قومی ہاکی موجودہ صورتحال نے پی ایچ ایف کوبھی مایوس کردیا

گرین شرٹس باصلاحیت ہوتے تو ورلڈ کپ، اولمپکس،چیمپئنز ٹرافی سے باہر کیوں ہوتے؟سیکریٹری


کوئی بھی عہدے پر آجائے فوری بہتری نہیں لاسکتا، گورا کوچ کبھی مخلص نہیں ہوتا، ہم آج 10برس گزرنے کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں،شہباز سینئر فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان ہاکی کی موجودہ صورتحال نے پی ایچ ایف کوبھی مایوس کردیا، سیکریٹری شہباز سینئر کے مطابق ٹیم میں صلاحیت ہی اتنی تھی جتنا اس نے سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ کے دوران پرفارم کیا۔

اگر گرین شرٹس اتنے ہی باصلاحیت ہوتے تو ہم ورلڈ کپ، اولمپکس اور چیمپئنز ٹرافی سے باہر کیوں ہوتے، میری جگہ کوئی بھی سیکریٹری فیڈریشن آجائے، فوری طور پر قومی سائیڈ کو ٹاپ6 ٹیموں میں بھی نہیں لا سکتا، غیرملکی کوچ کبھی پاکستانی ٹیم کے ساتھ مخلص نہیں ہو گا، ماضی میں رولینٹ اولٹمینز اور مشعل کو بھاری معاوضوں پر کوچ بنایا گیا تو کیا ان کے آنے سے ہماری ہاکی بہتر ہو گئی؟ ہم جہاں تھے آج10 برس گزر جانے کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز سینئر گذشتہ روز ملائیشیا سے وطن واپسی پر نمائندہ''ایکسپریس'' سے خصوصی بات چیت کر رہے تھے۔

اس صورتحال نے سیکریٹری پی ایچ ایف کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، 1994ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر نے کہاکہ سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی کہا تھا کہ قومی ٹیم اس قابل نہیں کہ ایونٹ کی ٹاپ ٹیموں میں شامل ہو سکے، کھلاڑیوں نے ایونٹ میں جتنا پرفارم کیا، ان سے اس سے زیادہ اچھی کارکردگی کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی، میرا ایک سوال ہے کہ اگر گرین شرٹس اتنے ہی با صلاحیت تھے تو ہم ورلڈکپ، اولمپکس اور چیمپئنز ٹرافی سے باہر کیوں ہوئے؟ انھوں نے کہا کہ سلطان اذلان شاہ کپ کے دوران پاکستان ٹیم نے ملائیشیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف 2 میچز میں بہت بری کارکردگی دکھائی،ایک میچ میں تو ہمارے خلاف صرف5 منٹ میں3گول ہوئے، ایک سوال پر شہباز سینئر نے کہاکہ میری جگہ کسی اور کو بھی سیکریٹری فیڈریشن بنا دیںوہ ٹیم کو فوری طور پر ٹاپ6میں نہیں لاسکتا، اس وقت پورے ملک میں ہمارے پاس ایک بھی انڈور اسٹیڈیم نہیں ہے، جوہر ٹائون ہاکی اسٹیڈیم ایل ڈی اے کی ملکیت ہے، نیشنل ہاکی اسٹیڈیم کا مالک پنجاب اسپورٹس بورڈ ہے۔

ہاکی کو مستقل بنیادوں پر استوار کیا جائے تو آئندہ 2 سے 3 سال میں نتائج آ سکتے ہیں، سیکریٹری پی ایچ ایف نے کہا کہ قمر ابراہیم کے انکار پر خواجہ جنید کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی، ٹیم کے موجودہ کوچ کو تبدیل کر بھی دیا جائے پھر بھی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، غیر ملکی کوچ کی تعیناتی کے حق میں اس لیے بھی نہیں ہوں کیونکہ وہ بھی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہیں لا سکتا، ماضی میں اولٹمینز اور مشعل کو بھاری معاوضوں پر کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی، کیا ان کے آنے سے ہماری ہاکی بہتر ہو گئی؟ ہم جہاں تھے آج10برس گزرنے کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں، شہباز سینئر نے کہا کہ گورا کوچ کبھی بھی پاکستانی ٹیم کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا،4 سال ہالینڈ میں رہا، مشاہدہ کیا کہ گورے کوچ کو صرف اور صرف پیسے سے محبت ہوتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا امریکا، ہالینڈ، آسٹریلیا، جرمنی یا کسی بھی اور ملک کا کوچ ہماری ٹیم کے ساتھ مخلص ہو سکتا ہے۔

سیکریٹری فیڈریشن نے کہاکہ غیر ملکی کوچ کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہوتی جو ٹیموں کو اچھے نتائج دینے میں معاون ثابت ہو سکے، ملائیشیا گذشتہ20 برسوں میں غیرملکی کوچز کی آڑ میں کروڑوں خرچ کر چکا، کیا اسکی ٹیم کوئی ایک بھی بڑا ایونٹ جیت سکی؟ ہمسایہ ملک بھارت نے بھاری معاوضے پر اولٹمینز کی کوچنگ خدمات حاصل کیں، بلو شرٹس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ وہ سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ کے فائنل میں آسٹریلیا کیخلاف ایک بھی گول نہ کر سکے جبکہ ان پر4 گول بن گئے۔

یاد رہے کہ سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے دوران پاکستانی ٹیم نے انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، بھارت اور ملائیشیا سے شکست کے بعد7ٹیموں کے ایونٹ میں بڑی مشکل سے پانچویں پوزیشن ہی حاصل کر سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں