غبارِ خاطر
مولانا ابوالکلام آزاد اگست 1940 میں گرفتار ہوئے اور قلعہ احمد نگر میں قید کر دیے گئے۔
مالک رام نے لکھا ہے کہ کئی لحاظ سے ''غبارِ خاطر'' ایک اہم کتاب ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے حالات خاص طور پر ابتدائی زمانے کے اتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کسی اور جگہ نہیں ملتے جتنے اس کتاب میں۔ ان کے خاندان، ان کی تعلیم اور اس کی تفصیلات، عادات، نفسیات، کردار اور اس کردار کی تشکیل کے محرکات، ان سب باتوں پر تفصیل سے انھوں نے نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمٰن خاں شروانی کے نام اپنے ان خطوط میں لکھا ہے وہ اور کہیں نہیں لکھا۔ مولانا کے سوانح نگار کے لیے اس سے بہتر اور موثق تر اور کوئی ماخذ نہیں۔
اس بات کی دوسری اہمیت اس کا اسلوبِ تحریر ہے۔ جہاں تک معلوم ہو سکا ہے وہ بارہ تیرہ سال کی عمر سے ہی نظم اور نثر لکھنے لگے تھے اور اسی زمانے میں اُن کی تحریریں رسائل و جرائد میں چھپنے لگی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ابتدائی تحریروں میں وہ پختگی نہیں تھی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی جو مشق اور مرور زمانہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں انھوں نے بہت کچھ لکھا، اگر ہم اس سب پر نظر ڈالیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان و بیان کے لحاظ سے اُن کے اسلوب نگارش کا نقطہ عروج ''غبارِ خاطر'' ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد اگست 1940 میں گرفتار ہوئے اور قلعہ احمد نگر میں قید کر دیے گئے، جہاں سے جون 1942 میں رہائی ہوئی۔ قید و بند کے زمانے میں مولانا نے صدر یار جنگ کو جو خطوط لکھے وہ ایک طرح کی خود کلامی تھی۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کی قید میں دوستوں سے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور ان کی کوئی تحریر باہر نہ جا سکتی تھی اس لیے یہ خطوط ایک فائل میں جمع ہوتے رہے اور جب مولانا قید سے رہا ہوکر باہر آئے تو ''غبارِ خاطر'' کے عنوان سے ایک کتاب میں شایع ہوئے اور اس طرح جن کے نام یہ خط لکھے گئے تھے اُن تک پہنچے۔
مولانا ایک خط میں اپنی ابتدائی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ''میری پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو علم اور مشخیت کی بزرگی اور مرجیت رکھتا تھا۔ میں نے ابھی ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ لوگ پیرزادہ سمجھ کر میرے پاؤں چومتے تھے اور ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے رہتے تھے۔ خاندانی پیشوائی اور مشخیت کی اس حالت میں نو عمر طبیعتوں کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ اکثر حالتوں میں ابتدا ہی سے طبعیتیں بر خود غلط ہو جاتی ہیں اور نسلی غرور اور پیدائشی خود پرستی کا روگ لگ جاتا ہے، لیکن جہاں تک میں اپنی حالت کا جائزہ لے سکتا ہوں مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ میری طبیعت کی قدرتی افتاد مجھے دوسری طرف لے جا رہی تھی۔''
اپنے لڑکپن کے دور کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں۔ ''لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں مگر بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں، کلکتہ میں ڈلہوزی اسکوائر میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر دیکھیے تو درخت ہی درخت اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ اور ایک بینچ بھی بچھی ہوئی۔ جب میں سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعے میں غرق ہو جاتا۔ والدِ مرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر مجھے کتاب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے کیوں نکلا؟''
مولانا آزاد کو موسیقی سے جو دلچسپی تھی اس کا حال بھی ''غبارِ خاطر'' سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ''شاید آپ کو معلوم نہیں ایک زمانے میں مجھے فنِ موسیقی کے مطالعہ اور مشق کا بھی شوق رہ چکا ہے، اس کا اشتغال کئی سال تک جاری رہا، ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ 1905 میں جب میں تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور طلباء کو پڑھانے میں مشغول تھا تو کتابوں کا شوق مجھے اکثر ایک کتب فروش خدا بخش کے یہاں لے جایا کرتا تھا جس نے ویلزل اسٹریٹ میں مدرسہ کالج کے سامنے دکان لے رکھی تھی اور زیادہ تر عربی و فارسی کی قلمی کتابوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے فقیر اللہ سیف خاں کی راگ درپن کا ایک نہایت خوش خط اور مصور نسخہ بھی دکھایا اور کہا کہ یہ کتاب فنِ موسیقی پر ہے۔''
