قانون کو رہائی
لطیفوں کی ایجاد حالات سے ہوتی ہے پھر چاہے لطیفے باقی رہ جائیں یا حالات ذکر ضرور ہوتا رہتا ہے۔
لطیفوں کی ایجاد حالات سے ہوتی ہے پھر چاہے لطیفے باقی رہ جائیں یا حالات ذکر ضرور ہوتا رہتا ہے۔ پھر انسانی نظر اور سوچ چیزوں کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور ان سے محاورے ایجاد ہوتے ہیں۔ حالانکہ اب تو یہ سلسلہ ایک عرصے سے موقوف ہے، نہ تو لطیفے ہی کچھ معیاری سننے میں آتے ہیں اور محاورے تو ناپید ہوچکے ہیں۔ ناپید یوں بھی ٹھیک ہے کہ نہ صرف نئے محاورے ایجاد نہیں ہو رہے بلکہ پرانے بھی اب کہیں کہیں، کسی کسی کو یاد ہیں اور کبھی کبھار بولے جاتے ہیں مگر سیاست دوراں، اور دوسری ہر قسم کی سیاست ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے جس سے معاملات ''لطیفہ'' بن جاتے ہیں اور فنون لطیفہ کو زک پہنچانے کا سا سامان ہو جاتے ہیں اب یہ فنون لطیفہ کی رمز بھی نئے پڑھنے والوں کو شاید لطیفے کی کوئی کتاب ہی لگے گی۔ یہ بھی ایک لطیفہ ہے اور اسے لطیفہ ہی رہنے دیتے ہیں۔
ہم نے لوگوں کو اپنے سامنے دانشور اور نہ جانے کیا کیا بنتے دیکھا ہے خود کو اوروں کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے علاوہ اور جن اصحاب کو اب لوگ دانشور اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں وہ محض سرکاری ملازمت ہی کرتے رہے ہیں اور یہ چونکہ ایک قابل ذکر کارنامہ ہے لہٰذا ہر ایسا سرکاری افسر جو آرٹ کارنر کے قریب سے گزرا ہو آرٹ کا دلدادہ ،ادیب اور دانشور بن جاتا ہے بلکہ ایک خاندان کو تو ہم جانتے ہیں کہ وہ خاندانی طور پر ایک ہی محکمے سے وابستہ ہے شہروں کے فرق سے اور یہ سلسلہ دراز ہوگا یقینا بقول شاعر: اب میرا انتظار کر!
کچھ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو منوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ادھر ادھر سے کچھ اکٹھا کیا چھاپا اور تقریب صبح و شام یہ ہر شہر کا عالم ہے۔ ایک بار ایک کالم ہم ان تمام نمبرز کے ادیبوں شاعروں پر لکھ چکے ہیں، جس پر ایک خاتون نے ہمیں face book پر داد دی تھی۔ دراصل یہ سب کچھ حالات حاضرہ ہے اور کچھ بھی نہیں بس فرق شاید یہ ہو کہ ہم کسی مصلحت کا شکار ہوئے بنا سب کچھ لکھ دیتے ہیں کہ بھئی! جو بھی ہے سچ ہے اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں نقائص سے بھرپور خود ہماری ذات ہے۔
جس کا ہمیں عرفان بھی ہے اور اچھا خاصا کرکٹر عرفان جتنا ہے اور آج بھی خود کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں پر یہ بچہ ڈانٹ سن کر بھی شرارتوں سے باز نہیں آتا خود کو جواب یہی ملتا ہے کہ ہم کون سے خطوط غالب کا پیراہن اختیار کر رہے ہیں کہ کل یاد رکھے جائیں ہم تو آج ہیں اور ابھی ہیں۔ خیر تو قصہ تھا کہ خواتین کے بارے میں کچھ حقوق دینے کے لیے پنجاب اسمبلی نے بل پاس کیا اور فٹافٹ گورنر صاحب نے دستخط بھی کردیے۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق پر بل پاس ہوئے، سرحد کے مفتیان بہت پریشان اور ناراض ہیں۔ ظاہر ہے اگر یہ وبا پھیل گئی تو سرحد بھی آئے گی ،ڈینگی کی طرح ، وہاں تو خواتین کے ووٹ کا کچھ رواج ہوا ہے وہ بھی سخت تاکیدی پہرے میں شاید کہا جاتا ہوگا جو کہا ہے وہ کرنا اگر غلط ووٹ دیا تو چیک کیا جائے گا اور نامحرم کو ووٹ دینے پر شرعی حد جاری کی جائے گی وغیرہ وغیرہ ہم نے تو لفظ شاید استعمال کیا ہے لہٰذا یہ بات حتمی نہیں ہے اغلب اور امکان ہے۔
اب اس بل کے پاس ہونے سے کم ازکم پنجاب میں تو مردوں پر بن آئے گی اور وہ خاصے حیران اور پریشان ہوں گے، کارکردگی کے خانے میں ایک نئے کالم کا اضافہ ہوجائے گا ہوسکتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے Apply کرتے وقت یہ کالم بھی پر کرنا پڑے اور اس کے بھی ذیلی کالم ہوں۔
نمبر1۔اگر شادی شدہ ہیں تو کتنے عرصے سے ٹریکنگ شدہ ہیں، کتنی بار ٹریکنگ شدہ ہیں۔
نمبر2۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو ہر ایک کے سلسلے میں ٹریکنگ کا شیڈول الگ الگ دیا جائے اور 19 گریڈ کے سرکاری افسر سے تصدیق شدہ ہو جو خود بھی کم ازکم تین بار کے Tracked ہوں۔
نمبر3۔کتنی مدت اور کتنی کتنی بار گھر سے باہر نکالے گئے (بیوی کے علاوہ نکالے جانے کا تذکرہ ضروری نہیں)۔
نمبر4۔وہ کیا خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے آپ کو گھر سے باہر رہنا پڑا (آپ کی غلطیاں مقصود ہیں)
نمبر5۔اس دوران آپ کہاں رہے (تصدیقی سرٹیفکیٹ لازمی ہے)
نمبر 6۔کتنی بار بیوی پر ہاتھ اٹھایا اور کتنا اٹھایا (کیوں اٹھایا کا فیصلہ فیملی کورٹ کرے گی)
نمبر7۔آیندہ کا کیا لائحہ عمل ہے؟
نمبر8۔گھر سے باہر رہ کر آپ کو کیسا محسوس ہوا؟ (موسم پر تبصرہ نہ کیا جائے نہ رومانی گفتگو کا سہارا لیا جائے)
نمبر9۔اپنے بیٹے کو آپ اس سلسلے میں کیا تاکید کرنا چاہیں گے۔
یہ سوالات ختم ہونے والے نہیں ہیں لہٰذا ان پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اب ایک دوسرا رخ ملاحظہ کیجیے گا۔ بہن کیا بتاؤں اچھے خاصے بیل ہیں مگر اللہ میاں کی گائے بنے رہتے ہیں (ٹھنڈی سانس لے کر) ۔ کیا بتاؤں نام ڈبو دیا انھوں نے تو میرا۔ سہیلیاں دیکھ دیکھ کر ہنستی ہیں۔ مجال ہے جو کبھی ایک بار بھی انھوں نے Tracking کی نوبت آنے دی ہو، ہاتھ پاؤں جوڑ کر قسمیں دے کر روک دیتے ہیں، کئی بار جی چاہتا ہے کہ کسی بہانے دو چار دن کے لیے گھر سے نکال دوں۔ میرا بھی محلے میں نام ہوجائے مگر مجال ہے جو کوئی کام غلط کردیں۔ اکرم بھائی کی بیگم کو دیکھو خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔ تین مہینے میں 17 بار گھر سے باہر رہ چکے ہیں، محلے کے مردوں پر دھاک ہے اکرم بھائی کی، مرد ان سے ملنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں گھر والی کو پتا چل گیا تو گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے۔
میں نے کئی بار پیار سے بھی سمجھایا کہ چلو کوئی جھگڑا نہیں ہے بس دو روز باہر چلے جاؤ، ٹریکنگ لگوا لو میرا نام ہوجائے گا مگر ٹس سے مس نہیں ہوتے پٹی سے لگے بیٹھے رہتے ہیں، وہ تو دفتر نہ جائیں تو کھائیں کیا ورنہ وہ تو دفتر بھی نہ جائیں۔
