کے کناروں کا یہ علاقہ ڈاکوؤں کا مرکز ہے اور اس سے زیادہ محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہے۔ یہاں کوئی باقاعدہ کارروائی کرنا آسان نہیں اور پولیس ہمیشہ کچے میں کسی آپریشن سے کتراتی ہے کیونکہ اسے اس کی تکلیف اور مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ پولیس افسر ہمیشہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے سے واپس چلے جائیں ساتھ ہی لالچ بھی دیا جاتا ہے جو اب بھی لاکھوں تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسے گینگ سے مقابلہ کیوں نہیں کر پاتے کہ سوائے کسی حتمی ہتھیار کے ہم ان باغیوں کو شکست نہیں دے سکتے۔
جب سے راجن پور کے اس گینگ کا ذکر شروع ہوا ہے تب سے میں اس کی ہر خبر ایک شرمندگی کے احساس سے پڑھتا ہوں کہ میں کس ملک میں رہتا ہوں جہاں کچھ ڈکیت جب چاہیں ایک بڑے علاقے اور اس میں موجود آبادی کو یرغمال بنا لیں۔ کل کلاں میں بھی کسی ایسے علاقے میں پھنس سکتا ہوں جہاں ڈاکو مجھے یرغمال بنا لیں اور میرے ساتھی میری رہائی کی اپیل کرتے رہ جائیں۔ جو صورت حال اس نئے گینگ کے حوالے سے سامنے آئی ہے وہ کسی بھی جگہ پیدا ہو سکتی ہے اور کیا کہا جائے کہ کوئی ساتھی ہماری آواز بھی بلند کرے گا کسی ڈاکو کا کوئی وطن اور ملک نہیں ہوتا اور ہر یرغمالی اس کی ایک آسامی ہوتا ہے جس کی رہائی پر کچھ رقم لگی ہوئی ہوتی ہے۔
پنجاب پولیس بہت مشہور ہے۔ متحدہ ہندوستان میں پنجاب پولیس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور اس کا ایک تھانیدار کسی پورے شہر کو قابو کر سکتا تھا لیکن تقسیم کے بعد پنجاب پولیس کا ڈسپلن متاثر ہوا اور یہ ایک قدرتی عمل تھا ایک زمانے میں پولیس کو حکومت کی مکمل حمایت اور تحفظ حاصل ہوتا تھا اور ایک پولیس اہلکار اپنی حکومتی سرپرستی کے بھروسے پر کوئی بھی کارروائی کر گزرتا تھا اور گر وہ سچ پر ہوتا تو اسے کوئی خطرہ نہ ہوتا بلکہ بعض اوقات تو وہ انعام بھی پاتا تھا مگر افسوس کہ یہ زمانے گزر گئے اور اب نہ کوئی پولیس کی کسی کارروائی کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی پولیس کو بدنامی سے بچاتا ہے۔ اس لیے پولیس کے اہلکار بھی اپنی جان بچاتے ہیں اور نوکری بھی بچاتے ہیں۔
کچے کے علاقے میں پولیس کیسے پھنس گئی یہ کسی کی بے وقوفی ہے کیونکہ ان کی حکومت تو ایسی آزمائشوں سے جان بچاتی ہے جو پھر بھی نہیں بچتی۔ بہر حال پولیس والے اپنی احتیاط کریں اور ہم پر تکیہ نہ کریں اس سلسلے میں ہم پنجابی بھی اپنی سرکار سے عرض پرداز ہیں کہ ہماری جان کا بھی دھیان کیا کریں کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ کوئی گینگ بنانا ایک آسان مشغلہ ہے اور ہمارے ہاں ان دنوں ایسے مشغلے بہت مقبول ہیں۔ ہمارے حکمران عوام کی خدمت ضرور کریں مگر عوام کی جان و مال کی حفاظت پر دھیان دیں اور عوام کو کسی گینگ وغیرہ سے بچائیں۔