موجودہ سیاسی صورتحال۔۔۔ حکومت کیلئے بڑا چیلنج

حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘ ‘ میں گفتگو

حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘ ‘ میں گفتگو ؛ فوٹو : وسیم نذیر

ISLAMABAD:
پاناما لیکس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے ۔اب تک اس سکینڈل میں سامنے آنے والے متعدد ممالک کے حکومتی عہدیدار مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ دیگر پر بھی دباؤ آرہا ہے ۔ پاناما لیکس کے بعد سے ہمارے ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی کافی گرم ہوچکا ہے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت ملک کے بڑے سیاستدان ا س وقت ملک سے باہر ہیں جبکہ عوام کسی بڑے فیصلے کے لیے ان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ان حالات کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم اسلام آباد '' میں ''ملکی سیاسی صورتحال'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے خیالات کا ظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مشاہداللہ خان
(سینیٹر و رہنما پاکستان مسلم لیگ(ن))
پاناما لیکس کے معاملے کے کئی پہلو ہیں لیکن اپوزیشن صرف وزیراعظم نواز شریف کو نشانہ بنا رہی ہے۔ دنیا کی آدھی دولت امریکا میں ہے مگر پاناما لیکس میں کسی امریکی کا نام نہیں آیا جو قابل غور بات ہے۔ دنیا میں آف شور کمپنیا ں بنانے کی اجاز ت ہے۔ وزیر اعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں لیکن دونوں ایک روپیہ بھی پاکستان سے لے کر نہیں گئے۔

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور کابینہ کے کسی بھی وزیر کانام پاناما لیکس میں نہیں آیا۔اس میں ڈھائی سو کے قریب لوگوں کے نام آئے ہیں، کیا پتہ کل عمران خان کا نام آجائے مگر صرف حکومت گرانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ماضی میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے دھرنہ دیا ، اس دھرنے کو دوہرایا جا رہا ہے اور اب بھی ان کے مقاصد پاکستان اور سی پیک منصوبے کے خلاف ہیں ۔ اپوزیشن اپنے مطالبات پر یکسو نہیں ہے،میرے نزدیک سب کو پیپلزپارٹی کی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز پر غور کرنا چاہیے۔ عمران خان کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے۔

قمر زمان کائرہ
( سابق وفاقی وزیر اطلاعات و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
پیپلز پارٹی پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملے کی مکمل چھان بین کی خواہاں ہے ۔ وزیراعظم کا خاندان اس مسئلے میں ملوث ہے اس لئے حکمران خاندان کو اپنے اثاثوں کے بارے میں جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے کن ذرائع سے یہ پیسے بیرون ملک بھجوائے۔ ہم اس معاملے پر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے گھر کے گھیراؤ کے حق میں ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں معاشی نظام کے اندر خرابیاں پائی جاتی ہیں اور دولت کی تقسیم کے حوالے سے غیر مساوی رحجان پایا جاتا ہے۔ ایک خاندان کے پاس اربوں روپے ہیں تو دوسرا خاندان مقابلے کی فضاء کیلئے اپنی جدوجہد میں لگا ہواہے۔ جہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا پہلو پایا جاتا ہے وہاں اور بھی خرابیاں موجود ہیں جن میں سے ایک خرابی ٹیکس بچانا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کی دولت کے حوالے سے آف شور کمپنیوں میں نام سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے یا وزیراعظم کی طرف سے پارلیمنٹ میں پوزیشن واضح کرنے کی بجائے سوالات کا رخ دوسری طرف موڑا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک پاناما لیکس کے معاملے کی مکمل اور شفاف انداز میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔

یہ تحقیقات صرف وزیر اعظم کے خاندان کے حوالے سے نہیں بلکہ جن لوگوں کے نام بھی اس سکینڈل میں آئے ہیں ان سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کے بیٹوں کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کبھی کہا جا رہا ہے کہ قانونی ہیں تو کبھی غیر قانونی تاہم ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی غیر قانونی کاروبار قابل گرفت ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے خود بیان دیا ہے کہ ہم نے ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنی میں پیسے لگائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور پاناما کیسے پہنچائی گئی۔ کیا یہ قانونی طریقے سے بینکوں کے ذریعے رقم بیرون ملک بھجوائی گئی یا کوئی غیر قانونی طریقہ استعمال کیا گیا؟ اس کا ریکارڈ فوری طور پر فراہم کیا جانا چاہیے ۔ صدیق الفاروق اور لارڈ نذیر خود تسلیم کر چکے ہیں کہ برطانیہ میں نواز شریف کی رہائش گاہ 1995ء، 96ء سے موجود ہے ۔

