تو پھر کیا ہوگا
ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
لاہور:
اخبارات میں شایع ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق ملک میں 5 کروڑ 90 لاکھ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ملک میں 76 لاکھ افراد کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپوں سے کم ہے۔
ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں ایک دم اور حیران کن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ حقائق یا اعداد و شمار حکومتی رپورٹس کے مطابق ہیں جب کہ دیگر ذرایع سے وقتاً فوقتاً شایع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 53 فیصد ہے یہ سلسلہ نیا نہیں، بلکہ عشروں پرانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر 20 کروڑ عوام میں سے اتنی بھاری تعداد غریب کیوں ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہی ہے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس ملک کے مالک کون ہیں؟ شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے دور میں عوام کو رعایا کہا جاتا تھا، جس کا مطلب غلام تھا۔ جن لوگوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، انھیں غلام کہا جاتا ہے۔ شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے دور میں چونکہ انسانوں کے کوئی حقوق سوائے حکمرانوں کی اطاعت کے نہیں ہوتے تھے لہٰذا ان ادوار میں انسانوں کی حیثیت غلاموں جیسی ہوتی تھی۔
لیکن جب جدید دور کے مہذب انسان نے محسوس کیا کہ شخصی اور خاندانی حکمرانی کا مطلب انسانوں کی تذلیل ہے تو اس نے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جس میں عوام دست نگر سے بالادست ہو جائیں۔ اس نظام کو سیاسی زبان میں جمہوریت کہا گیا۔ بلاشبہ انسانوں کو غلامی سے نجات دلانے کی ایک اچھی کوشش تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ کوشش خلوص نیت سے نہیں کی گئی، بلکہ ایک گہری سازش کے تحت کی گئی جس کا مقصد جمہوریت کی آڑ میں ہر ملک کی مختصر سی اشرافیہ کو عوام کے سروں پر مسلط کرنا تھا، یہ کام اس خوبصورتی سے کیا گیا کہ بادی النظر میں جمہوری ملکوں کے عوام ہی ملک کے مالک نظر آنے لگے، اس سازش کے لیے وہ انتخابی نظام رائج کیا گیا جس میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کا اختیار عوام کو تو دیا گیا لیکن انتخابی نظام ایسا بنایا گیا کہ انتخابات میں صرف اشرافیہ کے لوگ ہی حصہ لے سکتے ہیں۔
یوں جمہوریت اشرافیہ کی حکمرانی کا ایک شاندار ذریعہ بن گئی۔ اور عملاً عوام بادشاہی دور کے غلام ہی بنے رہے۔ چونکہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے مکروہ چہرے پر ایک خوبصورت نقاب بنا کر ڈالی گئی تھی لہٰذا اس کا افسوں اب تک چل رہا ہے اور ملک کے اصل مالک عوام غلام بنے ہوئے ہیں۔ اب اس مسئلے کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔
ملک خواہ وہ جمہوری ہوں، شاہی یا آمرانہ ملک کی تمام دولت عوام ہی پیدا کرتے ہیں کھیتوں کھلیانوں سے لے کر شہروں کی بڑی بڑی مارکیٹوں تک جو اناج کے ذخیرے اور اشیا صرف کے انبار نظر آتے ہیں وہ اشرافیہ کے کسی فرد کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ غریب عوام ہی کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں اس حوالے سے بھی ہر جمہوری ملک کے مالک عوام ہی کو ہونا چاہیے اور اگر ملک کے مالک عوام ہوں گے تو ملکی دولت کے مالک بھی وہی ہوں گے اور دولت کے مالک کبھی غریب عوام نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام اپنے دشمنوں اور معاشی قاتلوں کو منتخب کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
اس پورے فسانے کا المناک اور مجرمانہ پہلو یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں پہنچ کر عوامی دولت کی لوٹ مار اس طرح کرتے ہیں کہ ملک کے اصل مالک اور ملکی دولت پیدا کرنے والے غربت بھوک اور افلاس کے پاتال میں پہنچ جاتے ہیں۔ آج ہماری حکومت کی جو رپورٹس میڈیا میں آ رہی ہیں اگرچہ وہ سو فیصد درست نہیں لیکن اگر بفرض محال انھیں درست مان بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی 18 کروڑ کی آبادی میں 5 کروڑ 90 لاکھ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہے ہیں اور ان کی غربت کا ذمے دار کون ہے۔
غربت کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے اعلیٰ حکام انکشاف کر چکے ہیں کہ سوئس بینکوں میں ''پاکستانیوں'' کے 200 ارب ڈالر جمع ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں کیا پاکستان کے مزدوروں نے جمع کیے ہیں؟ کسانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے غریبوں نے جمع کیے ہیں؟ نہیں وہ لوگ جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہ غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر کیسے جمع کر سکتے ہیں۔ یہ رقم ان ہی چوروں اور ڈاکوؤں کی ہے جنھیں عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچاتے ہیں۔
