آزاد سائنس اور صحت عامہ
سائنس کی ترقی کسی بھی سماج کو آگے لے جانے میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
سائنس کی ترقی کسی بھی سماج کو آگے لے جانے میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ صرف اور صرف جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی بنیاد پر ہی سماج کو ماضی کے اندھیروں، تنگ نظری، بیماری، محرومی، ذہنی پسماندگی اور غربت کی دلدل سے نکالا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اسے سرمایہ داروں کے بجائے عوام کے لیے استعمال کیا جائے۔ تاہم موجودہ نظام کی معاشی بنیاد سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے ارتقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں سائنسی دریافتیں اور ایجادات نہ پوشیدہ رکھی جاسکتی ہیں اور نہ ہی انھیں محدود رکھ کر دوسرے ملکوں کو محروم رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن سائنسی ایجادات اور تکنیکی ارتقاء پر سامراج کے کنٹرول اور اجارہ داری کے باعث ان کا استعمال نوآبادیاتی ممالک کے مزید استحصال کے لیے کیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات کی نجی ملکیت کی وجہ سے انھیں انسانیت کی فلاح و بہبود اور محرومیوں کے خاتمے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ بڑے سرمایہ دار اور کمپنیاں ان ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنے منافعوں کے حصول اور دولت کے انبار لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انقلابی حکومت جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کو نجی ملکیت سے آزاد کرائے گی اور اسے محنت کش عوام کی اجتماعی مدد کے لیے استعمال کرے گی۔ انقلابی حکومت سائنسی تحقیق کو انقلابی خطوط پر استوار کرے گی۔
سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ان شعبوں میں تحقیق کرنے والے افراد اور ماہرین کو خصوصی مراعات اور اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا جائے گا۔ ہر سطح پر سائنسی تحقیق اور تجربات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ان تمام اقدامات کو سوچ کے اظہار سے علٰیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ضمیر اور سوچ کی آزادی عوام میں اظہار کی آزادی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہر شخص کو اپنا نظریہ اور خیالات رکھنے کا حق حاصل ہے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا دراصل کسی بھی جمہوری، مہذب اور فطری معاشرے کی پہچان ہے۔ اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہونا لازم وملزوم ہے۔
اظہار رائے پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ نت نئے خیالات اور سوچ کو سامنے لانے اور پروان چڑھانے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ کھلی بحثوں اور جمہوری مباحثوں کی روایات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ نظریاتی یا سیاسی اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو ریاستی تشدد یا ہراساں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام الیکٹرونک اور پرنٹنگ میڈیا کو سرمائے اور سیاستی افسرشاہی اور بے جا جکڑبندیوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ پرنٹنگ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی حقیقی جمہوریت کا لازمی جز ہے، تاہم موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں مالیاتی سرمائے کے بلاواسطہ یا بالواسطہ تسلط کے باعث اس حقیقی آزادی کا تصور ممکن نہیں۔ اظہار تقریر، تحریر، میڈیا، اخبارات، ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کی رائے اور خیالات پر عائد سخت پابندیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور انقلابی اقدامات کے ذریعے اظہار اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔
اخبارات، ٹی وی چینلوں کو نجی ملکیت سے آزاد کرکے صحافیوں، دانشوروں، محنت کشوں اور سماج کے اجتماعی اور جمہوری اقدار میں دینا ہوگا، جس سے میڈیا پر سرمایہ داروں اور ریاستی افسر شاہی کے بے پناہ اثر ورسوخ اور اجارہ داری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ صحت کا شعبہ بھی منافع خوری اور دولت کے انبار لگانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ فائیو اسٹار پرائیویٹ اسپتال اور کلینک اربوں روپے منافع کمارہے ہیں اور صحت جیسی بنیادی سہولت کو کاروبار بنادیا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر صحت پر شرمناک حد تک کم خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان صحت کے شعبے پر تقریباً جی ڈی پی کا ایک فیصد خرچ کرتا ہے، جس کی وجہ سے غریب عوام اس بنیادی سہو لت سے محروم ہیں اور اسپتال میں علاج کروانے کے بجائے غیر سائنسی طریقہ علاج کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ آج صحت کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے اور ریاست اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے صحت کی سہولتوں کا معیار گر رہا ہے۔