انہیں قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ جب کمپنیاں بنیں تو جائیداد کہاں سے خریدی گئی؟ ٹیکس بچانے اور آف شور کمپنیوں میں پیسے لگانے کے سوالات کے جوابات حکمران خاندان کو دینا پڑیں گے اور اس مسئلے پر کوئی سیاسی جماعت ان کی مدد نہیں کرے گی۔ بعض لوگوں کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کو اخلاقی طور استعفیٰ دے دینا چاہیے اورماضی میں ہماری جماعت کے ایک وزیراعظم سے بھی اس طرح استعفیٰ مانگا گیا تھا۔پاناما لیکس کے حوالے سے جب تک وزیراعظم کے خاندان پر لگے الزامات درست ثابت نہیں ہوجاتے تب تک ان سے استعفے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ پاناما لیکس کے مسئلے پر وزیراعظم کے خاندان پر بیرون ملک سے بھی دباؤ ہے اور اندرون ملک سے بھی دباؤ ہے۔

میرے نزدیک اس معاملے کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ دولت کی تقسیم اور آمدن کے ذرائع کی چھان بین کے لیے غیر ملکی فرم سے آڈٹ کرایا جائے۔ ہماری جماعت پاناما لیکس کے مسئلے پر پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے معاملے کی شفاف تحقیقات کی خواہاں ہے اگر معاملے کی تحقیقات کیلئے سیکورٹی اداروں کی معاونت کی ضرورت ہو تو ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ ہماری پارٹی قبل از وقت انتخابات کے حق میں بالکل نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ الزامات سے بچاؤ کیلئے بحث کا رخ قبل از وقت انتخابات کی طرف موڑا جا رہا ہے لیکن قوم اس فیصلے کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔

آج مسلم لیگ (ن)کے وزراء کی کرپشن کی داستانیں بھی لوگوں کی زبانوں پر عام ہو رہی ہیں اور جن لوگوں نے حکمرانوں کو منتخب کر کے ایوانون میں پہنچایا ہے وہ ان کا احتساب بھی چاہتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی دھرنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی ہم پی ٹی آئی کی جانب سے رائے ونڈ کی جانب کئے جانیوالے مارچ اور دھرنے کے اعلان کی حامی ہیں۔ میرے نزدیک پاناما لیکس میں جو کچھ سامنے آیا ہے وہ عالمی معاشی نظام میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے ایک ہے تاہم پاناما لیکس میں جن پر بھی الزامات لگے ہیں ۔

ان میں سے کسی نے انہیں جھٹلایا۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے بارے میں اس لئے زیادہ معاملات زیر بحث آرہے ہیں کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں اور وزیراعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے مگر حکمران جماعت پاناما لیکس کے الزامات کے جوابات دینے کی بجائے معاملات کا رُخ موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، ہم کیوں اپنا کام دوسرے اداروں پر ڈالتے ہیں۔ اس مسئلے میں ہمیں خود پہل کرنی چاہیے اور پارلیمانی کمیٹی قائم کرنی چاہیے جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی ہو اور یہ کمیٹی اس سارے معاملے کی نگرانی کرے۔

علی محمد خان
(رکن قومی اسمبلی و مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)
پانامالیکس ایک گھمبیر مسئلہ ہے ،جس نے عالمی سطح پر مختلف ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں جب ایسے الزامات سامنے آئے تو ملک کے تین بڑے اداروں قومی احتساب بیورو، ایف آئی اے اور ایف بی آر نے کوئی نوٹس نہیں لیا ، ان تینوں اداروں کو چاہیے تھاکہ یہ دیکھے بغیر کہ کون پانامالیکس میں ملوث ہے اس کی تحقیقات شروع کرتے ۔ جب پاناما لیکس کی تفصیلات خبروں کی شکل میں پاکستان میں آئیں تو معتبر ادارے اگر فوری نوٹس لیتے تو اب تک ابتدائی تحقیقاتی رپورٹیں سامنے آچکی ہوتیں۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی سومو ٹو ایکشن لینا مناسب نہیں سمجھا، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اور ہم عدالیہ کااحترام کرتے ہیں ۔ آج ملک کے اندر دو پاکستان بنے ہوئے ہیں ایک امیروں کا اور ایک غریبوں کا ۔

