دودھ کا دودھ پانی کا پانی
دنیا بھر کے سیاسی پنڈتوں کا سب سے بڑا اور اہم موضوع آج کل پانامہ پیپرز ہی ہیں
MUMBAI:
دنیا بھر کے سیاسی پنڈتوں کا سب سے بڑا اور اہم موضوع آج کل پانامہ پیپرز ہی ہیں ، جنھوں نے ایک ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ایک بھونچال سا آگیا۔ اس میں بڑی بڑی مچھلیاں بھی شامل ہیں حتیٰ کہ حکومتی سربراہان کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔ اس فہرست میں شامل اکثر و بیشتر لوگ اپنی جانب سے صفائیاں پیش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جب کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ جرأت مندی کا مظاہرہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے کیا ہے جنھوں نے اپنے عہدے سے فوراً استعفیٰ دے دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان کے بعض ممبران بھی آف شور کمپنیوں کے بزنس مین شامل ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے اس معاملے کی چھان بین کرانے کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس حزب اختلاف کو تحفظات ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ:
اس دنیا کے بازار میں آکر چاہت بھی بیوپار بنی
سو وطن عزیز کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہاں سیاست خدمت کے مقدس فریضے کے بجائے ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیارکرچکی ہے اور جمہوریت کی آڑ میں زبردست بزنس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہم نے اپنے ایک دوست کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس ملک میں راتوں رات امیر بننے کا سب سے آسان نسخہ ہی سیاست کا کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں بس مزے ہی مزے ہیں۔ دولت، عزت اور شہرت سمیت سب ہی کچھ ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔ صبح کے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک نوکری میں جان کھپانے یا دن بھر کی دکان داری کا بوجھ اٹھانے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ کسی طرح کچھ پیسہ خرچ کرکے کسی سیاسی جماعت کے توسط سے الیکشن کمیشن کا ٹکٹ حاصل کرلیا جائے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے جائیں۔
تمام باتوں سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ آف شور کمپنیاں وہی لوگ قائم کرتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی دولت چھپی رہے اور اس پر ٹیکس بھی ادا نہ کرنا پڑے۔ یہ بھی منی لانڈرنگ کی ہی ایک شکل ہے۔ سو ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ دولت آئی کہاں سے ہے؟ اس حوالے سے یہ شعر یاد آرہا ہے:
کہاں سے آتی ہے دولت شکیل راتوں رات
سوال اہل ہنر سے یہ کر کے دیکھتے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ وزیراعظم کے فیملی ممبران نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی کسی قاعدے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو بھی اس سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ انھوں نے ایسے حالات میں بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے جب کہ وطن عزیز کو خود زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بہ ظاہر حکومت وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لیے باقاعدہ مہم چلا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کے اہل خاندان نے اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہ کرکے غیر اخلاقی اقدام نہیں کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سرمایہ کاری اپنے ہی ملک میں کی گئی ہوتی تو اس سے وطن عزیز کے بے روزگاروں کو روزگار کے مواقعے میسر آتے اور ہمارے بے روزگار نوجوانوں کا بہت بڑا مسئلہ حل کرنے میں بہت مدد ملتی۔ اس کے علاوہ اس کاروبارکی آمدنی سے وطن عزیز کو ٹیکس بھی حاصل ہوتے جس سے قومی خزانے کو فائدہ پہنچتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن کا طوفان ایک عرصے سے برپا ہے اور موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکمراں سیاسی جماعت کے خلاف بھی کرپشن کے بہت سے الزامات لگ چکے ہیں۔
پانامہ پیپرز کے انکشافات نے اس وقت ہماری قیادت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طرف حکمراں طبقہ اور ان کے حواری ہیں جو اپنے حق میں مختلف دلائل اور صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ خود کو بے قصور اور معصوم ثابت کریں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں جو حکومت اور اس کے حمایتیوں کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر لگی ہوئی ہیں۔
اس باہمی کشمکش کا سب سے بڑا نقصان بے چارے عوام کو ہوگا جو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور جنھیں دو وقت کی روٹی کے لیے بھی دن رات پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے پانامہ لیکس کو حکومت وقت کے لیے ایک غیبی امداد Blessing in Disguise بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام کی توجہ ملک کو درپیش سنگین مسائل سے کم ازکم وقتی طور پر تو ہٹ ہی گئی ہے۔