ظلم اور ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو طبقات اقتدار اور سیاست پر قابض ہیں وہ اپنے اختیارات کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے اس وڈیرہ شاہی جمہوریت میں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ولی عہدی نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان ناپاک کوششوں میں بھی عوام کی دولت ہی استعمال کر رہے ہیں۔
جب ملک کے عوام کی محنت کی کمائی کا 80 فیصد حصہ مٹھی بھر لٹیروں کے ہاتھوں میں چلا جائے اور حکمران اور ان کی اولاد عوام کی اس دولت کو مجرمانہ طریقوں سے باہر بھیج کر اس سے ''کاروبار'' کرنے لگے تو پھر ملک کی بھاری اکثریت کو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے سے کون روک سکتا ہے؟ قانون اور انصاف ہی وہ ہتھیار ہیں جو قانون توڑنے والوں کے ہاتھ پکڑ سکتے ہیں لیکن جس نظام میں قانون اور ریاستی مشینری اشرافیہ کے سینیٹری ٹاول بن کر رہ جاتے ہیں اس نظام میں ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کون رہ جاتا ہے؟
آج پانامہ لیکس کا چرچا صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہو رہا ہے، بظاہر تو کرپشن اور بدعنوانیوں کی ایک شرمناک داستان ہے لیکن اس کا اصل شکار وہ لوگ ہیں جنھیں ہماری سادہ زبان میں غریب کہا جاتا ہے۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں اگر 5 کروڑ 90 لاکھ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو انھیں غربت کی لکیر سے اوپر لانے کی دستوری جمہوری اور اخلاقی ذمے داری ان حکمرانوں پر بھی عاید ہوتی ہے جنھیں عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں جانے والوں کی اولاد جب لندن کے 650 کروڑ کے فلیٹ میں رہتی ہو تو بے چھتوں کے مکان ہی غریبوں کا مقدر بنے رہیں گے۔ میں کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ یہ خبریں پڑھ رہا ہوں کہ عوام ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں مار رہے ہیں، انھیں زندہ جلا رہے ہیں، تو مجھے خوف آ رہا ہے کہ عوام کی توجہ کا رخ اگر اربوں کھربوں کی عوامی دولت کے لٹیروں کی طرف ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟
اخبارات میں شایع ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق ملک میں 5 کروڑ 90 لاکھ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ملک میں 76 لاکھ افراد کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپوں سے کم ہے۔
ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں ایک دم اور حیران کن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ حقائق یا اعداد و شمار حکومتی رپورٹس کے مطابق ہیں جب کہ دیگر ذرایع سے وقتاً فوقتاً شایع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 53 فیصد ہے یہ سلسلہ نیا نہیں، بلکہ عشروں پرانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر 20 کروڑ عوام میں سے اتنی بھاری تعداد غریب کیوں ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہی ہے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس ملک کے مالک کون ہیں؟ شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے دور میں عوام کو رعایا کہا جاتا تھا، جس کا مطلب غلام تھا۔ جن لوگوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، انھیں غلام کہا جاتا ہے۔ شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے دور میں چونکہ انسانوں کے کوئی حقوق سوائے حکمرانوں کی اطاعت کے نہیں ہوتے تھے لہٰذا ان ادوار میں انسانوں کی حیثیت غلاموں جیسی ہوتی تھی۔
لیکن جب جدید دور کے مہذب انسان نے محسوس کیا کہ شخصی اور خاندانی حکمرانی کا مطلب انسانوں کی تذلیل ہے تو اس نے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جس میں عوام دست نگر سے بالادست ہو جائیں۔ اس نظام کو سیاسی زبان میں جمہوریت کہا گیا۔ بلاشبہ انسانوں کو غلامی سے نجات دلانے کی ایک اچھی کوشش تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ کوشش خلوص نیت سے نہیں کی گئی، بلکہ ایک گہری سازش کے تحت کی گئی جس کا مقصد جمہوریت کی آڑ میں ہر ملک کی مختصر سی اشرافیہ کو عوام کے سروں پر مسلط کرنا تھا، یہ کام اس خوبصورتی سے کیا گیا کہ بادی النظر میں جمہوری ملکوں کے عوام ہی ملک کے مالک نظر آنے لگے، اس سازش کے لیے وہ انتخابی نظام رائج کیا گیا جس میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کا اختیار عوام کو تو دیا گیا لیکن انتخابی نظام ایسا بنایا گیا کہ انتخابات میں صرف اشرافیہ کے لوگ ہی حصہ لے سکتے ہیں۔