ادھر کچھ حضرات کڑے میں کچھ فیشن کے لوازمات، کچھ سونے کا زیور وغیرہ Attach کریں گے ہاتھ گھما گھما کر لوگوں کو دکھائیں گے، دفتر میں اگر خواتین ہوئیں تو کیا بات ہے ورنہ محلے کی لڑکیوں میں تو اختر شیرانی کی طرح بدنام ہوں گے، دل ہی دل میں وہ ان کو ہیرو قرار دیتی ہوں گی اور عورت کی فطرت کے مطابق کہ ''عورت کی دشمن عورت ہوتی ہے'' ان کی بیگم کو برا بھلا کہتی ہوں گی اور کڑے والے کو بے گناہ اور معصوم۔
ہم نے لوگوں کو اپنے سامنے دانشور اور نہ جانے کیا کیا بنتے دیکھا ہے خود کو اوروں کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے علاوہ اور جن اصحاب کو اب لوگ دانشور اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں وہ محض سرکاری ملازمت ہی کرتے رہے ہیں اور یہ چونکہ ایک قابل ذکر کارنامہ ہے لہٰذا ہر ایسا سرکاری افسر جو آرٹ کارنر کے قریب سے گزرا ہو آرٹ کا دلدادہ ،ادیب اور دانشور بن جاتا ہے بلکہ ایک خاندان کو تو ہم جانتے ہیں کہ وہ خاندانی طور پر ایک ہی محکمے سے وابستہ ہے شہروں کے فرق سے اور یہ سلسلہ دراز ہوگا یقینا بقول شاعر: اب میرا انتظار کر!
کچھ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو منوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ادھر ادھر سے کچھ اکٹھا کیا چھاپا اور تقریب صبح و شام یہ ہر شہر کا عالم ہے۔ ایک بار ایک کالم ہم ان تمام نمبرز کے ادیبوں شاعروں پر لکھ چکے ہیں، جس پر ایک خاتون نے ہمیں face book پر داد دی تھی۔ دراصل یہ سب کچھ حالات حاضرہ ہے اور کچھ بھی نہیں بس فرق شاید یہ ہو کہ ہم کسی مصلحت کا شکار ہوئے بنا سب کچھ لکھ دیتے ہیں کہ بھئی! جو بھی ہے سچ ہے اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں نقائص سے بھرپور خود ہماری ذات ہے۔
جس کا ہمیں عرفان بھی ہے اور اچھا خاصا کرکٹر عرفان جتنا ہے اور آج بھی خود کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں پر یہ بچہ ڈانٹ سن کر بھی شرارتوں سے باز نہیں آتا خود کو جواب یہی ملتا ہے کہ ہم کون سے خطوط غالب کا پیراہن اختیار کر رہے ہیں کہ کل یاد رکھے جائیں ہم تو آج ہیں اور ابھی ہیں۔ خیر تو قصہ تھا کہ خواتین کے بارے میں کچھ حقوق دینے کے لیے پنجاب اسمبلی نے بل پاس کیا اور فٹافٹ گورنر صاحب نے دستخط بھی کردیے۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق پر بل پاس ہوئے، سرحد کے مفتیان بہت پریشان اور ناراض ہیں۔ ظاہر ہے اگر یہ وبا پھیل گئی تو سرحد بھی آئے گی ،ڈینگی کی طرح ، وہاں تو خواتین کے ووٹ کا کچھ رواج ہوا ہے وہ بھی سخت تاکیدی پہرے میں شاید کہا جاتا ہوگا جو کہا ہے وہ کرنا اگر غلط ووٹ دیا تو چیک کیا جائے گا اور نامحرم کو ووٹ دینے پر شرعی حد جاری کی جائے گی وغیرہ وغیرہ ہم نے تو لفظ شاید استعمال کیا ہے لہٰذا یہ بات حتمی نہیں ہے اغلب اور امکان ہے۔
