ابنِ سینا نے 1006 کے سپرنووا ستارے کا مشاہدہ اور ذکر کیا تھا تحقیق

تحقیقی مقالے سے ثابت ہوا ہے کہ حکیم بو علی سینا نے طب کے علاوہ سال 1006 کے سپرنووا کا ذکر اپنی کتاب میں کیا تھا۔

تحقیقی مقالے سے ثابت ہوا ہے کہ حکیم بو علی سینا نے طب کے علاوہ سال 1006 کے سپرنووا کا ذکر اپنی کتاب میں کیا تھا۔ فوٹو: بشکریہ وکی میڈیا کامنز

جرمن ماہرین نے اپنے ایک نئے تحقیقی مقالے میں کہا ہے کہ اگرچہ حکیم بو علی سینا کا تعلق طب سے تھا لیکن وہ علم کے دیگر شعبوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور انہوں نے 1006 عیسوی میں آسمان پر کئی ماہ تک چمکنے والے سپرنووا کا ذکر اپنی کتاب میں کیا تھا۔

ایل ایم یونیورسٹی میونخ، یونیورسٹی آف اسٹینوارٹ اور ایک عرب اور اسلامی علوم کے مرکز نے مشترکہ طور پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جو اپریل کے دوسرے ہفتے میں شائع ہوا ہے۔ اس میں تینوں ماہرین نے کہا ہے کہ انہوں نے ابنِ سینا کی کتاب ' الشفا' پڑھی جس میں موسموں، فلسفے اور فلکیات پر بحث کی گئی ہے۔


ابنِ سینا نے الشفا میں لکھا ہے کہ' آسمان پر اچانک ایک روشن ستارہ نمودار ہوا جو 3 ماہ تک درجہ بدرجہ بڑھتا رہا، وہ رنگ بدلتا رہا تھا اور دھیرے دھیرے مدھم ہوکر غائب ہوگیا لیکن غائب ہوتے وقت اس سے کچھ چنگاریاں پھوٹی تھیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل یمن کے ایک اور ماہرِ فلکیات علی ابنِ رضوان نے بھی آسمان پر اس روشن جسم کا ذکر کیا تھا۔ اس کے علاوہ چین، جاپان اور دیگر ممالک میں بھی رات کے وقت چمکنے والے اس ستارے کا ذکر اپنی کتابوں اور یادداشتوں میں کیا ہے۔ لیکن ابنِ سینا کے متعلق یہ پہلا انکشاف ہوا ہے۔ ابنِ سینا نے اس سپرنووا کو نجم کی بجائے کوکب کا نام دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجم عربی اور کوکب فارسی لفظ ہے کیونکہ ابنِ سینا کا تعلق آج کے موجودہ ایران سے ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابنِ سینا نے سورج کے سامنے سیارہ عطارد (مرکری) کے عبور کا بھی ذکر کیا ہے جسے وینس ٹرانزٹ کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں سورج کے سامنے یہ سیارہ ایک نقطے کی طرح گزرتا ہے۔ اس طرح یہ واقعہ اس کی فلکیات میں گہری دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ کتاب الشفا لکھنے میں 1013 سے 1023 تک یعنی دس سال کا عرصہ لگا تھا اوراس کا مکمل مسودہ برطانیہ کی بوڈلین لائبریری میں موجود ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں واقع ہے۔
Load Next Story