قرآن مجید کی سائنسی تصریح نئے موسم کی خوشبوآخری حصہ
پتھروں سے مراد تابکاری پتھر یا معدنیات ہیں جو شدید عذاب الٰہی کا موثر ذریعہ اور دوزخ کا ایندھن ہیں۔
شفیع حیدر نے نثر میں ہی نہیں شاعری میں بھی قرآنی واقعات کا ذکر موثر انداز میں کیا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے یہ اشعار:
ایسی کسی نے پائی نہ انکارکی سزا
اہل زمیں پہ آیا جوطوفان نوحؑ کا
حد نگاہ جو بھی تھا پانی میں کھوگیا
وہی بچے جو نوح کی کشتی میں تھے نشین
اللہ خود قرآن پاک میں فرما رہا ہے ''اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بنا لیا جائے بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے موجود ہیں اور ضروری احکام کی تفصیل ہے سب کتابوں کی۔ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اس میں پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔''
شفیع حیدرصدیقی کی کتاب 726 صفحات کا احاطہ کرتی ہے ہر ورق قرآن کی روشنی سے جگمگا رہا ہے وہ سورۃ بقرۃ آیت 24-23 کے حوالے سے اس طرح بتا رہے ہیں کہ اس سورۃ میں پتھروں کو ایندھن فرمایا گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پتھروں سے مراد تابکاری پتھر یا معدنیات ہیں جو شدید عذاب الٰہی کا موثر ذریعہ اور دوزخ کا ایندھن ہیں۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ سائنس دان مادے اور توانائی کی اکائی کو یوں لکھتے ہیں: MC2 جسے آئن اسٹائن مساوات کہتے ہیں یوں مٹھی بھر مادہ ناقابل یقین حد تک توانائی مہیا کرتا ہے جیساکہ یورینیم کے عنصر سے ایٹمی توانائی حاصل ہوتی ہے قیاس ہے کہ ایک گرام مادے سے توانائی کی مقدار اتنی حاصل ہوتی ہے جتنی 2500 ٹن کوئلہ جلانے سے۔ اس بات سے بھی سائنسی علوم کے ماہرین واقف ہیں کہ ہمارے سورج سے بہت بڑے بڑے ستارے، بلیک ہولز وغیرہ سب ہی میں کئی سو ملین سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہے تو ایسے میں دوزخ میں تابکاری مواد ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ سائنسدان تو سورۃ حمزہ کو ایٹمی توانائی اور ایٹمی گھر سے مشابہ قرار دیتے ہیں جہاں (حطمہ) ایٹم کے مشابہ ذرات کو آگ کی صورت بلند و بالا ستونوں میں قید کیا گیا ہے۔
مصنف نے سائنسی نوعیت کے مضامین قرآنی سورتوں کے حوالے سے اسی لیے لکھے ہیں کہ انسان ایسے انکشافات کی بدولت اللہ سے رجوع کرے، بہت سے سائنسی حقائق صدیوں ٹھوکریں کھانے کے بعد تحقیق کی راہوں میں بھٹک بھٹک کر حاصل کیے جاتے ہیں جب کہ وہ پہلے ہی سے قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مچھر کا ذکر بھی سورۃ بقرۃ میں ملتا ہے جسے ہم سائنسی طریقے سے تجربات کرتے ہیں۔
بیماریوں کے متعدد سلسلوں میں Germs theory of diseases موجودہ آلات اور لیبارٹریز کی سہولیات نے اس آیت نمبر 26 کو اور بھی اجاگر کردیا ہے۔ مصنف نے نہایت دردمندی اور افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ کاش! ہم اس سے معرفت الٰہی حاصل کرتے۔
''نئے موسم کی خوشبو''عمر برناوی کا شعری مجموعہ ہے، جو کافی عرصے سے میرے مطالعے میں ہے۔ مصنف کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی واقعات اور تاریخ کو لفظوں کا دلفریب و دلکش پیراہن عطا کیا ہے، دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں استعاروں کی زبان استعمال کی ہے وہاں آخری صفحات پر پورا واقعہ درج کردیا ہے گویا یہ اسلام کی مکمل تاریخ ہے کتاب ''نئے موسم کی خوشبو ''میں پیغمبروں اور صحابہ کرام کے بارے میں بے حد نفاست، محبت اور عقیدت کے ساتھ خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ 735 صفحات کی کتاب عظیم تاریخی ہستیوں کی سیرت اور حالات زندگی سے جگ مگ کر رہی ہے۔ یہ تحفہ خلوص جناب مر برناوی نے بذریعہ ڈاک ترسیل کیا تھا۔ جن کے لیے میں شکر گزار ہوں۔
ابتدا دعائیہ اشعار سے کروں گی۔ جوکہ عمر برناوی کی کاوش ہے۔