ہمارے ملک میں ایک بیوہ کو اپنے مرحوم شوہر کی پینشن لینے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حکمرانوں کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ ملکی حالات 1970ء سے بگڑنا شروع ہوئے ،ملک دو لخت ہوا اور ادارے تباہ ہونے لگے ،1980ء کی دہائی میں اگر صوبے کے کسی ضلع یا تحصیل میں کوئی افسر کرپٹ ہوتا تھا تو سب کو پتہ چل جاتا تھا، آج ایماندار افسران بھی اداروںمیں موجود ہیں لیکن ان کو نظر انداز کیاجارہا ہے لہٰذا اگر سیاستدان، ایماندار افسران کے پیچھے کھڑے نہیں ہوں گے تو ملک سے کرپشن کیسے ختم ہوگی۔پاناما لیکس کے بعد جس طرح وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش ہے یہ درست عمل نہیں تھا۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف نے ابھی تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا، انہیں چاہیے تھا کہ وہ ایوان میں پانچ منٹ کے لئے آکر اپنی پوزیشن واضح کردیتے۔

پانامالیکس پر اگر برطانیہ کے وزیر اعظم اپنی عوام اور ہاؤس آف کامن میں جاکر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرسکتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے کہ جمہوری عمل کے اندر رہتے ہوئے ہی پاناما لیکس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ آئین کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے ۔ ہماری فوج اس وقت ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور محاز پر جنگ لڑ رہی ہے ،ہمیں جمہوری نظام میں کسی کی مداخلت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے،تحریک انصاف جمہوری نظام کی مضبوطی کے لئے کام کررہی ہے اور ہم غیر جمہوری نظام کا کسی بھی صورت ساتھ نہیں دیں گے۔


وزیر اعظم میاں نوازشریف کو چاہیے کہ وہ پانامالیکس کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات کے لئے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کردیں۔ مسلم لیگ (ن) میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں وزارت عظمی کا چارج دیا جائے اور پانا مالیکس کی شفاف انداز میں تحقیقات کرائی جائیں اور اگر میاں نوازشریف پر تحقیقات کے بعد بے گناہی ثابت ہوجاتی ہے تو وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیں۔ تحریک انصاف پاناما لیکس کے مسئلے پر جمہوری دائرہ کار کے اندر رہ کر تحریک چلا رہی ہے ۔ میاں نوازشریف کا کچھ عرصہ کے لئے وزارت عظمی سے علیحدہ ہونا جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے بہتر ہے ۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیںمگر ملکی ادارے مضبوط رہنے چاہئیں۔

میاں عتیق
(سینیٹر و رہنما متحدہ قومی موومنٹ )
ابھی تک وزیراعظم اور ان کے خاندان پر پاناما لیکس کے حوالے سے صرف الزامات عائد کئے گئے ہیں لیکن یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ اس کا آسان سا فارمولا یہ ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا ارکان پارلیمنٹ اپنے اثاثے چھپائے تو اس پر آرٹیکل62 ، 63لاگو ہوتا ہے جس کا ا ختیار مکمل طور پر الیکشن کمیشن کے پاس ہے ۔ اس لیے اگر الیکشن کمیشن چاہے تو ایک نوٹس پر کسی بھی پارلیمنٹرین کو نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کا اس معاملے پر بھی یہی موقف ہے کہ چونکہ الیکشن کمیشن میں تمام پارلیمنٹرین نے سالانہ بنیادوں پر اپنے حساب کتاب اور اثاثوں کی تفصیلات کی فہرست جمع کرانی ہوتی ہے اس لئے یہ مینڈیٹ الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرے۔

