کچھ ذکر اپنی ’شہ رگ‘ کشمیر کا

کشمیر میں طالبہ کے ساتھ ہونیوالے واقعہ کے سبب ہندوستانی جامعات میں زیر تعلیم طلبہ خوف و ہراس کیوجہ سے محصور گئے ہیں۔

سری نگر اور دیگر علاقوں میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کشمیری نوجوانوں کے ردعمل کے باعث بھارتی فوج نے انٹرنیٹ پر مکمل پابندی عائد کردی۔ فوٹو:فائل

مقبوضہ کشمیر کے شمال میں تحصیل ہندواڑہ ہے، جہاں شرح تعلیم 78 فیصد ہے، تعلیمی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ خاصے باشعور ہیں۔ چند روز قبل اس تحصیل میں اچانک فسادات پھوٹ پڑے، آزادانہ ذرائع سے دستیاب معلومات کے مطابق مقامی اسکول کی طالبہ کے ساتھ ہندوستانی فوجی افسر کی جانب سے دست درازی اور عصمت دری کے واقعے کے بعد سینکڑوں نوجوان سڑکوں پر آگئے اور ہندواڑہ چوک میں قائم فوجی بنکر کی طرف مارچ کرنے لگے۔ فوج نے مشتعل نوجوانوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 نوجوان جاں بحق ہوگئے جس کے بعد حالات خراب سے خراب ہوتے گئے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس نے علاقے میں امن و امان کی صورتحال پیدا کی ہو، بلکہ اس سے قبل 31 مارچ کو ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر کشمیر میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) کے طلبہ نے جشن منایا جس پر این آئی ٹی میں زیر تعلیم دیگر غیر ریاستی طلبہ نے کشمیریوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا، جس کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قوم پرست رضا کار تیجندر بھگا نے 'این آئی ٹی سرینگر چلو' کی کال دے دی۔

فلم ساز اشوک پنڈت اور فلم اداکار انوپم کھیر اسی مارچ کے سلسلے میں جب سرینگر ائیرپورٹ پر اترے تو انہیں پولیس نے حراست میں لے لیا اور اگلی پرواز میں واپس دہلی بھیج دیا۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، وادی کشمیر اور جموں میں موجود بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے وابستہ اور دیگر غیر جانبدار صحافیوں سے دستیاب معلومات کے مطابق اس وقت پورے بھارت میں کشمیری طلبہ کے خلاف پرتشدد واقعات اور زہریلا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ کئی طلبہ و طالبات کا بھارت کی دیگر یونیورسٹیز سے اخراج بھی کردیا گیا ہے اور درجنوں بھارتی شدت پسندوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے ہیں۔



اس وقت مقبوضہ ریاست میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ ہندواڑہ میں دو نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف وادی کشمیر بدستور سراپا احتجاج ہے جس کے پیشِ نظر جمعرات کو دوسرے روز بھی سرینگر کے 6 تھانوں کے ماتحت آنے والےعلاقوں کے ساتھ ساتھ ہندواڑہ، کپواڑہ، کرالہ گنڈ، ماگام، لنگیٹ اور دیگر ملحقہ مقامات پر سخت ترین کرفیو میں وادی کے شمال و جنوب میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے سڑکوں اور بازاروں میں ہو کا عالم رہا۔ اس دوران بانہال اور بارہ مولہ کے درمیان چلنے والی ریل سروس بھی بند رہی۔

12 اپریل کو فوج کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت 3 افراد اور 13 اپریل کو درگا مولہ کپواڑہ میں آنسو گیس شیل لگنے سے ایک نوجوان کے جاں بحق ہونے کے بعد پوری وادی میں غم وغصے کی لہر دوڑ پڑی۔ 12 اپریل کو کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے کے خلاف ہڑتال کی گئی اور اسی روز ہندواڑہ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جبکہ قصبہ اور اس کے گرد و نواح کےعلاقوں کی صورتحال بدستور انتہائی کشیدہ بنی ہوئی ہے۔

ان علاقہ جات میں امن و قانون برقرار رکھنے کیلئے پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکار تعینات ہیں اور 14 اپریل کو مسلسل دوسرے روز بھی کرفیو کی سخت پابندیوں کے باعث بیشتر آبادی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی۔ سری نگر میں مقیم صحافیوں سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہندواڑہ قصبے کے ساتھ ساتھ کرالہ گنڈ، ماگام، کولنگام، لنگیٹ اور قاضی آباد کے بعض علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کرفیو سختی کے ساتھ جاری رہا۔ پابندیوں کے باوجود مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد جاں بحق افراد کے گھر تعزیت کیلئے پہنچی۔


اس دوران قصبہ ہندواڑہ میں صورتحال اُس وقت بگڑ گئی جب مشتعل نوجوانوں کی ٹولیوں نے کرفیو کی پرواہ کئے بغیر گھروں سے باہر آکر بھرپور احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور آزادی اور پاکستان کے حق اور بھارتی فوج کیخلاف نعرے بازی کرتے ہوئے قصبہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے وہاں پہلے سے ہی بڑی تعداد میں تعینات پولیس و فورسز اہلکاروں نے انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ پولیس و فورسز کی اس کارروائی پر مشتعل ہوکر نوجوانوں نے سیکورٹی اہلکاروں پرپتھراؤ کیا، جس کے جواب میں پولیس اور آرمی نے آنسو گیس کے گولے برسائے جس کے نتیجے میں ہندواڑہ قصبہ کی نواحی بستیوں اور کالونیوں میں زبردست خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی۔

بھارتی فوج کی جانب سے ان علاقوں میں لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی کو یقینی بنانے کیلئے ہر گلی اور کوچے میں خاردار تار نصب کی جاچکی ہے۔ اس دوران لالپورہ لولاب اور ملیال کرالپورہ میں مقامی لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر الحاق پاکستان اور آزدی کے حق میں ایک پرامن احتجاج کیا، مظاہرین مطالبہ کررہے تھے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس وقت سری نگر اور دیگر علاقوں میں سوشل میڈیا پر کشمیری نوجوانوں کے ردعمل کے باعث بھارتی فوج نے انٹرنیٹ پر مکمل پابندی عائد کردی، جس کے باعث وہاں موجود صحافیوں اور نوجوانوں کو دیگر دنیا سے رابطے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ بھارتی فوجی کی بربریت کا شکار طالبہ پولیس کی حراست میں ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور صحافیوں کو مذکورہ طالبہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی۔ طالبہ کے ساتھ ہونے والے واقعہ کے سبب ہندوستان کی دیگر جامعات میں زیر تعلیم طلبہ خوف وہراس کی وجہ سے محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور بھارتی سرکار انہیں سیکورٹی فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔

دوسری جانب ہندوستانی میڈیا کشمیری طلبہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہا ہے جبکہ بھارتی قوم پرست سوشل میڈیا کے ذریعے کشمیری طلبہ کے خلاف پورے ملک میں ایک مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن پوری وادی میں خوف اور سراسیمگی کی فضاء کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اور نڈر ہوکر ہندوستانی فوج کی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں ملنے والی اجتماعی قبریں، ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ نوجوان اور روزانہ کی بنیاد پر نوجوانوں کا قتل عام دنیا کے منصفوں اور عالمی امن کے ٹھکیداروں کو چیخ چیخ کر اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے، مگر تاحال ان کی شنوائی نہیں کی جارہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت کشمیریوں کی حمایت میں آواز بلند کرے اور اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمں اور سنجیدہ حلقوں کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب متوجہ کرائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story