مولانا آزاد نے کتاب لے لی اور گھر آ کر اول تا آخر پڑھی۔ سمجھ میں نہ آئی اس لیے کہ موسیقی کی اصطلاحوں سے واقفیت نہ تھی۔ باپ کے ایک مرید سے جو اس کوچہ سے آیا تھا خفیہ طریقے سے علم و عمل کا سلسلہ جاری کیا، مگر ''پھر کوشش کی اپنے طریقے سے خود سمجھوں۔ موسیقی کے آلات میں زیادہ تر توجہ ستار پر ہوئی اور بہت جلد انگلیاں آشنا ہو گئیں۔'' مولانا کی ستار کی مشق چار پانچ سال جاری رہی۔ بین سے بھی انگلیاں نا آشنا نہیں رہیں، لیکن زیادہ دل بستگی اس سے نہ ہو سکی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ مشغلہ یک قلم متروک ہو گیا۔ لیکن موسیقی کا ذوق اور تاثر زندگی بھر دل سے نہ نکل سکا۔ لکھتے ہیں ''میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔''
اپنے اس زمانے کا، جب ابوالکلام آزاد موسیقی کے عملی سحر میں گرفتار تھے، ایک واقعہ لکھتے ہیں۔
آ''آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا، اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہونے کو ہوتا تو چاند پردۂ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا، پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا، کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریبِ تخیئل کے کیسے کیسے جلوے انھی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے ستارے سر اُٹھائے کھڑے تھے، بُرجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، آپ یاد کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں، میں نے بارہا بُرجیوں سے باتیں کی ہیں۔''
''غبارِ خاطر'' کے اسلوبِ تحریر کا ذکر کرتے ہوئے مالک رام لکھتے ہیں کہ اس کی نثر ایسی نپی تلی ہے اور یہاں الفاظ کا استعمال اس حد تک افراط و تفریط سے مُبرّا ہے کہ اس سے زیادہ خیال میں نہیں آ سکتا۔ مولانا آزاد کی ابتدائی تحریروں میں ناہمواری تھی۔ عربی اور فارسی کے ثقیل اور مشکل سے سمجھ میں آنے والے جملوں اور ترکیبوں کی بھرمار تھی۔ اس کے برعکس ''غبارِ خاطر'' کو دیکھیے تو یہاں ایک نئی دنیا نظر آتی ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کی مشکل ترکیبیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس کی نثر ایسی شگفتہ اور دل نشین ہے کہ یہ نہ صرف ہر کسی کے لیے آسانی سے سمجھ میں آنے والی بلکہ اس سے بھر پور لطف لیا جا سکتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے حالات خاص طور پر ابتدائی زمانے کے اتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کسی اور جگہ نہیں ملتے جتنے اس کتاب میں۔ ان کے خاندان، ان کی تعلیم اور اس کی تفصیلات، عادات، نفسیات، کردار اور اس کردار کی تشکیل کے محرکات، ان سب باتوں پر تفصیل سے انھوں نے نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمٰن خاں شروانی کے نام اپنے ان خطوط میں لکھا ہے وہ اور کہیں نہیں لکھا۔ مولانا کے سوانح نگار کے لیے اس سے بہتر اور موثق تر اور کوئی ماخذ نہیں۔
اس بات کی دوسری اہمیت اس کا اسلوبِ تحریر ہے۔ جہاں تک معلوم ہو سکا ہے وہ بارہ تیرہ سال کی عمر سے ہی نظم اور نثر لکھنے لگے تھے اور اسی زمانے میں اُن کی تحریریں رسائل و جرائد میں چھپنے لگی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ابتدائی تحریروں میں وہ پختگی نہیں تھی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی جو مشق اور مرور زمانہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں انھوں نے بہت کچھ لکھا، اگر ہم اس سب پر نظر ڈالیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان و بیان کے لحاظ سے اُن کے اسلوب نگارش کا نقطہ عروج ''غبارِ خاطر'' ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد اگست 1940 میں گرفتار ہوئے اور قلعہ احمد نگر میں قید کر دیے گئے، جہاں سے جون 1942 میں رہائی ہوئی۔ قید و بند کے زمانے میں مولانا نے صدر یار جنگ کو جو خطوط لکھے وہ ایک طرح کی خود کلامی تھی۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کی قید میں دوستوں سے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور ان کی کوئی تحریر باہر نہ جا سکتی تھی اس لیے یہ خطوط ایک فائل میں جمع ہوتے رہے اور جب مولانا قید سے رہا ہوکر باہر آئے تو ''غبارِ خاطر'' کے عنوان سے ایک کتاب میں شایع ہوئے اور اس طرح جن کے نام یہ خط لکھے گئے تھے اُن تک پہنچے۔