حضورؐ آپ کے در کا ادنیٰ غلام
جھکا سر ادب سے کروں میں سلام
حضرت نوحؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور تعمیر کعبہ، واقعہ معراج، غزوہ احد اور دوسرے اہم واقعات نے ''نئے موسم کی خوشبو'' کو معطر کردیا ہے۔ قوموں پر ان کی نافرمانی کے باعث آنے والے عذاب اور ان کی طرز زندگی کو بے حد نفاست اور فنی محاسن کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور شعری تقاضے کا حق ادا کر دیا ہے۔
استعارات، تشبیہات، ردیف و قافیے، ندرت بیان اور خیال کی وسعت، معنی آفرینی نے چار چاند لگا دیے ہیں دل سے نکلا ہوا ہر شعر دل میں اترتا ہے۔ پاکیزہ خیالات، متانت اور شائستگی اور الفاظ کو برتنے کے سلیقے نے شاعری کو قابل مطالعہ، قابل فہم بنادیا ہے۔ شاعری کا ایک ایسا تسلسل ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے۔
عمر برناوی کی شاعری معلومات کے خزانے سے پر ہے، انھیں اسلامی تاریخ سے لگاؤ ہے، بڑی توجہ اور دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور پھر مطالعہ کو اپنی علمیت و قابلیت کو خوشبو کی مانند صفحات پر بکھیر دیا۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ عمر برناوی کی شاعری بے حد توانا ہے ہر شعر ہر لفظ اپنے اندر اثر رکھتا ہے جو قاری کے ذہن کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا ہے یہی دلیل ان کی شاعری کے لیے روز روشن کی طرح چمکدار اور پروقار ہے۔
نبیوں اور پیغمبروں کے واقعات کو یکجا کرکے ایک ہی لڑی میں پھولوں کی طرح پرو دیا گیا ہے، ان پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہیں جو اللہ کے نافرمان بندوں نے اپنے ہاتھوں بوئے ہیں نوحؑ کے نافرمان بیٹے کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں:
مگر میرا بیٹا فنا ہوگیا
میں رنجیدہ اس کے بنا ہوگیا
یہ تھی محبت پدری، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت نوحؑ کو جواب دیا کہ:
تو پھر نوحؑ کو رب نے تنبیہہ کی
نہ تم نام لینا پھر اس کا کبھی
ڈرے رب سے پھر نوحؑ توبہ کری
مجھے معاف کردے' تھی غلطی مری
ایسی کسی نے پائی نہ انکارکی سزا
اہل زمیں پہ آیا جوطوفان نوحؑ کا
حد نگاہ جو بھی تھا پانی میں کھوگیا
وہی بچے جو نوح کی کشتی میں تھے نشین
اللہ خود قرآن پاک میں فرما رہا ہے ''اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بنا لیا جائے بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے موجود ہیں اور ضروری احکام کی تفصیل ہے سب کتابوں کی۔ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اس میں پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔''
شفیع حیدرصدیقی کی کتاب 726 صفحات کا احاطہ کرتی ہے ہر ورق قرآن کی روشنی سے جگمگا رہا ہے وہ سورۃ بقرۃ آیت 24-23 کے حوالے سے اس طرح بتا رہے ہیں کہ اس سورۃ میں پتھروں کو ایندھن فرمایا گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پتھروں سے مراد تابکاری پتھر یا معدنیات ہیں جو شدید عذاب الٰہی کا موثر ذریعہ اور دوزخ کا ایندھن ہیں۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ سائنس دان مادے اور توانائی کی اکائی کو یوں لکھتے ہیں: MC2 جسے آئن اسٹائن مساوات کہتے ہیں یوں مٹھی بھر مادہ ناقابل یقین حد تک توانائی مہیا کرتا ہے جیساکہ یورینیم کے عنصر سے ایٹمی توانائی حاصل ہوتی ہے قیاس ہے کہ ایک گرام مادے سے توانائی کی مقدار اتنی حاصل ہوتی ہے جتنی 2500 ٹن کوئلہ جلانے سے۔ اس بات سے بھی سائنسی علوم کے ماہرین واقف ہیں کہ ہمارے سورج سے بہت بڑے بڑے ستارے، بلیک ہولز وغیرہ سب ہی میں کئی سو ملین سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہے تو ایسے میں دوزخ میں تابکاری مواد ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ سائنسدان تو سورۃ حمزہ کو ایٹمی توانائی اور ایٹمی گھر سے مشابہ قرار دیتے ہیں جہاں (حطمہ) ایٹم کے مشابہ ذرات کو آگ کی صورت بلند و بالا ستونوں میں قید کیا گیا ہے۔
