عذاب ایسا کسی اور پر نہیں آیا۔۔۔۔

کراچی میں گھریلو وارداتوں کے علاوہ بسوں اور ویگنوں میں موبائل اور نقدی چرانے کی وارداتیں الگ ہیں۔

کراچی ایک بار پھرلہو لہان ہے، وہ کون سی نادیدہ طاقتیں ہیں جن کی بقاء اسی میں ہے کہ پورے پاکستان کو کما کر دینے والا شہر مسلسل بدامنی اور دہشت گردی کا شکار رہے؟ کون سا دن جاتا ہے جب اس شہرِ بے اماں سے آٹھ نو جنازے نہ اُٹھتے ہوں؟ مرنے والے مختلف فرقوں سے ہو سکتے ہیں، لیکن میرے لیے یہ صرف انسان ہیں جن کے خون کا رنگ اور کفن کا رنگ یکساں ہے۔

صحافت کا ایک اُصول کبھی یہ بھی تھا کہ ایسے موقعوں پر فرقہ، مسلک اور فقہہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ اگر کسی مقتول کے نام سے اس کے مسلک یا مذہب کا پتہ چل رہا ہو تو نام نہ دیا جائے، کیونکہ اس سے اشتعال پھیلتا ہے۔آخر مرنے والوں کو صرف انسان کی حیثیت سے شناخت کیوں نہیں کیا جاتا؟ شاید اس لیے کہ اب ہم آزاد ہیں۔ یک جہتی اور اتحاد کی ضرورت منقسم ہندوستان میں تھی، لیکن اب اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ خواہ ہمارے حکمران ہوں، سیاستدان ہوں یا ہمارا ''آزاد'' میڈیا، سب کی اپنی ڈفلی، اپنا راگ ہے۔ یہ راگ ہے نفرتوں کا، اپنی اپنی لسانی شناخت، صوبائی پہچان، برادری، جرگہ اور قبائلی سسٹم کے اندھے کنوؤں میں قید جعلی اور برسوں سے آزاد پرانے پاپی نئی ڈفلی اور نئے راگ کے ساتھ میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔

شاید اسی مقصد کے لیے کراچی کا امن تہہ و بالا کیا جارہا ہے کہ الیکشن کچھ عرصے کے لیے ملتوی کردیے جائیں، یہ امریکا تو ہے نہیں جو آندھی آئے، طوفان آئے، زلزلہ آئے یا سیلاب آئے، لیکن الیکشن ہمیشہ نومبر کے پہلے ہفتے کے پہلے منگل ہی کو ہوں گے۔ کراچی پر پچھلے چند ماہ سے ایک افتاد آن پڑی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ، جن میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں۔ یہ اس صفائی اور اتنی چالاکی سے واردات کرتے ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ملنے جلنے والوں کے توسط سے کچھ ایسے واقعات سامنے آئے کہ میں نے بہتر سمجھا انھیں قارئین کی نذر کروں، تاکہ کسی ناگہانی آفت سے بچا جاسکے، بڑے شہر جرائم پیشہ افراد کی جنت ہوتے ہیں۔ پہلا واقعہ گلشن اقبال میں پیش آیا۔ گھر میں کل پانچ افراد، میاں بیوی، والدہ اور تین بچے۔

بچوں کی عمریں 22 سال، 18 سال اور 15 سال، گھر میں دو دن پہلے کام والی پنجاب چلی گئی تھی، خاتون خانہ نئی ماسی کی تلاش میں سرگرداں تھیں کہ تین دن بعد اوڈھ عورتیں آئیں اور نوکری مانگی، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، انھوں نے فوراً اندر بلالیا، ان میں سے ایک عورت نے بتایا کہ وہ تین گلیاں چھوڑ کر ڈاکٹر چوہدری اسلم کے ہاں ملازم ہیں۔ صبح 9 بجے سے شام 7بجے تک وہاں کام کرتی ہیں۔ اسے پتہ چلا تھا کہ ان کے گھر ماسی کی ضرورت ہے، اس لیے بہن کو لے آئی۔