ان حالات میں انقلابی اقدامات اٹھائے بغیر محنت کش عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ مزدوروں، کسانوں اور درمیانے طبقے کی منتخب اور جمہوری حکومت کو جی ڈی پی کا کم از کم دس فیصد صحت پر خرچ کرنا ہوگا۔ نئے میڈیکل کالج، نرسنگ اسکول، پیرامیڈیکل اسٹاف، ٹریننگ سینٹر اور جدید اسپتال، شہروں اور دیہاتوں میں قائم کرنے ہوں گے۔ محنت کش عوام میں صحت اور غذائیت سے آگاہی اور بیماریوں سے بچاؤ کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ہر علاقے میں صحت کی مقامی عوامی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کو فراہم کرنے والے سرکاری ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل اسٹاف کو خصوصی مراعات دینی ہوں گی، ان کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرنا ہوگا۔ غربت اور معاشی بدحالی کے خاتمے سے غربت کی تمام بیماریوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ میڈیکل سائنس میں تحقیق اور جدید تکنیک کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہر علاقے میں ہیلتھ سروس کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ پورے خطے میں صحت کی یکساں سہولیات فراہم ہوسکیں اور ہر شہری کو صحت کی بہترین سہولت ملے۔ ادویات سازی کی بڑی فیکٹریوں کو عوامی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے اجتماعی اور جمہوری نگرانی میں دینا ہوگا۔ نئی ادویات ویکسین کی تیاری کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنا ہوگا۔ اس شعبے میں تحقیق اور تجربات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی ہوگی بلکہ خصوصی فنڈ قائم کرنا ہوگا اور خصوصی مراعات بھی دینا ہوں گی۔
تمام اسپتال ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل، اسٹاف نرسوں اور محنت کش عوام کی منتخب اور جمہوری کمیٹیوں کے اختیارات میں ہوں گے۔ اسپتال میں ریاستی افسر شاہی اور سرمائے کی مداخلت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سستی اور بہترین معیاری ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ادویات کی سرکاری اسپتالوں میں مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ دیہی مراکز صحت کی مرمت، جدید آلات اور ادویات کی فراہمی، ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا جس میں مقامی سطح پر لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
ہنگامی بنیادوں پر دیہاتوں اور خصوصاً پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں نئے اسپتال اور صحت کے مراکز قائم کرنے ہوں گے۔ نکاسی آب کی جدید بنیادی ڈھانچے کے لیے فوری پروگرام شروع کرنا ہوگا۔ آلودگی کے خاتمے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ خراب ماحول اور غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا ہمیشہ کے لیے مکمل خاتمہ ہوسکے۔ تب جاکر عوام کے مسائل ایک حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل خاتمہ ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے۔
آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں سائنسی دریافتیں اور ایجادات نہ پوشیدہ رکھی جاسکتی ہیں اور نہ ہی انھیں محدود رکھ کر دوسرے ملکوں کو محروم رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن سائنسی ایجادات اور تکنیکی ارتقاء پر سامراج کے کنٹرول اور اجارہ داری کے باعث ان کا استعمال نوآبادیاتی ممالک کے مزید استحصال کے لیے کیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات کی نجی ملکیت کی وجہ سے انھیں انسانیت کی فلاح و بہبود اور محرومیوں کے خاتمے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ بڑے سرمایہ دار اور کمپنیاں ان ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنے منافعوں کے حصول اور دولت کے انبار لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انقلابی حکومت جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کو نجی ملکیت سے آزاد کرائے گی اور اسے محنت کش عوام کی اجتماعی مدد کے لیے استعمال کرے گی۔ انقلابی حکومت سائنسی تحقیق کو انقلابی خطوط پر استوار کرے گی۔
سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ان شعبوں میں تحقیق کرنے والے افراد اور ماہرین کو خصوصی مراعات اور اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا جائے گا۔ ہر سطح پر سائنسی تحقیق اور تجربات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ان تمام اقدامات کو سوچ کے اظہار سے علٰیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ضمیر اور سوچ کی آزادی عوام میں اظہار کی آزادی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہر شخص کو اپنا نظریہ اور خیالات رکھنے کا حق حاصل ہے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا دراصل کسی بھی جمہوری، مہذب اور فطری معاشرے کی پہچان ہے۔ اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہونا لازم وملزوم ہے۔