مصنف نے سائنسی نوعیت کے مضامین قرآنی سورتوں کے حوالے سے اسی لیے لکھے ہیں کہ انسان ایسے انکشافات کی بدولت اللہ سے رجوع کرے، بہت سے سائنسی حقائق صدیوں ٹھوکریں کھانے کے بعد تحقیق کی راہوں میں بھٹک بھٹک کر حاصل کیے جاتے ہیں جب کہ وہ پہلے ہی سے قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مچھر کا ذکر بھی سورۃ بقرۃ میں ملتا ہے جسے ہم سائنسی طریقے سے تجربات کرتے ہیں۔
بیماریوں کے متعدد سلسلوں میں Germs theory of diseases موجودہ آلات اور لیبارٹریز کی سہولیات نے اس آیت نمبر 26 کو اور بھی اجاگر کردیا ہے۔ مصنف نے نہایت دردمندی اور افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ کاش! ہم اس سے معرفت الٰہی حاصل کرتے۔
''نئے موسم کی خوشبو''عمر برناوی کا شعری مجموعہ ہے، جو کافی عرصے سے میرے مطالعے میں ہے۔ مصنف کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی واقعات اور تاریخ کو لفظوں کا دلفریب و دلکش پیراہن عطا کیا ہے، دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں استعاروں کی زبان استعمال کی ہے وہاں آخری صفحات پر پورا واقعہ درج کردیا ہے گویا یہ اسلام کی مکمل تاریخ ہے کتاب ''نئے موسم کی خوشبو ''میں پیغمبروں اور صحابہ کرام کے بارے میں بے حد نفاست، محبت اور عقیدت کے ساتھ خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ 735 صفحات کی کتاب عظیم تاریخی ہستیوں کی سیرت اور حالات زندگی سے جگ مگ کر رہی ہے۔ یہ تحفہ خلوص جناب مر برناوی نے بذریعہ ڈاک ترسیل کیا تھا۔ جن کے لیے میں شکر گزار ہوں۔
ابتدا دعائیہ اشعار سے کروں گی۔ جوکہ عمر برناوی کی کاوش ہے۔
حضورؐ آپ کے در کا ادنیٰ غلام
جھکا سر ادب سے کروں میں سلام
حضرت نوحؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور تعمیر کعبہ، واقعہ معراج، غزوہ احد اور دوسرے اہم واقعات نے ''نئے موسم کی خوشبو'' کو معطر کردیا ہے۔ قوموں پر ان کی نافرمانی کے باعث آنے والے عذاب اور ان کی طرز زندگی کو بے حد نفاست اور فنی محاسن کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور شعری تقاضے کا حق ادا کر دیا ہے۔
استعارات، تشبیہات، ردیف و قافیے، ندرت بیان اور خیال کی وسعت، معنی آفرینی نے چار چاند لگا دیے ہیں دل سے نکلا ہوا ہر شعر دل میں اترتا ہے۔ پاکیزہ خیالات، متانت اور شائستگی اور الفاظ کو برتنے کے سلیقے نے شاعری کو قابل مطالعہ، قابل فہم بنادیا ہے۔ شاعری کا ایک ایسا تسلسل ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے۔
عمر برناوی کی شاعری معلومات کے خزانے سے پر ہے، انھیں اسلامی تاریخ سے لگاؤ ہے، بڑی توجہ اور دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور پھر مطالعہ کو اپنی علمیت و قابلیت کو خوشبو کی مانند صفحات پر بکھیر دیا۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ عمر برناوی کی شاعری بے حد توانا ہے ہر شعر ہر لفظ اپنے اندر اثر رکھتا ہے جو قاری کے ذہن کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا ہے یہی دلیل ان کی شاعری کے لیے روز روشن کی طرح چمکدار اور پروقار ہے۔
نبیوں اور پیغمبروں کے واقعات کو یکجا کرکے ایک ہی لڑی میں پھولوں کی طرح پرو دیا گیا ہے، ان پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہیں جو اللہ کے نافرمان بندوں نے اپنے ہاتھوں بوئے ہیں نوحؑ کے نافرمان بیٹے کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں:
مگر میرا بیٹا فنا ہوگیا
میں رنجیدہ اس کے بنا ہوگیا
یہ تھی محبت پدری، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت نوحؑ کو جواب دیا کہ:
تو پھر نوحؑ کو رب نے تنبیہہ کی
نہ تم نام لینا پھر اس کا کبھی
ڈرے رب سے پھر نوحؑ توبہ کری
مجھے معاف کردے' تھی غلطی مری