چھوٹو گینگ کے خلاف ناکام پولیس آپریشن کی روداد

ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پنجاب پولیس دنیا بھر میں تماشا بن گئی

ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پنجاب پولیس دنیا بھر میں تماشا بن گئی۔ فوٹو: فائل

حکومت پنجاب نے مشتاق احمد سکھیرا کو اس امید کے ساتھ آئی جی پنجاب تعینات کیا تھا کہ وہ اپنے تجربے اور صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کو امن کا گہوارہ بنائیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ان کی تعیناتی کے چند ماہ بعد ہی پنجاب پولیس کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ وہ صوبہ پنجاب میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے میں ناکام رہے، شہری اغواء ہوتے رہے اور تاوان دے کر رہا ہوتے رہے مگر پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی۔

پنجاب پولیس میں ڈسپلن کا بھی فقدان نظر آیا جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے راجن پور کے کچے کے علاقے میں کئی سالوں سے خوف کی علامت بننے غلام رسول عرف چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا اس آپریشن کا نام ''ضرب آہن'' تجویز کیا گیا مگر اعلیٰ افسران کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پولیس کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا 24 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔

ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پنجاب پولیس دنیا بھر میں تماشا بن گئی اس کے جوانوں کا مذاق اڑایا گیا اور پنجاب پولیس کی ساکھ کو بھی انتہائی نقصان پہنچا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب پولیس کے جوانوں نے بڑی بہادری سے جرائم پیشہ افراد کو للکارا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قصور وار وہ لوگ ہیں جنہوں نے جدید اسلحہ، مناسب حکمت عملی اور معلومات کے بغیر پولیس کے 31 جوانوں، افسران کو خطرناک ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

کتنی افسوسناک بات ہے کہ 31 جوانوں کو 10 کلو میٹر طویل جزیرے کو فتح کرنے کے لیے ایک عام کشتی پر روانہ کیا گیا ان کے مقابلے میں جزیرے پر ڈاکوؤں کی تعداد 100 سے زیادہ تھی ان کے پاس جدید اسلحہ لائٹ مشین گن، اینٹی ایئر کرافٹ گن اور خودکار رائفلیں تھیں۔ ڈاکوؤں کے پاس محفوظ مورچے اور کنکریٹ کے بنکرز بنے ہوئے ہیں ان کے مقابلے کے لیے جانے والوں کے پاس پرانی سرکاری رائفلیں غیر معیاری بلٹ پروف جیکٹس اور ناقص ہیلمٹ تھے۔

شہید ہونے والے 6 اہلکاروں کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں جو بلٹ پروف ہیلمٹس کو توڑتی ہوئی سر میں جا کر لگیں۔ پولیس افسران نے چھوٹو گینگ کے مقابلے کے لیے کی گئی منصوبہ بندی میں فورس کے بنیادی اصول کی بھی خلاف ورزی کی اس طرح کے آپریشن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والے سپاہیوں کو بیک اپ سپورٹ حاصل ہوتی رہے مگر کچہ جمال میں کشتی میں بیٹھ کر جانے والوں کو بیک اپ فراہم نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 7 اہلکار شہید کر دیئے گئے اور باقی کو یرغمال بنا لیا گیا۔

چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی میں شامل پولیس ذرائع کا خیال ہے کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا عجلت میں آپریشن کرنا چاہتے تھے۔مقامی پولیس کا منصوبہ یہ تھا کہ بہت احتیاط کے ساتھ چیک پوسٹیں قائم کرتے ہوئے چھوٹو گینگ کو گھیرنے کی کوشش کی جائے۔ 13اپریل کو پولیس کی کشتی پر ہونے والے حملے کے بعد پولیس کے مقامی افسروں کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کے پاس انتہائی جدید اسلحہ ہے لہٰذا مقابلے کے لیے فوج کی مدد حاصل کی جائے جبکہ آئی جی پنجاب کا مؤقف تھا کہ پنجاب حکومت ہرگز نہیں چاہتی کہ فوج سے مدد حاصل کی جائے کیونکہ ایسا کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں۔ اس بات پر طویل بحث مباحثہ ہوا۔ مقامی پولیس افسروں کا موقف تھا کہ ڈاکٹو اسلحہ گولہ بارود اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں پولیس سے بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔

اس لیے جلد بازی میں آپریشن نہیں کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ بات یہاں تک پہنچی کہ مقامی پولیس فورس نے مناسب منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر ڈاکوؤں پر حملہ کرنے سے انکار کردیا اور مزید وقت دینے کا مطالبہ کیا۔ اس پر مبینہ طور پر آئی جی صاحب نے کہا کہ اگر مقامی پولیس فورس ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو وہ خود کچہ کے علاقے میں ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے جائیں گے۔


اس موقع پر مقامی پولیس افسروں نے جوانوں کی منت سماجت کی اور ان سے کہا کہ ہماری عزت کی خاطر آپریشن سے انکار نہ کریں۔ آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے دو کشتیوں میں پولیس کے جوانوں کو سوار کراکے دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جلد ہی ڈاکوؤں نے کشتیوں پر فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کی کشتیوں میں سے ایک ڈاکوؤں نے قبضے میں لے لی جبکہ دوسری کشتی سے فائرنگ کے نتیجے میں دو ڈاکوہلاک ہوگئے۔ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 5پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