خاتون نے نہ کوئی اور معلومات کی، نہ شناختی کارڈ کی کاپی طلب کی اور نہ ہی چوہدری اسلم کے گھر جاکر تصدیق کی۔ جب کہ مذکورہ عورت نے کہا بھی کہ اگر بہن کا کام پسند آجائے تو وہ انھیں وہ گھر دکھا دے گی جہاں وہ کام کرتی ہے۔ آزمائشی طور پر پہلے دن کام کرنے کو کہا گیا۔ کھانا، کپڑے کے ساتھ تین ہزار میں بات ہوئی، صبح 10 بجے تا شام 6 بجے تک۔ پہلے ہی دن اس عورت نے گھر کی صفائی ایسی کی کہ گھر کو چمکادیا۔ برتن بھی جگمگ جگمگ کرنے لگے، دروازے، پنکھے اس نے خود صاف کیے اور دوپہر دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد خاتون خانہ کی ساس کی ٹانگیں بھی دبائیں اور دعائیں بھی لیں۔


اگلے دن سے نوکری پکی ہوگئی، تنخواہ میں ایک ہزارکا اضافہ اس پر کردیا گیا کہ وہ بزرگ خاتون کی ٹانگوں کا مساج بھی کردے گی۔ دو دن گزر گئے، تیسرا دن تھا، گھر میں کتّا بھی پلا ہوا ہے، بڑا بیٹا دونوں بہنوں کو کالج چھوڑ کر خود یونیورسٹی جاتا تھا، اس دن اس نے پہلے کتّے کو نہلایا اور ماں سے کہہ گیا کہ تھوڑی دیر بعد وہ کتّے کو باندھ دیں، کیونکہ دن میں وہ عموماً زنجیر میں قید رہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ماسی آگئی اس نے کچن کا رخ کیا، تھوڑی ہی دیر بعد گھنٹی بجی، ماسی دوڑ کر گیٹ پر گئی اور اپنی بہن کو ساتھ لے آئی، وہ اپنی بہن کی کارکردگی پوچھنے آئی تھی، بڑی دیر تک چپڑ چپڑ باتیں کرتی رہی اور ساس بہو کو اپنی باتوں سے ایسا مسحور کیا کہ انھیں پتہ ہی نہ چلا کہ ماسی نے کب بہو بیگم کو پیچھے سے آکر دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا اور چرب زبان بہن نے جیب سے تیز دھار والا چاقو نکال کر ساس کی پسلی میں چبھو دیا، وہ خوفزدہ ہوکر بستر پر گرگئیں۔

ماسی نے خاتون خانہ کا منہ دوپٹے سے کس کر باندھ دیا، دونوں ساس بہوؤں کے منہ سے دل خراش چیخیں نکلنے لگیں، ماسی نے کفگیر اُٹھا کر ان کے سر پر مارا وہ اور زور سے چیخیں۔۔۔۔۔۔اور اس وقت گھر کا پلا کتّا جسے خاتون باندھنا بھول گئی تھیں، اچانک گھر میں گھس آیا اور دونوں ماسیوں پر پنجوں سے حملہ کردیا اور ان کے کندھے بھنبھوڑ ڈالے۔ دونوں جان بچا کر گیٹ کی طرف بھاگیں تو کتّا بھی ان کے پیچھے ہولیا اور دور تک ان کا پیچھا کیا، لیکن یہ چیخ وپکار سن کر آس پاس کے گھروں سے کوئی بھی نہ نکلا۔