اس کے علاوہ تمام سیاسی رہنماؤں کے اثاثوں کی تفصیلات ایف بی آر کے ڈیٹا میں بھی موجود ہیں ان سے بھی مدد لی جا سکتی ہے تاہم اس کیلئے درخواست دینی پڑھتی ہے۔ پاناما لیکس کے حوالے سے الزامات کا دفاع عدالتوں میں بھی کیا جا سکتا ہے محض الزامات کی حد تک دیکھیں تو ایم کیو ایم اور اس کے قائدین پر گزشتہ 25 سال سے الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن ان الزامات کے ثبوت عدالتوں میں آج تک پیش نہیں کئے جا سکے اور عدالت صرف آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ کسی مخالف سیاستدان کی خواہش پر وزیراعظم کو اپنے عہدے سے نہیں ہٹایا جا سکتا اور نہ ہی کسی دوسرے سیاست دان کو اس کی خواہش پر وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔

اگر کسی کو وزیراعظم بننا ہے تو اس کیلئے ایوانوں میں اپنی اکثریت ثابت کرنی پڑے گی اور اس کا طریقہ کار آئین میں درج بھی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کے بارے میں ملک کے اندر ایک قانون موجود ہے جس پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ملک کے اند پاناما لیکس کے معاملے پر ان ہاوس کسی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اس حوالے سے بہترین انتخاب ہیں اور وہ وزیراعظم بننے کے اہل بھی ہیں۔ جہاں تک ہماری جماعت کی پالیسی کا تعلق ہے ہم اس طرح کسی بھی منتخب وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ وزیراعظم ملک کے بیس کروڑ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ الزامات کی سیاست تو بہت آسان ہے اب وقت آ گیا ہے کہ ثبوت کے ساتھ بات کی جائے اور محض لوگوں کی خواہشات پر چیزوں کو ان کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔

صاحبزادہ طارق اللہ
( رکن قومی اسمبلی و رہنما جماعت اسلامی)
جماعت اسلامی نے تو دو ماہ پہلے سے ہی ملک میں کرپشن کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے ،ملک بھر میں جلسے جلوس ہورہے ہیں ،ہم 23اپریل کو پشاور اور 24اپریل کو لاہور میں گرینڈ جلسہ کریں گے ، ملک میں سب سے بڑی برائی کرپشن کی ہے مگرافسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے کرپشن کے خاتمے کے لئے ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ پاناما لیکس کی خبریں جب پاکستان میں آئیں اور ان میں وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کے نام سامنے آئے تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرکے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

جب سے پانامالیکس کا مسئلہ سامنے آیا ہے اس وقت سے جماعت اسلامی اس مسئلے کی تحقیقات کے لئے ایک غیر جانبدار کمیشن قائم کرکے اس کی تحقیقات کرانے پر زور دے رہی ہے۔ پانامالیکس کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کہاہے کہ یہ انتظامی مسئلہ ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کردیا ہے لیکن ہم پھر بھی سپریم کورٹ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اگر عدلیہ پانامالیکس کی تحقیقات نہیں کرے گی تو کیا پھر ہمیں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا پڑے گا؟ سپریم کورٹ پانامالیکس پر اگر سو موٹو لیکر اس کی تحقیقات کرواتی تو عوام مطمئن ہوجاتے۔

آج پارلیمانی کمیٹی بنانے اور اس سے منصفانہ تحقیقات کرانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ آیا پارلیمانی کمیٹی اکیلے منصفانہ تحقیقات کرسکتی ہے تاوقت یہ کہ اس کے ساتھ بین القوامی آڈٹ فرموں کو بھی شامل کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ایک دوسرے کو سپورٹ کیاہے ،عوام جانتے ہیں کہ این آر او سے کس کس کی مدد ہوئی ہے۔ میرے نزدیک عمران خان ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچے بلکہ وہ جمہوری عمل کے اندر رہ کر اپنی تحریک چلائیں گے ۔ جماعت اسلامی کے نزدیک حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے اور آئندہ انتخابات 2018ء میں ہی ہونے چاہئیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم خود ہی پانامالیکس کی تحقیقات کے لئے وزارت عظمی سے علیحدہ ہوجائیں، اس طرح ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کواکثریت حاصل ہے اور ان کے پاس اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔

