عوام کا اعتماد
جب سے پانامہ لیکس منظر عام پر آئی ہیں، پی پی والے اپنا راگ الاپ رہے ہیں
جب سے پانامہ لیکس منظر عام پر آئی ہیں، پی پی والے اپنا راگ الاپ رہے ہیں تو عمران خان اپنا، حکومت تو اپنے دفاع میں دیوانی ہوئی چلی جارہی ہے، مگر عوام کے مسائل کیا ہیں؟ انھیں کون اور کیسے حل کرے گا؟،کسی کوکوئی پرواہ نہیں۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کو قانونی اور جمہوری ہر تحفظ حاصل ہے۔ تھانوں، کچہریوں میں ہونے والی کرپشن سے بھلا کون آشنا نہیں؟ جس سے کروڑوں عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بجلی اور پانی فراہم کرنے والے اداروں کی کرپشن کیوں ان رہنماؤں کو نظر نہیں آتی؟ جس نے ملک کے تمام امیر اور غریب ہر طبقے کے عوام کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کیوں ان اداروں کے خلاف یا ان میں اصلاحات لانے کے لیے کوئی تحریک یا مہم چلانے کی کسی کو آج تک توفیق نہیں ہوئی؟ مگر افسوس کہ ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھیں عوام کے مفاد کے لیے کچھ نہیں کرنا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد سے قومی ایکشن پلان کے نام پر ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایک مہم شروع کی گئی تھی، جس میں کرپشن کے خلاف کارروائی کو بھی اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ ناجائز اور غیرقانونی ذرایع سے حاصل شدہ رقوم کو دہشت گردوں کی معاونت لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مہم کا رخ خالصتاً سندھ کی جانب رکھا گیا تھا، مگر سندھ میں پیپلزپارٹی بھی جو اس حوالے سے حکومت کا ہدف تھی، صوبائی حکومت اس کے پاس تھی، اس لیے آپریشن کا دائرہ کار کراچی اور بالخصوص ایم کیو ایم تک محدود رکھا جاسکا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق حکومت کے مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی مگر اس کی وجوہات یہی بتائی گئیں کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز کا اپنے اسپتال میں علاج کیا، بعد میں ڈاکٹر عاصم پر ساڑھے چار سو ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔
مگر ڈاکٹر عاصم سے متعلق تمام تر کارروائی کا تعلق ان کے ایم کیو ایم سے روابط تھے۔ ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کو زچ کرنے کے لیے عزیر بلوچ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی یا ظاہر کی گئی۔ عزیر بلوچ کے انکشافات کے بعد جب پیپلزپارٹی کی قیادت کو خود سے متعلق حکومت کی نیت میں خرابی نظر آنے لگی تو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے امریکا کا رخ کیا، جہاں ان کے ساتھی پہلے ہی امریکی لابی سے رابطوں میں مصروف تھے۔
آصف زرداری نے نیویارک کے مہنگے ترین علاقے 'ہیٹن' میں اپنے ایک قریبی ساتھی سابق وفاقی وزیر کے اپارٹمنٹ میں ڈیرے ڈال دیے۔ آصف زرداری کی فریاد ان کے احباب جلد ہی وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے اور انھیں امریکا کے صدر بارک اوباما کی جانب سے ناشتے کی دعوت مل گئی۔ آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی فوری طور پر نیویارک طلب کرلیا اور امریکی صدر بارک اوباما کے ناشتے میں شرکت کی۔ سابق صدر آصف زرداری نے اس دوران اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ تو نہیں پتہ کہ آصف زرداری اور ان کے دوستوں نے امریکی حکام سے کیا گفتگو کی، البتہ اس ناشتے کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک نئی ہلچل ضرور پیدا ہوگئی۔
آصف زرداری کی امریکی حکام سے ملاقات کے بعد کرپشن کے خلاف جاری حکومتی مہم کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ سندھ کا پیچھا چھوڑ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے کرپٹ عناصر کوگھورنا شروع کردیا گیا، ادھر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا رخ بھی سندھ سے ہٹ کر پنجاب کی جانب منتقل ہوگیا۔