دوسری جانب پانامہ لیکس نے اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی حکومت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک اچھا موقع فراہم کردیا ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں اپوزیشن کا ہر لیڈر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم خود انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کریں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کریں۔ وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس میں ان کا نام شامل نہیں ہے، لیکن اگر ان کے بیٹوں کا نام شامل ہے تو وہ ان کی صفائی کیوں دے رہے ہیں؟
قومی اسمبلی میں 8 اپریل بروز جمعہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان پانامہ لیکس پیپرز پر بڑی گرما گرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن ارکان نے آپے سے باہر ہوکر اس قدر ہنگامہ آرائی کی کہ ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس پر حکومت نے اپوزیشن کی تقریروں کو بلیک آؤٹ کرکے ظاہر کردیا کہ دودھ میں مکھی اور دال میں کالا ہے۔
ایسے حالات میں جب حکمراں شدید ترین دباؤ کا شکار ہیں اور پانامہ لیکس کے حوالے سے عوام میں بھی حکومت مخالف جذبات ابھر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر احتجاجی مہم کا آغاز کرے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لے۔ اس سے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے میں بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے آنے والے ایام بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں مزید سنسنی خیز انکشافات ہونے والے ہیں جن میں دبئی سمیت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کی سرمایہ کاری سمیت دیگر مالی اسکینڈلز بھی منظر عام پر آنے والے ہیں۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے سب سے دلچسپ موقف مولانا فضل الرحمن کا تھا جنھوں نے اپنے منفرد انداز میں فرمایا کہ ہم پانامہ لیکس کو سمجھے بغیر اس پر بحث یا بیان بازی نہیں کریں گے۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پانامہ لیکس پر وسیع اور شفاف ترین انکوائری ضرور ہونی چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
دنیا بھر کے سیاسی پنڈتوں کا سب سے بڑا اور اہم موضوع آج کل پانامہ پیپرز ہی ہیں ، جنھوں نے ایک ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ایک بھونچال سا آگیا۔ اس میں بڑی بڑی مچھلیاں بھی شامل ہیں حتیٰ کہ حکومتی سربراہان کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔ اس فہرست میں شامل اکثر و بیشتر لوگ اپنی جانب سے صفائیاں پیش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جب کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ جرأت مندی کا مظاہرہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے کیا ہے جنھوں نے اپنے عہدے سے فوراً استعفیٰ دے دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان کے بعض ممبران بھی آف شور کمپنیوں کے بزنس مین شامل ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے اس معاملے کی چھان بین کرانے کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس حزب اختلاف کو تحفظات ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ:
اس دنیا کے بازار میں آکر چاہت بھی بیوپار بنی
سو وطن عزیز کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہاں سیاست خدمت کے مقدس فریضے کے بجائے ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیارکرچکی ہے اور جمہوریت کی آڑ میں زبردست بزنس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہم نے اپنے ایک دوست کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس ملک میں راتوں رات امیر بننے کا سب سے آسان نسخہ ہی سیاست کا کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں بس مزے ہی مزے ہیں۔ دولت، عزت اور شہرت سمیت سب ہی کچھ ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے۔ صبح کے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک نوکری میں جان کھپانے یا دن بھر کی دکان داری کا بوجھ اٹھانے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ کسی طرح کچھ پیسہ خرچ کرکے کسی سیاسی جماعت کے توسط سے الیکشن کمیشن کا ٹکٹ حاصل کرلیا جائے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے جائیں۔
تمام باتوں سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ آف شور کمپنیاں وہی لوگ قائم کرتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی دولت چھپی رہے اور اس پر ٹیکس بھی ادا نہ کرنا پڑے۔ یہ بھی منی لانڈرنگ کی ہی ایک شکل ہے۔ سو ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ دولت آئی کہاں سے ہے؟ اس حوالے سے یہ شعر یاد آرہا ہے:
کہاں سے آتی ہے دولت شکیل راتوں رات
سوال اہل ہنر سے یہ کر کے دیکھتے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ وزیراعظم کے فیملی ممبران نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی کسی قاعدے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو بھی اس سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ انھوں نے ایسے حالات میں بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے جب کہ وطن عزیز کو خود زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بہ ظاہر حکومت وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لیے باقاعدہ مہم چلا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کے اہل خاندان نے اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہ کرکے غیر اخلاقی اقدام نہیں کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ سرمایہ کاری اپنے ہی ملک میں کی گئی ہوتی تو اس سے وطن عزیز کے بے روزگاروں کو روزگار کے مواقعے میسر آتے اور ہمارے بے روزگار نوجوانوں کا بہت بڑا مسئلہ حل کرنے میں بہت مدد ملتی۔ اس کے علاوہ اس کاروبارکی آمدنی سے وطن عزیز کو ٹیکس بھی حاصل ہوتے جس سے قومی خزانے کو فائدہ پہنچتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن کا طوفان ایک عرصے سے برپا ہے اور موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکمراں سیاسی جماعت کے خلاف بھی کرپشن کے بہت سے الزامات لگ چکے ہیں۔
پانامہ پیپرز کے انکشافات نے اس وقت ہماری قیادت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طرف حکمراں طبقہ اور ان کے حواری ہیں جو اپنے حق میں مختلف دلائل اور صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ خود کو بے قصور اور معصوم ثابت کریں۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں جو حکومت اور اس کے حمایتیوں کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر لگی ہوئی ہیں۔
اس باہمی کشمکش کا سب سے بڑا نقصان بے چارے عوام کو ہوگا جو پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں اور جنھیں دو وقت کی روٹی کے لیے بھی دن رات پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے پانامہ لیکس کو حکومت وقت کے لیے ایک غیبی امداد Blessing in Disguise بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام کی توجہ ملک کو درپیش سنگین مسائل سے کم ازکم وقتی طور پر تو ہٹ ہی گئی ہے۔
دوسری جانب پانامہ لیکس نے اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی حکومت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک اچھا موقع فراہم کردیا ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں اپوزیشن کا ہر لیڈر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم خود انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کریں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کریں۔ وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس میں ان کا نام شامل نہیں ہے، لیکن اگر ان کے بیٹوں کا نام شامل ہے تو وہ ان کی صفائی کیوں دے رہے ہیں؟
قومی اسمبلی میں 8 اپریل بروز جمعہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان پانامہ لیکس پیپرز پر بڑی گرما گرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن ارکان نے آپے سے باہر ہوکر اس قدر ہنگامہ آرائی کی کہ ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس پر حکومت نے اپوزیشن کی تقریروں کو بلیک آؤٹ کرکے ظاہر کردیا کہ دودھ میں مکھی اور دال میں کالا ہے۔
ایسے حالات میں جب حکمراں شدید ترین دباؤ کا شکار ہیں اور پانامہ لیکس کے حوالے سے عوام میں بھی حکومت مخالف جذبات ابھر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر احتجاجی مہم کا آغاز کرے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لے۔ اس سے پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے میں بھی بہت مدد مل سکتی ہے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے آنے والے ایام بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں مزید سنسنی خیز انکشافات ہونے والے ہیں جن میں دبئی سمیت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کی سرمایہ کاری سمیت دیگر مالی اسکینڈلز بھی منظر عام پر آنے والے ہیں۔
پانامہ لیکس کے حوالے سے سب سے دلچسپ موقف مولانا فضل الرحمن کا تھا جنھوں نے اپنے منفرد انداز میں فرمایا کہ ہم پانامہ لیکس کو سمجھے بغیر اس پر بحث یا بیان بازی نہیں کریں گے۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پانامہ لیکس پر وسیع اور شفاف ترین انکوائری ضرور ہونی چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