انسانی حقوق کی صورت حال
خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے
KARACHI:
خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس پر''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا لیبل لگا ہوا ہے۔اس سے قطع نظرکہ صورت حال کوکس نام سے منسوب کیا جاتا ہے، ہم بلا شبہ حالت جنگ میں ہیں اور اختیارات پر شائستہ انداز میں قبضے کے ذریعے غیراعلانیہ ہنگامی حالت نافذ ہے۔اصل اقتدار اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل ہوچکا ہے ۔حکومت کی طرف سے فیصلے اوراہلیت کا مظاہرہ نہ کرنے کی وجہ اخلاقی ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ عسکریت پسند غیر ریاستی اداکاروں سے نمٹنے کا اختیار ہمیشہ راولپنڈی کے پاس رہا ہے۔
آئیے! ان حقائق پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں، جو اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ملک حالت ِ جنگ میں ہے۔بلوچستان میں جو رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا اورآبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے،علیحدگی کے نام پر چوتھی عسکریت پسند تحریک چل رہی ہے، جسے اب ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ ہونے والا ہے۔اسٹیبلشمنٹ نے اس کے ساتھ سیاسی انداز میں نمٹنے کی بجائے، ہمیشہ غلط طور پر اس کا طاقت کے استعمال کے طریقوں سے حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔آزادی کے نعرے میں اتنی کشش ہے کہ جو بلوچ حکومت کے ساتھ ہیں وہ بھی نجی گفتگو میں علیحدگی کی بات کرتے ہیں، مگر انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ جب تک جغرافیائی وسیاسی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی، مستقبل قریب میں ان کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ مزاحمت دم توڑ رہی ہے، اب ڈاکٹر اللہ نذرکی قیادت میں صرف بلوچستان لبریشن آرمی میدان میں ہے مگر اسے بھی بری طرح سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان کے آزاد ذرائع اس بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا صوبہ غیر بلوچ قوتوں کے محاصرے میں ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک محدود سطح کی جنگ جاری رہنے کا امکان ہے۔
ایک بلوچ خاتون نے مجھے بتایا کہ گوادر میں ، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) کا محور ہے، حد سے زیادہ نگران چوکیاں ہیں ۔اس خاتون کوگوادر سے تربت جانے کے لیے بذریعہ طیارہ کراچی آنا پڑا، حالانکہ پر امن حالات میں ان دونوں شہروں کے درمیان یہ فاصلہ گاڑی میں دو سے ڈھائی گھنٹوں میں طے ہو جاتا تھا۔فعال کارکن اب بھی اغوا ہو رہے ہیں اور ان کی لاشیں پورے صوبے سے ملتی ہیں۔
ان حالات میں قومی سلامتی کے نام پر تعزیر سے استثنا ء کے ساتھ ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔جب ایسی صورت حال ہوتو انسانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، صرف علاقہ اہم ہوتا ہے۔یہ افسوس کی بات ہے۔وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے(FATA) میں اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔کیوں کہ ان لوگوں کے نظریاتی ساتھی تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے لڑائی کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔فاٹا کی اس لڑائی نے جنگ زدہ علاقے کے لوگوں کووہاں سے نکلنے پر مجبورکردیا ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے داخلی طور پر بے گھر ایک ایسے ہی شخص کا کہنا ہے کہ اجازت ملنے کے بعد وہ واپس اپنے علاقے میں گیا، مگر وہ جوکچھ بھی وہاں چھوڑ کر آیا تھا وہ طالبان کے خلافآپریشن میں تباہ ہو چکا تھا۔ایک بزرگ پشتون نے بتایا کہ جب آپریشن شروع ہوا اورمیر علی اور میرم شاہ کے لوگوں کو ایک مختصر نوٹس پر وہاں سے نکلنے کوکہا گیا تو وہ لوگ سامان سے اچھی طرح بھری ہوئی 11,000 دکانیں چھوڑ کر آئے تھے ۔مگر جب وہ اپنے علاقے میں واپس گئے تو بیشتر دکانیں منہدم ہو چکی تھیں اور سامان لُٹ چکا تھا۔فاٹا کے عوام نے طالبان کے ظلم و جبر سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضرب ِ عضب کی حمایت کی تھی مگر اب وہ اپنی بحالی کے لیے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد فراہم نہ کرنے اور نقصانات کا کوئی معاوضہ ادا نہ کیے جانے پر ناراض ہیں۔
لاہور میںحقوق ِ انسانی کمیشن پاکستان(HRCP) کے سالانہ سیمینار میں شریک ہونے والے تقریباًتمام فعال کارکنوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی ۔مگر انھیں شفافیت کے فقدان پر تشویش بھی ہے کیوں کہ آپریشن کے بارے میں کوئی غیر جانبدار رپورٹنگ نہیں ہو رہی۔ صرف سرکاری اطلاعات ہی آ رہی ہیں۔ زیادہ تر مقابلوں کے بارے میں پورے ملک سے ملنے والی رپورٹوں کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔
جو کچھ بھی سننے کو ملتا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ موقف ہوتا ہے کہ دہشت گرد مقابلے میں مارے گئے۔نہ تو میڈیا ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے پس منظر کی تحقیقات کی جرات کرتا ہے اور نہ عدالت میں ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ مبینہ شر پسند، دہشت گرد تھے اور انھوں نے واقعی پولیس/ رینجرز پر گولی چلائی تھی۔ ایسے واقعات میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک یا زخمی ہوتے ہیں، سرکاری موقف زیادہ معتبر ہوتا ہے۔
صرف اتنی سی بات نہیں ہے، حقوق انسانی کے کارکنوں کو اس حقیقت کے بارے میں بھی تشویش ہے کہ ملک حقیت میں ہنگامی حالت (ڈی فیکٹو ایمرجنسی) میں ہے۔تحفظ پاکستان ایکٹ(POPA) کا نفاذاور21 ویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام اس نکتے کو ثابت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے اتفاق ِ رائے کے ساتھ ان قوانین کی منظوری دی گئی تھی۔ حقوق انسانی کی چیمپئن عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حاصل کردہ غیر معمولی اختیارات اس امر کو ناگزیر بناتے ہیں کہ ان وسیع اختیارات کو شفافیت اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ظفر محمود کا خیال ہے کہ عدالتوں کو یہ امر یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے ان ہنگامی اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو ، مگر قانونی راستہ مشکل اور طویل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت کسی شخص کو غلط طور پرگرفتار کرلیا جاتا ہے تو بھی اسے90 روز تک نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ، ایجنسیاں الزامات کو اس طرح سے ظاہر کرتی ہیں جیسے کہ یہ ثابت شدہ حقائق ہوں۔ پھر میڈیا میں اس کا چرچا اس طرح سے ہوتا ہے کہ مقدمہ چلے بغیر ملزم کی شہرت خراب ہوجاتی ہے۔اگر کسی کو عدالت سے ریلیف مل بھی جائے تو بھی یہ سب کچھ90 دن کے بعد ہوتا ہے۔ایسے بد قسمت انسان کی ذہنی اذیت، نظر بندی کی مدت اور ساکھ برباد ہونے کی تلافی کون کرے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ آپریشنوں کے نتیجے میںدہشت گرد حملوں کی تعداد کم ہو چکی ہے، مگر اب دہشت گرد حملے زیادہ مہلک ہوگئے ہیں۔فوج کے محکمہ تعلقات عامہ(ISPR) کی طرف سے سلیقے سے چلائی جانے والی مہم سے اسے عوام کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔تاہم اس جنگ میں جن لوگوں کے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں وہ، اور انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے کارکن شفافیت اور عدلیہ کی بروقت نگرانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس پر''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا لیبل لگا ہوا ہے۔اس سے قطع نظرکہ صورت حال کوکس نام سے منسوب کیا جاتا ہے، ہم بلا شبہ حالت جنگ میں ہیں اور اختیارات پر شائستہ انداز میں قبضے کے ذریعے غیراعلانیہ ہنگامی حالت نافذ ہے۔اصل اقتدار اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل ہوچکا ہے ۔حکومت کی طرف سے فیصلے اوراہلیت کا مظاہرہ نہ کرنے کی وجہ اخلاقی ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ عسکریت پسند غیر ریاستی اداکاروں سے نمٹنے کا اختیار ہمیشہ راولپنڈی کے پاس رہا ہے۔
آئیے! ان حقائق پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں، جو اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ملک حالت ِ جنگ میں ہے۔بلوچستان میں جو رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا اورآبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے،علیحدگی کے نام پر چوتھی عسکریت پسند تحریک چل رہی ہے، جسے اب ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ ہونے والا ہے۔اسٹیبلشمنٹ نے اس کے ساتھ سیاسی انداز میں نمٹنے کی بجائے، ہمیشہ غلط طور پر اس کا طاقت کے استعمال کے طریقوں سے حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔آزادی کے نعرے میں اتنی کشش ہے کہ جو بلوچ حکومت کے ساتھ ہیں وہ بھی نجی گفتگو میں علیحدگی کی بات کرتے ہیں، مگر انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ جب تک جغرافیائی وسیاسی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی، مستقبل قریب میں ان کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ مزاحمت دم توڑ رہی ہے، اب ڈاکٹر اللہ نذرکی قیادت میں صرف بلوچستان لبریشن آرمی میدان میں ہے مگر اسے بھی بری طرح سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان کے آزاد ذرائع اس بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا صوبہ غیر بلوچ قوتوں کے محاصرے میں ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک محدود سطح کی جنگ جاری رہنے کا امکان ہے۔
ایک بلوچ خاتون نے مجھے بتایا کہ گوادر میں ، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) کا محور ہے، حد سے زیادہ نگران چوکیاں ہیں ۔اس خاتون کوگوادر سے تربت جانے کے لیے بذریعہ طیارہ کراچی آنا پڑا، حالانکہ پر امن حالات میں ان دونوں شہروں کے درمیان یہ فاصلہ گاڑی میں دو سے ڈھائی گھنٹوں میں طے ہو جاتا تھا۔فعال کارکن اب بھی اغوا ہو رہے ہیں اور ان کی لاشیں پورے صوبے سے ملتی ہیں۔
ان حالات میں قومی سلامتی کے نام پر تعزیر سے استثنا ء کے ساتھ ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔جب ایسی صورت حال ہوتو انسانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، صرف علاقہ اہم ہوتا ہے۔یہ افسوس کی بات ہے۔وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے(FATA) میں اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔کیوں کہ ان لوگوں کے نظریاتی ساتھی تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے لڑائی کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔فاٹا کی اس لڑائی نے جنگ زدہ علاقے کے لوگوں کووہاں سے نکلنے پر مجبورکردیا ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے داخلی طور پر بے گھر ایک ایسے ہی شخص کا کہنا ہے کہ اجازت ملنے کے بعد وہ واپس اپنے علاقے میں گیا، مگر وہ جوکچھ بھی وہاں چھوڑ کر آیا تھا وہ طالبان کے خلافآپریشن میں تباہ ہو چکا تھا۔ایک بزرگ پشتون نے بتایا کہ جب آپریشن شروع ہوا اورمیر علی اور میرم شاہ کے لوگوں کو ایک مختصر نوٹس پر وہاں سے نکلنے کوکہا گیا تو وہ لوگ سامان سے اچھی طرح بھری ہوئی 11,000 دکانیں چھوڑ کر آئے تھے ۔مگر جب وہ اپنے علاقے میں واپس گئے تو بیشتر دکانیں منہدم ہو چکی تھیں اور سامان لُٹ چکا تھا۔فاٹا کے عوام نے طالبان کے ظلم و جبر سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضرب ِ عضب کی حمایت کی تھی مگر اب وہ اپنی بحالی کے لیے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد فراہم نہ کرنے اور نقصانات کا کوئی معاوضہ ادا نہ کیے جانے پر ناراض ہیں۔
لاہور میںحقوق ِ انسانی کمیشن پاکستان(HRCP) کے سالانہ سیمینار میں شریک ہونے والے تقریباًتمام فعال کارکنوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی ۔مگر انھیں شفافیت کے فقدان پر تشویش بھی ہے کیوں کہ آپریشن کے بارے میں کوئی غیر جانبدار رپورٹنگ نہیں ہو رہی۔ صرف سرکاری اطلاعات ہی آ رہی ہیں۔ زیادہ تر مقابلوں کے بارے میں پورے ملک سے ملنے والی رپورٹوں کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔
جو کچھ بھی سننے کو ملتا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ موقف ہوتا ہے کہ دہشت گرد مقابلے میں مارے گئے۔نہ تو میڈیا ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے پس منظر کی تحقیقات کی جرات کرتا ہے اور نہ عدالت میں ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ مبینہ شر پسند، دہشت گرد تھے اور انھوں نے واقعی پولیس/ رینجرز پر گولی چلائی تھی۔ ایسے واقعات میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک یا زخمی ہوتے ہیں، سرکاری موقف زیادہ معتبر ہوتا ہے۔
صرف اتنی سی بات نہیں ہے، حقوق انسانی کے کارکنوں کو اس حقیقت کے بارے میں بھی تشویش ہے کہ ملک حقیت میں ہنگامی حالت (ڈی فیکٹو ایمرجنسی) میں ہے۔تحفظ پاکستان ایکٹ(POPA) کا نفاذاور21 ویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام اس نکتے کو ثابت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے اتفاق ِ رائے کے ساتھ ان قوانین کی منظوری دی گئی تھی۔ حقوق انسانی کی چیمپئن عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حاصل کردہ غیر معمولی اختیارات اس امر کو ناگزیر بناتے ہیں کہ ان وسیع اختیارات کو شفافیت اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ظفر محمود کا خیال ہے کہ عدالتوں کو یہ امر یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے ان ہنگامی اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو ، مگر قانونی راستہ مشکل اور طویل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت کسی شخص کو غلط طور پرگرفتار کرلیا جاتا ہے تو بھی اسے90 روز تک نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ، ایجنسیاں الزامات کو اس طرح سے ظاہر کرتی ہیں جیسے کہ یہ ثابت شدہ حقائق ہوں۔ پھر میڈیا میں اس کا چرچا اس طرح سے ہوتا ہے کہ مقدمہ چلے بغیر ملزم کی شہرت خراب ہوجاتی ہے۔اگر کسی کو عدالت سے ریلیف مل بھی جائے تو بھی یہ سب کچھ90 دن کے بعد ہوتا ہے۔ایسے بد قسمت انسان کی ذہنی اذیت، نظر بندی کی مدت اور ساکھ برباد ہونے کی تلافی کون کرے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ آپریشنوں کے نتیجے میںدہشت گرد حملوں کی تعداد کم ہو چکی ہے، مگر اب دہشت گرد حملے زیادہ مہلک ہوگئے ہیں۔فوج کے محکمہ تعلقات عامہ(ISPR) کی طرف سے سلیقے سے چلائی جانے والی مہم سے اسے عوام کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔تاہم اس جنگ میں جن لوگوں کے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں وہ، اور انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے کارکن شفافیت اور عدلیہ کی بروقت نگرانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