امریکی صدر کے ناشتے میں شرکت سے پہلے ہی آصف زرداری، خورشید شاہ اور رحمن ملک کو وفاق کے ساتھ رابطے اور معاملات بہتر بنانے کے لیے سیاسی قیادت سے رابطوں کا ٹاسک دے چکے تھے اور پارٹی رہنماؤں کو جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں اور حکومت کے خلاف بیان بازی سے بھی روک دیا تھا۔اسی دوران آصف زرداری نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی بیان جاری کرکے عسکری قیادت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جب کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی نے جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں قرارداد بھی جمع کروائی تھی۔
آصف زرداری کی امریکی حکام سے ملاقاتوں کے فوراً بعد ہی پیپلزپارٹی پر چھائے مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگے تھے، پیپلز پارٹی کی پوزیشن بھی مضبوط ہونا شروع ہوگئی تھی، پھر اچانک ہی پانامہ لیکس نے ایک طوفان برپا کردیا۔ عمران خان جو حکومت کے خلاف موقع کی تلاش میں تھے، بھرپور موقع ہاتھ آنے پر انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ رائے ونڈ میں دھرنے کا اعلان کردیا۔ عمران خان کے میدان میں آتے ہی، پیپلزپارٹی کی اہمیت بڑھ گئی۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی وزیراعظم کے خلاف اس مہم میں ان کا ساتھ دے، جب کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی ''جمہوریت'' کے خلاف کسی بھی ''سازش'' کا حصہ نہ بنے۔
حسب روایت، بالکل اسی طرح جس طرح پہلے آصف علی زرداری اور پھر پرویز مشرف علاج کا بہانہ بناکر ملک سے چلے گئے تھے، اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے، حالیہ دنوں وزیراعظم نواز شریف بھی ''علاج'' کے لیے ''براستہ ماسکو'' برطانیہ جاچکے ہیں، انھوں نے بھی جاتے ہوئے وطن واپسی کا یقین دلایا ہے، مگر توقع ہے کہ وزیراعظم چند دنوں میں ضرور واپس آجائیں گے کیونکہ اس وزیراعظم کا معاملہ آصف زرداری کی حالیہ نہیں بلکہ اس سے پہلے ان کے دور حکومت (2011) میں ''علاج'' کے لیے دبئی روانگی سے مطابقت رکھتا ہے۔
آصف زرداری بھی دل کا چیک اپ کرانے دبئی گئے تھے اور تقریباً پندرہ روز وہاں رہے جب کہ ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر اس دوران تواتر کے ساتھ یہ یقین دلاتے رہے کہ صدر زرداری علاج ہی کے لیے دبئی گئے ہیں، ان کی روانگی کا ''میموگیٹ'' اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ہے، وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی بھی یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں صاحب کی روانگی کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ آصف زرداری سے ملاقات کے لیے گئے ہیں، البتہ ''علاج معالجے'' میں وقت کا تعین ڈاکٹرز کریں گے۔
ہوسکتا ہے کہ علاج کا یہ دورانیہ بھی دو ہفتے پر محیط ہو، اور اسی لیے وزارت عظمیٰ کے تمام اختیارات وزیراعظم جاتے ہوئے وزیرخزانہ اسحق ڈار کو سونپ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی لندن پہنچ چکے ہیں، ''اتفاق'' سے عمران خان بھی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ اسی جہاز پر سوار ہوکر ''بڑے پیر'' کے دربار میں حاضری کے لیے گئے ہیں۔
کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کو جب بھی کوئی ''مرض'' لاحق ہوتا ہے تو علاج کے لیے امریکا، برطانیہ یا دبئی کا رخ کرتے ہیں، بلکہ اب تو یہ رجحان اس قدر فروغ پاچکا ہے کہ محکمہ پولیس اور دیگر محکموں کے افسران بھی علاج کے نام پر اپنی ''نیکیوں'' کا صلہ لینے کے لیے امریکا اور برطانیہ چلے جاتے ہیں۔
خیر یہ بات تو ماننا ہوگی کہ پانامہ لیکس نے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں، اور یہ بھی حکمرانوں کو اس بات کا بھرپور اندازہ تھا کہ برائی کسی بھی وقت اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، شاید اسی لیے حکومت نے کسی بھی عوامی فلاح کے منصوبے پر توجہ دینے کے بجائے بڑے بڑے منصوبوں پر ہاتھ ڈالا تاکہ وقت برباد کیے بغیر اپنا ''ہدف'' پورا کرلیا جائے۔
