بلوچستان کی صورتحال اور زمینی حقائق

اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی چیز اگر ناگزیر ہے تو وہ بلوچستان ہے ۔


Editorial November 14, 2012
پیپلز پارٹی بلوچستان نےمرکزی قیادت سے صوبائی حکومت کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: پی پی آئی

وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی پر اعتماد کی قرارداد بلوچستان اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

قرارداد بی این پی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر احسان شاہ نے پیش کی جس کی بلوچستان اسمبلی میں موجود تمام 44 ارکان نے حمایت کی جب کہ پیپلز پارٹی بلوچستان نے صوبائی حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں غیر آئینی و غیرقانونی قرار دیتے ہوئے مرکزی قیادت سے مطالبہ کیا ہے وہ صوبائی حکومت کے خلاف اقدام اٹھائے۔ پارٹی کی صوبائی کونسل کا اجلاس صوبائی صدر صادق عمرانی کی صدارت میں ہوا جس میں صوبائی جنرل سیکریٹری آیت اللہ درانی، صوبائی وزراء جان علی چنگیزی، غزالہ، صوبائی اور ضلعی عہدیداروں نے شرکت کی۔


قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعد صوبائی حکومت اپنی اہلیت کھو چکی ہے۔ آئینی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ اور صوبائی حکومت پر اعتماد کے ووٹ کے بعد بلوچستان کی غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر سیاسی،آئینی اور انتظامی بحران کی شدت میں اضافہ کا اندیشہ ہے اس لیے حکومت کی طرف سے اس آزمائش میں کوئی بھی فیصلہ عجلت میں نہیں ہونا چاہیے۔صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف صوبے کے قائم مقام گورنر اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے منگل کو بلائے گئے اجلاس کو منسوخ کر دیا تھا تاہم اس کے بعد اسمبلی کے قائم مقام اسپیکر سید مطیع اللہ آغا نے منگل کو ہی دوبارہ اجلاس طلب کر لیا ۔

یہ سیاسی کشمکش بظاہر جمہوری دائرہ کار میں بتائی جاتی ہے مگر منتخب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ اور اس کے قانونی و آئینی مضمرات کی سنگینی اس لیے قابل غور ہے کہ جس پارٹی کی اتحادی حکومت ہے اسی حکمراں جماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کی حکومت غیر آئینی ہے اور اس کے خلاف پارٹی قیادت کارروائی کرے۔ ادھر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں حکومت اپنا آئینی جواز کھو چکی ہے اور اس قانونی نکتہ پر عدالت عظمیٰ نے عبوری حکم واپس لینے کی حکومتی استدعا مسترد بھی کردی اور قرار دیا کہ فیصلہ نافذ العمل ہے چنانچہ سپریم کورٹ کے صوبے میں حکومتی اتھارٹی کے جواز کے حوالے سے استفسار پر معاملہ مزید گمبھیر ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس ایبٹ آباد بار سے خطاب میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ بادی النظر میں صوبائی اسمبلی سے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کا اعتماد کا ووٹ لینا حکومت کی طرف سے غالباً اپنی اتھارٹی شو کرنے کا عندیہ ہے تاہم دشت بلوچستان میں ابھی مزید بگولے اٹھنے کے کئی سمت سے اشارے مل رہے ہیں جن کا حل سیاسی ہی ہونا چاہیے کیونکہ عدلیہ نے قانون اور آئین کی حکمرانی کا قوم سے عہد کیا ہے اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اس لیے بلوچستان کی سیاست سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ ، جمہوری قوتوں اور قبائلی سرداروں کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی محتاج ہے۔ سارے اسٹیک ہولڈرز کوادراک کرنا چاہیے کہ عدالتی احکامات کی پابندی سے ہی جمہوری اداروں کی نشوونما ممکن ہے۔

تصادم اور محاذ آرائی صوبہ کی سیاسی فضا کو مزید خراب کردیگی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام طاقتور گروہوں اور سیاسی ، قبائلی اور قانونی کشمکش میں جمہوری ثمرات سے محروم رہ جائیں ۔ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس تاریخ ساز تھا جو قوتیں ایوان پر شب خون مارنا چاہتی تھیں انھیں مخلوط حکومت نے ناکام بنا دیا، ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں، سب آئین و قانون کی بالادستی اور عملداری کے قیام پر یقین رکھتے ہیں اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا ہے جب کہ قائم مقام گورنر اسلم بھوتانی کا موقف ہے کہ اسمبلی کا اجلاس ارکان اسمبلی بلا سکتے ہیں، وزراء نہیں۔ انھوں نے کہا کہ بحیثیت گورنر وہ اسمبلی کے اجلاس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

اس لیے صوبائی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اگر سپریم کورٹ نے ایک اور آرڈر پاس کر دیا تو اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کی مثال سامنے ہے۔اس پس منظر میں مبصرین بلوچستان میں سیاسی اقدامات کے کئی بگولے اٹھتے دیکھ رہے ہیں جن میں ایک اسپیکر اسلم بھوتانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا امکان ہے اور اس حوالے سے مختلف جماعتوں نے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں جب کہ اسلم بھوتانی اسلام آباد پہنچ گئے ۔

ادھر پیپلزپارٹی بلوچستان نے صوبائی حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں غیر آئینی و غیرقانونی قرار دیتے ہوئے مرکزی قیادت سے صوبائی حکومت کے خلاف اقدام اٹھانے کا جو تند وتیز مطالبہ کیا ہے اس کے اثرات بھی لائق توجہ ہیں ۔پیپلز پارٹی کی صوبائی کونسل کا اجلاس صوبائی صدر صادق عمرانی کی صدارت میں ہوا جس میں صوبائی جنرل سیکریٹری آیت اللہ درانی، صوبائی وزراء جان علی چنگیزی، غزالہ، صوبائی اور ضلعی عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں شرکاء نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں صوبائی حکومت کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اجلاس میں مختلف قراردادیں بھی منظور کی گئیں جن میں گورنر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور نئے قائد ایوان کا انتخاب کرایا جائے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعد صوبائی حکومت اپنی اہلیت کھو چکی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں عدلیہ کے فیصلہ سے انحراف کی مہم جوئی سے گریز ایک دانشمندانہ مشورہ ہے ۔ صوبہ میں سازگار سیاسی فضا بنانے کے لیے سیاسی حلقوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹرٹیجک گہرائی سمیت، ہمسایوں سے تعلقات میں بہتری، داخلی مسائل کے حل کے لیے روادارانہ اقدامات پر توانائی صرف کی جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو سامنے بٹھا کر بات چیت کا دروازہ کھولا جائے قبل اس کے کہ دیرہوجائے۔حکمرانوں کو جنہیں بلا شبہ چومکھی لڑائی کا سامنا ہے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی چیز اگر ناگزیر ہے تو وہ بلوچستان ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں