موسمی تغیر خطرے کی گھنٹی
گلوبل وارمنگ سے جنوبی ایشیاء کا خطہ بھی شدید متاثر ہوگا ساتھ ہی 70 فیصد پاکستانی بھی سیلاب سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ماہر طبعیات اسٹیفن ہاکنگ کا ایک بیان سامنے آیا کہ جس طرح سے آب و ہوا میں تبدیلی واقع ہورہی ہے، اس لحاظ سے انسانی حیات کے یہ آخری ہزار سال ہوں گے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیئے کہ آب و ہوا کے تبدیل ہونے (Climate Change) سے آخر مراد کیا ہے؟ اسکی وجوہات کیا ہیں؟ اور اسکے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں یا ہوسکتے ہیں؟
آب و ہوا کی تبدیلی سے دراصل مراد گلوبل وارمنگ (Global Warming) کا بڑھ جانا ہے، با الفاظ دیگر زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہونا۔ ناسا کے مطابق زمین کا درجہ حرارت 1906 سے لیکر 2005 تک 0.5 ڈگری سے 0.9 ڈگری تک بڑھ چکا ہے، اور مزید 50 سال میں دوگنا ہونے کا امکان بہت قوی ہے۔ زمین کے درجہ حرارت کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ایندھن (کوئلہ، تیل وغیرہ) کا حد سے زیادہ استعمال ہے۔ ایندھن سے خارج ہونے والی گیسسز کی آب و ہوا میں مقدار بڑھ جانے سے سورج سے آنے والی حرارت زیادہ جذب ہوتی ہے جس سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب ہم نے جنگلات بے دردی سے تباہ کردیے گئے ہیں، یہی تو وہ جنگلات ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کو جذب کرتے ہیں۔
انسانی چلن بھی بڑا عجب ہے یہ درختوں کو کاٹ کر اس سے کاغذ تخلیق کرکے اس پر لکھتا ہے ''Save Trees''۔ آب و ہوا کی اس تبدیلی کے ماحول پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، گزشتہ سال اب تک کا سب سے گرم ترین سال قرار دیا چکا ہے، اور آئندہ سالوں میں حفاظتی تدابیر نہیں کی گئیں تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ پانی کی سطح میں بلندی واقع ہوگی جس سے سیلاب اور دوسری آفات کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ ہیٹ اسٹروک اور میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے ہر خطے پر مختلف اثرات ہوں گے۔
ویرسک میپل کرافٹ کی تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیاء کا خطہ بھی شدید متاثر ہوگا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس ادارے کے مطابق 70 فیصد پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ گرمی کی شدت سے گلیشیرز کا پگھلنا اور پانی کی سطح میں غیر معمولی تغیر پاکستان میں سیلاب اور دریاؤں میں طغیانی کا باعث بن سکتا ہے، اس کے علاوہ میدانی اور صحرائی علاقوں میں ہیٹ ویوز کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ گزشتہ سال کراچی میں ہیٹ ویوز کا آنا بھی اسی کی ایک کڑی تھی۔ فی الحال نہ ان آفات کی صد فیصد پیش گوئی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کو روکنے کا کوئی طریقہ نکالا جاسکتا ہے۔ لیکن جس طرح آب و ہوا میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں، اس لحاظ سے ان کے آنے کا امکان کافی حد تک بڑھ چکا ہے، ان سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اور ریسکیو کا ایک بہتر سسٹم تشکیل دیا جاسکتا ہے تاکہ سنگین نقصانات سے بچا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ برس جب کراچی میں ہیٹ ویوز کا سلسلہ شروع ہوا تو افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جتنی بھی ہلاکتیں ہوئیں وہ ریسکیو کے عدم انتظامات اور حکومت کی عدم توجہ کا ہی نتیجہ تھیں۔ اب بھی کچھ یہی حال ہے چاہے وفاقی حکومتیں ہوں یا صوبائی کسی کی توجہ ان امور پر ذرہ برابر نہیں، ہر سال پاکستان سیلاب سے متاثر ہوتا ہے اور ہر سال ریسکیو کے انتظامات پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں اور سینکڑوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ ایک طرف نواز شریف صاحب کی کہانی میٹرو اور اورنج ٹرین سے شروع ہوکر اور اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ جبکہ ملک کی دوسری بڑی جماعت کے سربراہ عمران خان صاحب کی سیاست دھرنوں سے شروع اور دھرنوں پر ہی ختم ہوتی ہے۔
تو بھئی آپ حضرات کی اقتدار کی جنگ تو کبھی ختم نہیں ہونے والی، آپ اس میں خوب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیے لیکن جو خطرے کی گھنٹی سر پر بج رہی ہے پہلے اس کی جانب بھی توجہ دیجئے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماحول دوستی کیلئے حکومت اور مخالفین ملکر کام کریں، شجر کاری کو فروغ دیں، اگر اب بھی نہ سمجھے تو فقط دعا ہے رب سے کہ وہ ہمیں ایسے حکمرانوں سمیت تمام آفات سے محفوظ رکھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