کاش ہمارے حکمرانوں نے اپنے وطن کے عوام کے لیے کچھ سوچا ہوتا، انھیںکچھ ریلیف فراہم کیا ہوتا، بھوک اور بیماریوں سے مرتے بچوں اور ماں باپ کی دعائیں سمیٹی ہوتیں، توانائی فراہمی کے منصوبوں پر ایمانداری سے عمل کیا ہوتا، ٹیکسوں میں کمی کرکے مہنگائی کی شرح کم کی ہوتی، چھوٹے کرپٹ عناصر کو گرفت میں لاکر لوگوں کے لیے سکھ کا انتظام کیا ہوتا تو انھیں آج لندن اور امریکا جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ نہ جانے ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر کوئی بھی حکومت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلے تو امریکا، برطانیہ اور اسٹبلشمنٹ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کو قانونی اور جمہوری ہر تحفظ حاصل ہے۔ تھانوں، کچہریوں میں ہونے والی کرپشن سے بھلا کون آشنا نہیں؟ جس سے کروڑوں عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بجلی اور پانی فراہم کرنے والے اداروں کی کرپشن کیوں ان رہنماؤں کو نظر نہیں آتی؟ جس نے ملک کے تمام امیر اور غریب ہر طبقے کے عوام کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کیوں ان اداروں کے خلاف یا ان میں اصلاحات لانے کے لیے کوئی تحریک یا مہم چلانے کی کسی کو آج تک توفیق نہیں ہوئی؟ مگر افسوس کہ ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھیں عوام کے مفاد کے لیے کچھ نہیں کرنا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد سے قومی ایکشن پلان کے نام پر ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایک مہم شروع کی گئی تھی، جس میں کرپشن کے خلاف کارروائی کو بھی اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ ناجائز اور غیرقانونی ذرایع سے حاصل شدہ رقوم کو دہشت گردوں کی معاونت لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مہم کا رخ خالصتاً سندھ کی جانب رکھا گیا تھا، مگر سندھ میں پیپلزپارٹی بھی جو اس حوالے سے حکومت کا ہدف تھی، صوبائی حکومت اس کے پاس تھی، اس لیے آپریشن کا دائرہ کار کراچی اور بالخصوص ایم کیو ایم تک محدود رکھا جاسکا۔ اگرچہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق حکومت کے مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی مگر اس کی وجوہات یہی بتائی گئیں کہ انھوں نے ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز کا اپنے اسپتال میں علاج کیا، بعد میں ڈاکٹر عاصم پر ساڑھے چار سو ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔
مگر ڈاکٹر عاصم سے متعلق تمام تر کارروائی کا تعلق ان کے ایم کیو ایم سے روابط تھے۔ ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کو زچ کرنے کے لیے عزیر بلوچ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی یا ظاہر کی گئی۔ عزیر بلوچ کے انکشافات کے بعد جب پیپلزپارٹی کی قیادت کو خود سے متعلق حکومت کی نیت میں خرابی نظر آنے لگی تو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے امریکا کا رخ کیا، جہاں ان کے ساتھی پہلے ہی امریکی لابی سے رابطوں میں مصروف تھے۔
آصف زرداری نے نیویارک کے مہنگے ترین علاقے 'ہیٹن' میں اپنے ایک قریبی ساتھی سابق وفاقی وزیر کے اپارٹمنٹ میں ڈیرے ڈال دیے۔ آصف زرداری کی فریاد ان کے احباب جلد ہی وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے اور انھیں امریکا کے صدر بارک اوباما کی جانب سے ناشتے کی دعوت مل گئی۔ آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی فوری طور پر نیویارک طلب کرلیا اور امریکی صدر بارک اوباما کے ناشتے میں شرکت کی۔ سابق صدر آصف زرداری نے اس دوران اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ تو نہیں پتہ کہ آصف زرداری اور ان کے دوستوں نے امریکی حکام سے کیا گفتگو کی، البتہ اس ناشتے کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک نئی ہلچل ضرور پیدا ہوگئی۔
آصف زرداری کی امریکی حکام سے ملاقات کے بعد کرپشن کے خلاف جاری حکومتی مہم کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ سندھ کا پیچھا چھوڑ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے کرپٹ عناصر کوگھورنا شروع کردیا گیا، ادھر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا رخ بھی سندھ سے ہٹ کر پنجاب کی جانب منتقل ہوگیا۔
امریکی صدر کے ناشتے میں شرکت سے پہلے ہی آصف زرداری، خورشید شاہ اور رحمن ملک کو وفاق کے ساتھ رابطے اور معاملات بہتر بنانے کے لیے سیاسی قیادت سے رابطوں کا ٹاسک دے چکے تھے اور پارٹی رہنماؤں کو جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں اور حکومت کے خلاف بیان بازی سے بھی روک دیا تھا۔اسی دوران آصف زرداری نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی بیان جاری کرکے عسکری قیادت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جب کہ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی نے جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں قرارداد بھی جمع کروائی تھی۔