مولانا ایک خط میں اپنی ابتدائی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ''میری پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو علم اور مشخیت کی بزرگی اور مرجیت رکھتا تھا۔ میں نے ابھی ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ لوگ پیرزادہ سمجھ کر میرے پاؤں چومتے تھے اور ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے رہتے تھے۔ خاندانی پیشوائی اور مشخیت کی اس حالت میں نو عمر طبیعتوں کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ اکثر حالتوں میں ابتدا ہی سے طبعیتیں بر خود غلط ہو جاتی ہیں اور نسلی غرور اور پیدائشی خود پرستی کا روگ لگ جاتا ہے، لیکن جہاں تک میں اپنی حالت کا جائزہ لے سکتا ہوں مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ میری طبیعت کی قدرتی افتاد مجھے دوسری طرف لے جا رہی تھی۔''
اپنے لڑکپن کے دور کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں۔ ''لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں مگر بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں، کلکتہ میں ڈلہوزی اسکوائر میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر دیکھیے تو درخت ہی درخت اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ اور ایک بینچ بھی بچھی ہوئی۔ جب میں سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعے میں غرق ہو جاتا۔ والدِ مرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر مجھے کتاب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے کیوں نکلا؟''
مولانا آزاد کو موسیقی سے جو دلچسپی تھی اس کا حال بھی ''غبارِ خاطر'' سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ''شاید آپ کو معلوم نہیں ایک زمانے میں مجھے فنِ موسیقی کے مطالعہ اور مشق کا بھی شوق رہ چکا ہے، اس کا اشتغال کئی سال تک جاری رہا، ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ 1905 میں جب میں تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور طلباء کو پڑھانے میں مشغول تھا تو کتابوں کا شوق مجھے اکثر ایک کتب فروش خدا بخش کے یہاں لے جایا کرتا تھا جس نے ویلزل اسٹریٹ میں مدرسہ کالج کے سامنے دکان لے رکھی تھی اور زیادہ تر عربی و فارسی کی قلمی کتابوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے فقیر اللہ سیف خاں کی راگ درپن کا ایک نہایت خوش خط اور مصور نسخہ بھی دکھایا اور کہا کہ یہ کتاب فنِ موسیقی پر ہے۔''
مولانا آزاد نے کتاب لے لی اور گھر آ کر اول تا آخر پڑھی۔ سمجھ میں نہ آئی اس لیے کہ موسیقی کی اصطلاحوں سے واقفیت نہ تھی۔ باپ کے ایک مرید سے جو اس کوچہ سے آیا تھا خفیہ طریقے سے علم و عمل کا سلسلہ جاری کیا، مگر ''پھر کوشش کی اپنے طریقے سے خود سمجھوں۔ موسیقی کے آلات میں زیادہ تر توجہ ستار پر ہوئی اور بہت جلد انگلیاں آشنا ہو گئیں۔'' مولانا کی ستار کی مشق چار پانچ سال جاری رہی۔ بین سے بھی انگلیاں نا آشنا نہیں رہیں، لیکن زیادہ دل بستگی اس سے نہ ہو سکی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ مشغلہ یک قلم متروک ہو گیا۔ لیکن موسیقی کا ذوق اور تاثر زندگی بھر دل سے نہ نکل سکا۔ لکھتے ہیں ''میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔''
اپنے اس زمانے کا، جب ابوالکلام آزاد موسیقی کے عملی سحر میں گرفتار تھے، ایک واقعہ لکھتے ہیں۔
آ''آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا، اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہونے کو ہوتا تو چاند پردۂ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا، پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا، کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریبِ تخیئل کے کیسے کیسے جلوے انھی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے ستارے سر اُٹھائے کھڑے تھے، بُرجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، آپ یاد کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں، میں نے بارہا بُرجیوں سے باتیں کی ہیں۔''
''غبارِ خاطر'' کے اسلوبِ تحریر کا ذکر کرتے ہوئے مالک رام لکھتے ہیں کہ اس کی نثر ایسی نپی تلی ہے اور یہاں الفاظ کا استعمال اس حد تک افراط و تفریط سے مُبرّا ہے کہ اس سے زیادہ خیال میں نہیں آ سکتا۔ مولانا آزاد کی ابتدائی تحریروں میں ناہمواری تھی۔ عربی اور فارسی کے ثقیل اور مشکل سے سمجھ میں آنے والے جملوں اور ترکیبوں کی بھرمار تھی۔ اس کے برعکس ''غبارِ خاطر'' کو دیکھیے تو یہاں ایک نئی دنیا نظر آتی ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کی مشکل ترکیبیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس کی نثر ایسی شگفتہ اور دل نشین ہے کہ یہ نہ صرف ہر کسی کے لیے آسانی سے سمجھ میں آنے والی بلکہ اس سے بھر پور لطف لیا جا سکتا ہے۔