خاتون نے شوہر کو فون کرکے صورتحال بتائی، وہ بھاگے بھاگے گھر آئے اور بیوی کے ساتھ چوہدری ڈاکٹر اسلم کا گھر ڈھونڈتے رہے، لیکن وہاں دور دور تک اس نام کا کوئی ڈاکٹر نہ تھا۔دوسرا سانحہ یوں پیش آیا کہ ایک عورت کپڑا بیچنے آئی۔ ایک خاتون کو ڈبل جارجٹ پسند آئی، بازار کے مقابلے میں قیمت کم تھی، بھاؤ تاؤ کے بعد انھوں نے دو سوٹوں کی ڈبل جارجٹ اور ایک سوٹ کی سوئس کاٹن خریدی۔ گھر میں وہ اس وقت اکیلی تھیں، دوپہر کے بارہ بجنے والے تھے، کپڑا دینے کے بعد اس عورت نے پینے کے لیے پانی مانگا تو انھوں نے گلاس بھر کے پانی دیا۔ پانی پی کر وہ جانے کے لیے اُٹھی تو خاتون سے منت کرتے ہوئے کہنے لگی کہ وہ شوگر کی مریض ہے اس لیے اسے باتھ روم جانے کی اجازت دی جائے، انھوں نے اسے اندر بلالیا، عورت نے اپنا کپڑوں کا گھٹڑ ان کے گیٹ کے اندر رکھا، واش روم گئی اور وہاں سے چند منٹ بعد نکلی تو غش کھا کر گر پٹی۔

خاتون گھبرا گئیں انھوں نے سہارا دے کر بستر پر لٹادیا، تو وہ بولی کہ آج وہ اپنی دوا کھانا بھول گئی تھی، صبح سے چونکہ بھوکی ہے اس لیے غش آگیا، خاتون نے رحم کھا کر اسے چائے اور بسکٹ لا کر دیے۔اس نے مزے لے لے کر کھائے اور باتوں باتوں میں معلوم کرلیا کہ وہ اکیلی ہیں، میاں بیٹا اور بہو جاب پر گئے ہیں، شام کو لوٹیں گے، چائے پینے کے بعد اس عورت نے اٹھنا چاہا تو پھر چکرا کر گر گئی۔ اب تو خاتون بہت گھبرائیں، عورت بولی ''باجی! تم گھبراؤ نہیں، ام اپنے آدمی کو بلاتا ہے''۔ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موبائل نکالا اور ٹوٹی پھوٹی اُردو میں اسے بتایا کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہے وہ آکر اسے لے جائے، اور یہ کہہ کر اچانک موبائل خاتون کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ وہ اس کے آدمی کو اپنے گھر کا پتہ اور نمبر سمجھا دے۔

تھوڑی ہی دیر بعد بیل بجی ایک دوسرا کپڑا بیچنے والا گیٹ پر کھڑا تھا، اس نے بتایا کہ وہ گل جاناں کا شوہر ہے، خاتون نے بلا کھٹکے اسے اندر بلالیا، وہ اپنی بیوی کو سہارا دے کر باہر لایا اور یکدم قمیض کی جیب میں سے پستول نکال کر خاتون کی کنپٹی پر رکھ دیا، کپڑے والی نے جھٹ پٹ خاتون کا منہ اور ہاتھ باندھے، انھیں کمرے میں بند کیا اور جو کچھ ہوسکا دونوں وہاں سے لوٹ کر فرار ہوگئے۔ LCD کو انھوں نے کپڑوں میں لپیٹ کر رکھ لیا، تمام نقدی، لیپ ٹاپ، کپڑے، اسٹیل کے برتن، کپڑوں کے علاوہ جو کچھ لے جاسکتے تھے وہ لے گئے۔ خاتون اندر ڈر کے مارے کانپتی رہیں اور روتی رہیں۔ شام کو جب گھر والے آئے اور گیٹ نہ کھلا تو تشویش ہوئی، پڑوسیوں کا لڑکا دیوار پھلانگ کر اندر گیا، گیٹ کھولا تو منظر نامہ کھلا۔

کراچی میں اور بھی کئی طریقوں سے وارداتیں ہو رہی ہیں، صابن اور کاسمیٹکس بیچنے کے بہانے، پِزا پیکیج کے حوالے سے، فینائل اور اچار وغیرہ بیچنے والے، خواتین آسانی سے شکار ہوجاتی ہیں۔ ان گھریلو وارداتوں کے علاوہ بسوں اور ویگنوں میں موبائل اور نقدی چرانے کی وارداتیں الگ ہیں۔ پولیس خود وارداتوں میں ملوث ہے، اس لیے شہریوں کو آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، خاص کر گھر میں اکیلی خواتین کو۔
Load Next Story