اظہار رائے پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ نت نئے خیالات اور سوچ کو سامنے لانے اور پروان چڑھانے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ کھلی بحثوں اور جمہوری مباحثوں کی روایات کو مضبوط بنانا ہوگا۔ نظریاتی یا سیاسی اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو ریاستی تشدد یا ہراساں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام الیکٹرونک اور پرنٹنگ میڈیا کو سرمائے اور سیاستی افسرشاہی اور بے جا جکڑبندیوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ پرنٹنگ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی حقیقی جمہوریت کا لازمی جز ہے، تاہم موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں مالیاتی سرمائے کے بلاواسطہ یا بالواسطہ تسلط کے باعث اس حقیقی آزادی کا تصور ممکن نہیں۔ اظہار تقریر، تحریر، میڈیا، اخبارات، ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کی رائے اور خیالات پر عائد سخت پابندیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور انقلابی اقدامات کے ذریعے اظہار اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔
اخبارات، ٹی وی چینلوں کو نجی ملکیت سے آزاد کرکے صحافیوں، دانشوروں، محنت کشوں اور سماج کے اجتماعی اور جمہوری اقدار میں دینا ہوگا، جس سے میڈیا پر سرمایہ داروں اور ریاستی افسر شاہی کے بے پناہ اثر ورسوخ اور اجارہ داری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ صحت کا شعبہ بھی منافع خوری اور دولت کے انبار لگانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ فائیو اسٹار پرائیویٹ اسپتال اور کلینک اربوں روپے منافع کمارہے ہیں اور صحت جیسی بنیادی سہولت کو کاروبار بنادیا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر صحت پر شرمناک حد تک کم خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان صحت کے شعبے پر تقریباً جی ڈی پی کا ایک فیصد خرچ کرتا ہے، جس کی وجہ سے غریب عوام اس بنیادی سہو لت سے محروم ہیں اور اسپتال میں علاج کروانے کے بجائے غیر سائنسی طریقہ علاج کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ آج صحت کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے اور ریاست اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے صحت کی سہولتوں کا معیار گر رہا ہے۔
ان حالات میں انقلابی اقدامات اٹھائے بغیر محنت کش عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ مزدوروں، کسانوں اور درمیانے طبقے کی منتخب اور جمہوری حکومت کو جی ڈی پی کا کم از کم دس فیصد صحت پر خرچ کرنا ہوگا۔ نئے میڈیکل کالج، نرسنگ اسکول، پیرامیڈیکل اسٹاف، ٹریننگ سینٹر اور جدید اسپتال، شہروں اور دیہاتوں میں قائم کرنے ہوں گے۔ محنت کش عوام میں صحت اور غذائیت سے آگاہی اور بیماریوں سے بچاؤ کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ہر علاقے میں صحت کی مقامی عوامی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی۔
دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کو فراہم کرنے والے سرکاری ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل اسٹاف کو خصوصی مراعات دینی ہوں گی، ان کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرنا ہوگا۔ غربت اور معاشی بدحالی کے خاتمے سے غربت کی تمام بیماریوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ میڈیکل سائنس میں تحقیق اور جدید تکنیک کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہر علاقے میں ہیلتھ سروس کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ پورے خطے میں صحت کی یکساں سہولیات فراہم ہوسکیں اور ہر شہری کو صحت کی بہترین سہولت ملے۔ ادویات سازی کی بڑی فیکٹریوں کو عوامی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے اجتماعی اور جمہوری نگرانی میں دینا ہوگا۔ نئی ادویات ویکسین کی تیاری کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنا ہوگا۔ اس شعبے میں تحقیق اور تجربات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی ہوگی بلکہ خصوصی فنڈ قائم کرنا ہوگا اور خصوصی مراعات بھی دینا ہوں گی۔
تمام اسپتال ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل، اسٹاف نرسوں اور محنت کش عوام کی منتخب اور جمہوری کمیٹیوں کے اختیارات میں ہوں گے۔ اسپتال میں ریاستی افسر شاہی اور سرمائے کی مداخلت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سستی اور بہترین معیاری ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ادویات کی سرکاری اسپتالوں میں مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ دیہی مراکز صحت کی مرمت، جدید آلات اور ادویات کی فراہمی، ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا جس میں مقامی سطح پر لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
ہنگامی بنیادوں پر دیہاتوں اور خصوصاً پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں نئے اسپتال اور صحت کے مراکز قائم کرنے ہوں گے۔ نکاسی آب کی جدید بنیادی ڈھانچے کے لیے فوری پروگرام شروع کرنا ہوگا۔ آلودگی کے خاتمے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ خراب ماحول اور غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا ہمیشہ کے لیے مکمل خاتمہ ہوسکے۔ تب جاکر عوام کے مسائل ایک حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل خاتمہ ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے۔