یوں جمہوریت اشرافیہ کی حکمرانی کا ایک شاندار ذریعہ بن گئی۔ اور عملاً عوام بادشاہی دور کے غلام ہی بنے رہے۔ چونکہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے مکروہ چہرے پر ایک خوبصورت نقاب بنا کر ڈالی گئی تھی لہٰذا اس کا افسوں اب تک چل رہا ہے اور ملک کے اصل مالک عوام غلام بنے ہوئے ہیں۔ اب اس مسئلے کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔
ملک خواہ وہ جمہوری ہوں، شاہی یا آمرانہ ملک کی تمام دولت عوام ہی پیدا کرتے ہیں کھیتوں کھلیانوں سے لے کر شہروں کی بڑی بڑی مارکیٹوں تک جو اناج کے ذخیرے اور اشیا صرف کے انبار نظر آتے ہیں وہ اشرافیہ کے کسی فرد کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ غریب عوام ہی کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں اس حوالے سے بھی ہر جمہوری ملک کے مالک عوام ہی کو ہونا چاہیے اور اگر ملک کے مالک عوام ہوں گے تو ملکی دولت کے مالک بھی وہی ہوں گے اور دولت کے مالک کبھی غریب عوام نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام اپنے دشمنوں اور معاشی قاتلوں کو منتخب کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
اس پورے فسانے کا المناک اور مجرمانہ پہلو یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں اور حکومتوں میں پہنچ کر عوامی دولت کی لوٹ مار اس طرح کرتے ہیں کہ ملک کے اصل مالک اور ملکی دولت پیدا کرنے والے غربت بھوک اور افلاس کے پاتال میں پہنچ جاتے ہیں۔ آج ہماری حکومت کی جو رپورٹس میڈیا میں آ رہی ہیں اگرچہ وہ سو فیصد درست نہیں لیکن اگر بفرض محال انھیں درست مان بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی 18 کروڑ کی آبادی میں 5 کروڑ 90 لاکھ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہے ہیں اور ان کی غربت کا ذمے دار کون ہے۔
غربت کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے اعلیٰ حکام انکشاف کر چکے ہیں کہ سوئس بینکوں میں ''پاکستانیوں'' کے 200 ارب ڈالر جمع ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں کیا پاکستان کے مزدوروں نے جمع کیے ہیں؟ کسانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے غریبوں نے جمع کیے ہیں؟ نہیں وہ لوگ جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہ غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر کیسے جمع کر سکتے ہیں۔ یہ رقم ان ہی چوروں اور ڈاکوؤں کی ہے جنھیں عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچاتے ہیں۔
ظلم اور ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو طبقات اقتدار اور سیاست پر قابض ہیں وہ اپنے اختیارات کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے اس وڈیرہ شاہی جمہوریت میں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ولی عہدی نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان ناپاک کوششوں میں بھی عوام کی دولت ہی استعمال کر رہے ہیں۔
جب ملک کے عوام کی محنت کی کمائی کا 80 فیصد حصہ مٹھی بھر لٹیروں کے ہاتھوں میں چلا جائے اور حکمران اور ان کی اولاد عوام کی اس دولت کو مجرمانہ طریقوں سے باہر بھیج کر اس سے ''کاروبار'' کرنے لگے تو پھر ملک کی بھاری اکثریت کو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے سے کون روک سکتا ہے؟ قانون اور انصاف ہی وہ ہتھیار ہیں جو قانون توڑنے والوں کے ہاتھ پکڑ سکتے ہیں لیکن جس نظام میں قانون اور ریاستی مشینری اشرافیہ کے سینیٹری ٹاول بن کر رہ جاتے ہیں اس نظام میں ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کون رہ جاتا ہے؟
آج پانامہ لیکس کا چرچا صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہو رہا ہے، بظاہر تو کرپشن اور بدعنوانیوں کی ایک شرمناک داستان ہے لیکن اس کا اصل شکار وہ لوگ ہیں جنھیں ہماری سادہ زبان میں غریب کہا جاتا ہے۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں اگر 5 کروڑ 90 لاکھ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو انھیں غربت کی لکیر سے اوپر لانے کی دستوری جمہوری اور اخلاقی ذمے داری ان حکمرانوں پر بھی عاید ہوتی ہے جنھیں عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں جانے والوں کی اولاد جب لندن کے 650 کروڑ کے فلیٹ میں رہتی ہو تو بے چھتوں کے مکان ہی غریبوں کا مقدر بنے رہیں گے۔ میں کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ یہ خبریں پڑھ رہا ہوں کہ عوام ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں مار رہے ہیں، انھیں زندہ جلا رہے ہیں، تو مجھے خوف آ رہا ہے کہ عوام کی توجہ کا رخ اگر اربوں کھربوں کی عوامی دولت کے لٹیروں کی طرف ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