ایک اور عجیب بات یہ ہوئی کہ زمینی آپریشن کی قیادت ایس ایچ او رینک کے افسر کو سونپی گئی جبکہ موقع پر ڈی ایس پی' ڈی پی او' آر پی او رینک کے افسران بھی موجود تھے۔ پکڑے جانے والے اہلکاروں کو چھوٹو کے سامنے لایا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ پولیس اہلکاروں میں ایک ایس ایچ او بھی شامل ہے تو اس نے اسے الگ کیا اور موقع پر گولی مار کر ہلاک کردیا۔ مناسب منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر عجلت میں کیا گیا آپریشن پولیس اہلکاروں کی نیم دلی کے باعث مکمل ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس کے نتیجے میں7پولیس اہلکار زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 27ڈاکوؤں کے نرغے میں ہیں۔

غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف ماضی میں بھی متعدد آپریشنز ہو چکے ہیں ان آپریشنز میں بھی پولیس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے موجودہ آپریشن سے پہلے ماضی کے تجربات کو بھی سامنے نہیں رکھا کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے ضلع راجن پور صوبہ پنجاب کا آخری ضلع ہے جو کہ صوبہ سندھ کے ضلع کشمور سے ملحقہ ہے دریا سندھ کے مشرقی جانب کے وسیع و عریض علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے مغرب کی جانب کوہ سلیمان کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔

جس کے ساتھ صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے واقع ہیں ان علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ وہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں آکر لوٹ مار کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے اس علاقے میں اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی تھی اور وسیع علاقہ ان کے کنٹرول میں تھا جرائم پیشہ افراد اپنے قریبی علاقوں راجن پور، ڈیرہ غازیخان، رحیم یار خان اور صادق آباد میں خوف کی علامت بنے ہوئے تھے۔ وہ ڈکیتی کی وارداتوں کے علاوہ شہریوں کو تاوان کی وارداتوں کے لیے اغواء کرتے تھے چھوٹو گینگ کے ارکان نے مظفر گڑھ اور ملتان میں بھی تاوان کی متعدد وارداتیں کیں۔ چھوٹو گینگ کے کارندوں نے الپہ پولیس کے علاقے سے 4 سالہ بچی مناہل فاطمہ کو اغواء کر کے تاوان وصول کیا تھا۔ تاوان کی ادائیگی کے بعد ملتان پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے ایک خصوصی ٹیم کچے کے علاقے میں روانہ کی تھی۔

ایلیٹ فورس ملتان کا شوکت کمانڈو ڈیڑھ ماہ تک بھیس بدل کر کشمور اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ساتھ رہا اور وہاں سے مناہل فاطمہ کو اغواء کرنیوالے افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ اغواء کاروں میں مقامی افراد اور سہولت کار بھی شامل تھے جنہیں شوکت کمانڈو نے کشمور سے واپس آ کر گرفتار کر لیا۔ چھوٹو گینگ کے کارندوں نے بستی ملوک کے علاقے سے ڈاکٹر خان وزیر کو بھی اغواء کیا۔ ملزمان پنجاب کے مختلف علاقوں سے شہریوں کو اغواء کر کے کوٹ ادو لے جاتے تھے جہاں سے انہیں کشتی کے ذریعے کچے کے علاقے میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔غلام رسول عرف چھوٹو سے کچے کے رہائشی مقامی افراد بھی تنگ ہیں۔ چند سال قبل چھوٹو نے مقامی افراد کی ایک لڑکی کو بھی اغواء کروایا تھا جس کے بعد مقامی لوگ اس گینگ کے خلاف ہو گئے اور گینگ کے خلاف کارروائیوں کے دوران پولیس کی بھرپور مدد کرتے رہے۔

غلام رسول عرف چھوٹو گینگ کیخلاف آپریشن میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب حکومت کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے' ماتحت پولیس فورس کی جو رائے سامنے آئی ہے اس کے مطابق آئی جی پنجاب کو انہوں نے اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ آپریشن میں ناکامی کے بعد آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو خود عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ صوبہ پنجاب کے سینئر پولیس افسران نے ایک وٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے کمانڈر کی ناقص حکمت عملی پر کھل کر بحث کی ہے اور کمانڈر کا مذاق اُڑایا ہے۔ ان حالات میں پولیس کا ڈسپلن مزید متاثر ہوا ہے۔ کیا آئی جی پنجاب کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ چند سال قبل آپریشن کے دوران چھوٹو گینگ نے پولیس کی بکتر بند گاڑی تباہ کر دی تھی۔

اس واقعہ سے چھوٹو گینگ کے پاس موجود جدید اسلحہ کا اندازہ لگا لینا چاہیے تھا۔ گینگ کا محاصرہ کرنے کے بعد ایک کشتی کے ذریعے اہلکاروں کو جزیرے پر بھیجنے کا غلط فیصلہ کیا گیا بلکہ جزیرے کا محاصرہ جاری رکھا جاتا اور چھوٹو کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاتا۔ فورسز کے اندر سنگین غلطیوں پر قائدین کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہیں اور ان کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح پنجاب حکومت کو اس سنگین غلطی پر پولیس کے اعلیٰ افسر کیخلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی افسر اپنے جذباتی اور غلط فیصلوں سے پولیس فورس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
Load Next Story