وزیر اعظم نوازشریف کو پہلے ہی رضاکارانہ طور پر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہوجانا چاہیے تھا، اس عمل پر تمام سیاسی جماعتیں انہیں خراج تحسین پیش کرتیں ۔ سپریم کورٹ کو بھی چاہیے کہ وہ خود پانامالیکس کی تحقیقات کرے اور اگر وزیر اعظم نوازشریف اس میں ملوث ہوں تو انہیں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ ملک میں جاری پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے پوری قوم کوامیدیں وابستہ ہیں، اس پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق بھی ہے لہٰذاپانامالیکس کی تحقیقات کے دوران اس منصوبے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں، اسی طرح پاکستان میں امن وامان کو خراب کرنے کے لئے عالمی سازشیں بھی ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں اورپوری قوم کو متحد اور کمربستہ ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ ملک میں جس جماعت نے بھی کرپشن کی ہے اس کے خلاف منصفانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پانامالیکس کی تحقیقات کے عمل کے دوران جمہوری عمل ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر جمہوری عمل کو کوئی خطرہ ہوا تو ہم جمہوری عمل کا ساتھ دیں گے۔ جماعت اسلامی پانامالیکس کی تحقیقات کے لئے ملک بھر میں اپنی آواز اٹھار رہی ہے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے پانامالیکس کے خلاف رائے ونڈ دھرنے میں جماعت اسلامی ساتھ نہیں دے گی کیونکہ ہم کسی کے پرائیویٹ گھر کے باہر دھرنا دینے کے قائل نہیں ہیں ۔

ڈاکٹر امجد
( جنرل سیکرٹری آل پاکستان مسلم لیگ)
ہمارے لیڈر پرویز مشرف نے ہمیشہ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اپنے دور اقتدار میں کبھی بھی ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک کے بینکوں میں نہیں بھجوائی اور نہ ہی ان کے خاندان پر اس طرح کا کوئی الزام آ یا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ملک اور عوام کی خدمت کا نعرہ لگایا اور بین الاقومی سطح پر پاکستان کا نام بلند کیا۔ آج وزیراعظم نواز شریف ٹیکس چوری کے سکینڈل پر کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔

ہماری جماعت پاناما لیکس کے مسئلے پر ملکی دولت لوٹنے اور اثاثے چھپانے کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کرتی ہے اور اس معاملے کی عالمی آڈٹ فرم سے شفاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتی ہے تاکہ پاکستان کے عوام جن کے خون پیسنے کی کمائی کا پیسہ حکمرانوں کی اولادیں اپنی عیاشیوں کیلئے بیرون ملک چھپائے بیٹھی ہیں ان کا کڑا احتساب ہو سکے۔ ہمارے لیڈر پرویز مشرف نے ہمیشہ بیرون ممالک سے پیسہ لا کر پاکستانی قوم کی تعمیر ترقی پر خرچ کیا اور ان کے دور میں ہی اقتدار عوامی نمائندوں تک پہنچایا گیا جس کی مثال آج تک عوام دے رہی ہے۔

ملکی دولت کو غیر ملکی بینکوں میں محض ٹیکس بچانے کیلئے رکھنا بذات خود ایک بڑا جرم ہے جس کا ارتکاب وزیراعظم کے خاندان نے کیا ہے ، انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے اور یہی پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف اس ملک کے صدر رہے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف پوری دنیا میں کیا جاتا ہے، موجودہ حکمرانوں نے پرویز مشرف کو بیرون ملک علاج کرانے کیلئے بھی بھجوانے کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کیں اور جس طرح انہیں عدالتوں کے چکر لگوائے گئے یہ سب کے سامنے ہیں اب جبکہ وزیراعظم نواز شریف کو ذرا سی تکلیف ہوئی ہے تو وہ علاج کروانے کیلئے لندن چلے گئے ہیں جبکہ اسی کام سے پرویز مشرف کو ایک عرصہ تک روکا گیا ہے۔

پاناما لیکس کے معاملے پر پوری دنیا کے مہذب حکمرانوں نے خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم پارلیمنٹ کو جواب دینے کی بجائے بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ ان کے وزراء پاناما لیکس کا معاملہ عوام کو بتانے کی بجائے دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین پر الزامات لگا رہے ہیں۔
Load Next Story