مجموعی دستاویزات کا صرف 20 فیصد سامنے آیا ہے

پانامہ لیکس پوری دنیا میں زیر بحث ہیں‘ اس کے اثرات سے پوری دنیا لرز رہی ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

پانامہ لیکس پوری دنیا میں زیر بحث ہیں' اس کے اثرات سے پوری دنیا لرز رہی ہے۔ اس مہینے تین اپریل کو یہ اچانک سامنے آئے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک جرمن اخبار کو ایک نا معلوم فرد نے ٹیلیفون کیا اور یہ معلومات دینے کی پیش کش کی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے یہ معلومات فراہم کرنے کا کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لیکس ایک کروڑ دستاویزات پر مشتمل ہیں۔

لیکن ان دستاویزات کا حجم اتنا بڑا تھا کہ یہ کسی ایک اخبار یا چند صحافیوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ ان انکشافات کو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کے حوالے کیا گیا جس میں دنیا کے 80 ممالک کے ایک سو اشاعتی ادارے اور چار سو صحافی شامل تھے جو ایک سال تک ان دستاویزات کے بارے میں تحقیق کرتے رہے۔ ان پیپرز نے انکشاف کیا ہے کہ لندن دنیا کی ٹیکس ہیونز کا مرکز ہے اور خفیہ دولت رکھنے والی ہزاروں کمپنیوں کا تعلق برطانیہ سے ہے اور یہ دولت وہاں انوسٹ کی جاتی ہے جس میں زیادہ تر رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ہے۔ ایک لاکھ دس ہزار دولت چھپانے والی کمپنیوں کا تعلق ورجن آئی لینڈ سے ہے۔ دولت چھپانے والی تین لاکھ دس ہزار کمپنیوں نے 240 ارب ڈالر برطانیہ کے پراپرٹی کے شعبے میں انویسٹ کیے۔

پانامہ لیکس میں بہت سے ممالک کے علاوہ اعلیٰ ترین شخصیات اور کئی سربراہان مملکت بھی شامل ہیں۔ اب تک جو پیپرز سامنے آئے ہیں' وہ مجموعی دستاویزات کا صرف 20 فیصد ہیں۔ پاکستان سے بھی 215 افراد کی فہرست سامنے آئی ہے۔ پانامہ پیپرز کے مطابق متحدہ عرب امارات کے سربراہ کے لندن میں دو ارب ڈالر آف شور کمپنیوں میں شامل ہیں۔

یورپی ممالک کے رہنماؤں نے ٹیکس کی ادائیگی میں دھوکا دہی کرنے والوں کے خلاف ایکشن کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں فرانس کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ چار سال بعد پانامہ کو پھر ٹیکس ہیونز کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا، جب کہ دیگر ممالک کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ پانامہ ایک ملک کا نام ہے جو مختلف جزائر پر مشتمل ہے۔ پانامہ کی لاء کمپنی نے کہا ہے کہ معلومات کے افشا ہونے میں اندرونی ہاتھ نہیں بلکہ کمپنی کے بیرون ملک میں قائم سرورز کے ذریعے ہیک کیا گیا۔


پاکستان میں بھی ان لیکس کے حوالے سے جو نام سامنے آئے ہیں اس میں سب سے اہم نام وزیراعظم کے صاحب زادے حسین نواز کا ہے جس نے پاکستانی سیاست میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پانامہ پیپرز بعد میں سامنے آئے اور حسین نواز نے اپنی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں چند ہفتے پہلے ہی کر لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انھیں علم ہو گیا تھا کہ لیکس سامنے آنے والی ہیں۔ اس کے ساتھ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں یہ کہا ہے کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ لندن والے فلیٹس وزیراعظم نواز شریف کے ہیں اور بڑے عرصے سے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثوں میں یہ فلیٹس ظاہر نہیں کیے۔ معترضین سخت الزامات عائد کر رہے ہیں۔ یہ الزامات شریف فیملی کی سیاسی ساکھ کو عوام میں سخت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

نواز شریف 1980 ء کی دہائی کے آغاز میں صوبائی وزیر خزانہ بنے پھر مختصر وقفوں کے ساتھ پنجاب اور وفاق میں 18 سال ان کی حکومت رہی۔ پھر بڑا وقفہ آیا جو 2007ء تک جاری رہا۔ 2008ء میں پنجاب میں دوبارہ اقتدار ملا چند سال بعد وفاق میں بھی حکومت قائم ہو گئی۔ اس وقت شریف برادران کو پنجاب اور وفاق میں حکومت کرتے ہوئے آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اس وقت ان کا اقتدار فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ 2016ء ان کے لیے سخت آزمائشی سال ہے۔ اپریل اور اس سے آگے کئی طرح کی آزمائشیں ان کا انتظار کر رہی ہیں۔

پانامہ لیکس پر امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے' جس میں اس نے کہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے متعلق کوئی بھی فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے۔ بہر حال اب آنے والا وقت بتائے گا کہ پانامہ لیکس پر پاکستان میں کیا ہوتا ہے' یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے کاروباری طبقے خود ٹیکس چور ہیں' عوام کا رویہ بھی ایسا ہی ہے' کیا وہ پانامہ لیکس کے مسئلے پر سڑکوں پر آئیں گے' جس طرح آئس لینڈ یا برطانیہ کے عوام سڑکوں پر آئے ہیں' ابھی تک تو صورت حال مایوس کن ہے' آگے دیکھتے ہیں' کیا ہوتا ہے۔

پانامہ پیپرز کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا پتہ اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں چلے گا۔
Load Next Story