اب اس بل کے پاس ہونے سے کم ازکم پنجاب میں تو مردوں پر بن آئے گی اور وہ خاصے حیران اور پریشان ہوں گے، کارکردگی کے خانے میں ایک نئے کالم کا اضافہ ہوجائے گا ہوسکتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے Apply کرتے وقت یہ کالم بھی پر کرنا پڑے اور اس کے بھی ذیلی کالم ہوں۔
نمبر1۔اگر شادی شدہ ہیں تو کتنے عرصے سے ٹریکنگ شدہ ہیں، کتنی بار ٹریکنگ شدہ ہیں۔
نمبر2۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو ہر ایک کے سلسلے میں ٹریکنگ کا شیڈول الگ الگ دیا جائے اور 19 گریڈ کے سرکاری افسر سے تصدیق شدہ ہو جو خود بھی کم ازکم تین بار کے Tracked ہوں۔
نمبر3۔کتنی مدت اور کتنی کتنی بار گھر سے باہر نکالے گئے (بیوی کے علاوہ نکالے جانے کا تذکرہ ضروری نہیں)۔
نمبر4۔وہ کیا خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے آپ کو گھر سے باہر رہنا پڑا (آپ کی غلطیاں مقصود ہیں)
نمبر5۔اس دوران آپ کہاں رہے (تصدیقی سرٹیفکیٹ لازمی ہے)
نمبر 6۔کتنی بار بیوی پر ہاتھ اٹھایا اور کتنا اٹھایا (کیوں اٹھایا کا فیصلہ فیملی کورٹ کرے گی)
نمبر7۔آیندہ کا کیا لائحہ عمل ہے؟
نمبر8۔گھر سے باہر رہ کر آپ کو کیسا محسوس ہوا؟ (موسم پر تبصرہ نہ کیا جائے نہ رومانی گفتگو کا سہارا لیا جائے)
نمبر9۔اپنے بیٹے کو آپ اس سلسلے میں کیا تاکید کرنا چاہیں گے۔
یہ سوالات ختم ہونے والے نہیں ہیں لہٰذا ان پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اب ایک دوسرا رخ ملاحظہ کیجیے گا۔ بہن کیا بتاؤں اچھے خاصے بیل ہیں مگر اللہ میاں کی گائے بنے رہتے ہیں (ٹھنڈی سانس لے کر) ۔ کیا بتاؤں نام ڈبو دیا انھوں نے تو میرا۔ سہیلیاں دیکھ دیکھ کر ہنستی ہیں۔ مجال ہے جو کبھی ایک بار بھی انھوں نے Tracking کی نوبت آنے دی ہو، ہاتھ پاؤں جوڑ کر قسمیں دے کر روک دیتے ہیں، کئی بار جی چاہتا ہے کہ کسی بہانے دو چار دن کے لیے گھر سے نکال دوں۔ میرا بھی محلے میں نام ہوجائے مگر مجال ہے جو کوئی کام غلط کردیں۔ اکرم بھائی کی بیگم کو دیکھو خوشی سے پھولے نہیں سماتیں۔ تین مہینے میں 17 بار گھر سے باہر رہ چکے ہیں، محلے کے مردوں پر دھاک ہے اکرم بھائی کی، مرد ان سے ملنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں گھر والی کو پتا چل گیا تو گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے۔
میں نے کئی بار پیار سے بھی سمجھایا کہ چلو کوئی جھگڑا نہیں ہے بس دو روز باہر چلے جاؤ، ٹریکنگ لگوا لو میرا نام ہوجائے گا مگر ٹس سے مس نہیں ہوتے پٹی سے لگے بیٹھے رہتے ہیں، وہ تو دفتر نہ جائیں تو کھائیں کیا ورنہ وہ تو دفتر بھی نہ جائیں۔
ادھر کچھ حضرات کڑے میں کچھ فیشن کے لوازمات، کچھ سونے کا زیور وغیرہ Attach کریں گے ہاتھ گھما گھما کر لوگوں کو دکھائیں گے، دفتر میں اگر خواتین ہوئیں تو کیا بات ہے ورنہ محلے کی لڑکیوں میں تو اختر شیرانی کی طرح بدنام ہوں گے، دل ہی دل میں وہ ان کو ہیرو قرار دیتی ہوں گی اور عورت کی فطرت کے مطابق کہ ''عورت کی دشمن عورت ہوتی ہے'' ان کی بیگم کو برا بھلا کہتی ہوں گی اور کڑے والے کو بے گناہ اور معصوم۔