آصف زرداری کی امریکی حکام سے ملاقاتوں کے فوراً بعد ہی پیپلزپارٹی پر چھائے مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگے تھے، پیپلز پارٹی کی پوزیشن بھی مضبوط ہونا شروع ہوگئی تھی، پھر اچانک ہی پانامہ لیکس نے ایک طوفان برپا کردیا۔ عمران خان جو حکومت کے خلاف موقع کی تلاش میں تھے، بھرپور موقع ہاتھ آنے پر انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ رائے ونڈ میں دھرنے کا اعلان کردیا۔ عمران خان کے میدان میں آتے ہی، پیپلزپارٹی کی اہمیت بڑھ گئی۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی وزیراعظم کے خلاف اس مہم میں ان کا ساتھ دے، جب کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی ''جمہوریت'' کے خلاف کسی بھی ''سازش'' کا حصہ نہ بنے۔
حسب روایت، بالکل اسی طرح جس طرح پہلے آصف علی زرداری اور پھر پرویز مشرف علاج کا بہانہ بناکر ملک سے چلے گئے تھے، اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے، حالیہ دنوں وزیراعظم نواز شریف بھی ''علاج'' کے لیے ''براستہ ماسکو'' برطانیہ جاچکے ہیں، انھوں نے بھی جاتے ہوئے وطن واپسی کا یقین دلایا ہے، مگر توقع ہے کہ وزیراعظم چند دنوں میں ضرور واپس آجائیں گے کیونکہ اس وزیراعظم کا معاملہ آصف زرداری کی حالیہ نہیں بلکہ اس سے پہلے ان کے دور حکومت (2011) میں ''علاج'' کے لیے دبئی روانگی سے مطابقت رکھتا ہے۔
آصف زرداری بھی دل کا چیک اپ کرانے دبئی گئے تھے اور تقریباً پندرہ روز وہاں رہے جب کہ ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر اس دوران تواتر کے ساتھ یہ یقین دلاتے رہے کہ صدر زرداری علاج ہی کے لیے دبئی گئے ہیں، ان کی روانگی کا ''میموگیٹ'' اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ہے، وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی بھی یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں صاحب کی روانگی کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ آصف زرداری سے ملاقات کے لیے گئے ہیں، البتہ ''علاج معالجے'' میں وقت کا تعین ڈاکٹرز کریں گے۔
ہوسکتا ہے کہ علاج کا یہ دورانیہ بھی دو ہفتے پر محیط ہو، اور اسی لیے وزارت عظمیٰ کے تمام اختیارات وزیراعظم جاتے ہوئے وزیرخزانہ اسحق ڈار کو سونپ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی لندن پہنچ چکے ہیں، ''اتفاق'' سے عمران خان بھی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ اسی جہاز پر سوار ہوکر ''بڑے پیر'' کے دربار میں حاضری کے لیے گئے ہیں۔
کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کو جب بھی کوئی ''مرض'' لاحق ہوتا ہے تو علاج کے لیے امریکا، برطانیہ یا دبئی کا رخ کرتے ہیں، بلکہ اب تو یہ رجحان اس قدر فروغ پاچکا ہے کہ محکمہ پولیس اور دیگر محکموں کے افسران بھی علاج کے نام پر اپنی ''نیکیوں'' کا صلہ لینے کے لیے امریکا اور برطانیہ چلے جاتے ہیں۔
خیر یہ بات تو ماننا ہوگی کہ پانامہ لیکس نے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں، اور یہ بھی حکمرانوں کو اس بات کا بھرپور اندازہ تھا کہ برائی کسی بھی وقت اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، شاید اسی لیے حکومت نے کسی بھی عوامی فلاح کے منصوبے پر توجہ دینے کے بجائے بڑے بڑے منصوبوں پر ہاتھ ڈالا تاکہ وقت برباد کیے بغیر اپنا ''ہدف'' پورا کرلیا جائے۔
کاش ہمارے حکمرانوں نے اپنے وطن کے عوام کے لیے کچھ سوچا ہوتا، انھیںکچھ ریلیف فراہم کیا ہوتا، بھوک اور بیماریوں سے مرتے بچوں اور ماں باپ کی دعائیں سمیٹی ہوتیں، توانائی فراہمی کے منصوبوں پر ایمانداری سے عمل کیا ہوتا، ٹیکسوں میں کمی کرکے مہنگائی کی شرح کم کی ہوتی، چھوٹے کرپٹ عناصر کو گرفت میں لاکر لوگوں کے لیے سکھ کا انتظام کیا ہوتا تو انھیں آج لندن اور امریکا جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ نہ جانے ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر کوئی بھی حکومت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلے تو امریکا، برطانیہ اور اسٹبلشمنٹ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