بلاول آپ توانائیاں ضایع نہ کریں
میں یہ بات کئی سالوں سے اپنے کالموں کی نذر کر رہا ہوں کہ یہاں دو ٹولے ہیں
لاہور:
میں یہ بات کئی سالوں سے اپنے کالموں کی نذر کر رہا ہوں کہ یہاں دو ٹولے ہیں جو اپنے مفادات، کاروباراور رشتے داریاں بڑھانے میں مصروف ہیںاور ایک دوسرے کو مشکل وقت میں 'کولیشن سپورٹ ' فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر حبیب جالب کی یاد آجاتی ہے۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
ماضی میں یہ دونوں ایک دوسرے سے کرسی چھین کر حکومت کیا کرتے تھے جب کہ اب مکمل ''تعاون''کی یقین دہانی کے ساتھ حکومت کی جاتی ہے۔ماضی میں یہ جماعتیں دست و گریبان تھیں مگر اب یہ امربیل کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی نظر آتی ہیں۔
دنیا بھر میں اپوزیشن تو حکومت پر پریشر رکھنے کے لیے ہوتی ہے مگر یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔یہاں سسٹم ہی نہیں ہے جس کے بل بوتے پر آپ ان سیاستدانوں سے کوئی امید لگائیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس میں کوئی عار نہیں کہ وہ مستقبل قریب میں طاقتور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں کردار ادا کرے۔ مقصد و منزل اقتدار ہے نہ کہ دولت کی جائز تقسیم۔ وہ پارٹی لد گئی جو کسانوں اور محنت کشوں کی پارٹی تھی۔
یہ وہ پارٹی ہی نہیں جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے چھوڑی۔ یہ تو ایک نئی پارٹی ہے، پاکستان کے ''کامیاب حکمران'' کی پارٹی، جس نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے پر داد لیتے ہوئے پارٹی کی ساکھ، مقبولت، نظریے، عوامیت کو قربان کر دیا۔ ذراغور سے دیکھیں، آصف علی زرداری صاحب کا سفرِ سیاست اور کاروانِ سیاست کے ہمراہی،تو معاملہ سمجھ آجائے گا۔ حالیہ پانامہ لیکس پر احتجاج کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا معاملہ کچھ اور ہے۔ وہ موجودہ تحریک میں اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ہر قیمت پر ڈاکٹر عاصم اور اُن لوگوں کو جو رینجرز کے شکنجے میں آئے ہیں، بچانا چاہتی ہے ۔
اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول سے زرداری تک کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ اس وقت وہ آدھے عمران خان کے ساتھ اور آدھے میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس صورتحال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور یہ پیپلزپارٹی کی حکمت عملی محمد خان جونیجو کے دور سے جاری ہے۔ زرداری اپنے کارکنوں کی منشاء کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ، اسی طرح ن لیگ میں بھی ون مین شو ہے۔ یہ وراثتی پارٹیاں ہیں یا دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے کہ تو یہ ریاستی پارٹیاں ہیں جن کی پارٹیوں کے اندر علیحدہ ریاستیں قائم ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خبر نمایاں تھی کہ بلاول بھٹو نے اپنے والد محترم کو نواز شریف سے لندن میں ملاقات سے روکا ہے۔ حالانکہ جب نوازشریف لندن میں تھے تو ان کا ہوٹل زرداری کی رہائش سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ تو کیا بعید کہ رابطے ہوئے بھی ہوں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آپ کو اپوزیشن جماعتوں میں کہیں پیپلز پارٹی نظر نہیں آئے گی، صرف اس لیے کہ ان کے اپنے مفادات ہیں، اکیلی تحریک انصاف کیا کر سکتی ہے؟ عمران خان تو خود ان لوگوں میں گھرے نظر آتے ہیں جن کی سیاسی ساکھ ہی کچھ نہیں ہے ، علیم خان اور جہانگیر ترین کی وجہ شہرت سیاست نہیں امارت ہے۔ پاکستان کو گزشتہ 69 سال سے سیاست دانوں ، ملٹری اور سول بیوروکریسی نے لوٹا ہے۔ اس وقت پاکستان قومی مالیاتی اداروں کا17 ہزار ارب روپے اور بیرونی مالیاتی اداروں کا تقریباً 80 ارب ڈالر مقروض ہے۔میری ناقص رائے میں اگرکوئی سیاسی لیڈر کرپشن میں ملوث ہوتواس کو ملکی قوانین کے مطابق احتساب کے کٹہرے میں لایاجانا چاہیے۔اگرملکی قوانین یا نظام احتساب موثرنہیں توقوانین کوقابل عمل بنایا جائے۔
لیکن چونکہ بنیادی مقصد ،اقتدارکی بساط پرعوام کے منتخب نمایندوں کوہٹاکر،اپنی مرضی سے ناچنے والی کٹھ پتلیاں لانا مقصود ہوتا ہے ،لہٰذا ہرسیاسی تحریک جلد یابدیر پاپولر لیڈر شپ کوہٹانے کی مہم جوئی بن جاتی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نوازشریف ایسے مقبول رہنماؤں کے بجائے معین قریشی اور شوکت عزیزایسے ایمپورٹڈوزیراعظموں کولایا جاتا ہے۔ کرپشن پھر بھی جاری رہتی ہے۔عوام کی توجہ ،نان ایشوزکی جانب موڑدی جاتی ہے۔چونکہ کرپشن کا خاتمہ تو محض اسموک اسکرین کے طور پر استعمال ہوتاہے۔اصل میں جن سیا ستدانوں اور لیڈروں نے عوام کو ایسے عالم میں متحرک کر نا ہے وہ سارے کے سارے میثاقِ جمہوریت کی آکاس بیل کے شکنجے میں ہیں۔
مزے کی بات یہ کہ سارے کے سارے کرپشن، اقرباء پروری، موروثیت کے حمام میں نہ صرف ننگے ہیں !!!اُن کا ذاتی اور خاندانی نظریہ ہے کہ جمہو ریت عوام کے لیے بہترین انتقام اور ہمارے خاندانوں کے کاروباروں کے لیے بہترین انتظام و انصرام ہے۔ اِ ن سیا سی خاندانوں اور سیا سی قیا دتوں نے غربت ، مہنگا ئی، بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ کی چکی میں عوام کو اتنا پیسا ہے کہ عوام ' پہلے پیٹ پوجا تے فیر کم دوجا ' کے گھمبیر گھن چکروں سے باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ پاکستان کی سیا سی اشرافیہ نے اپنے اپنے خاندانوں کا نام جمہوریت اور جمہوری نظام رکھ لیا ہے۔جب بھی اِن کے خاندانوں کی معا شی، سیا سی اور اخلاقی ٹکے ماری پر کوئی گرفت ہو نے لگتی ہے تورضا ربا نی کی طرح کے اِن کے حواری اور نام نہاد آئین اور جمہوریت کے چیمپئن چیمپئن میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔
جمہوریت خطرے میں ہے!!!پارلیمانی نظام خطرے میں ہے!!!جمہوری سسٹم ڈی ریل ہونے کو ہے!!! کے دلفریب نعرے لگا کر عوام کی مت نکال دیتے ہیں۔ایسے حالات میں میری ہمدردیاں بلاول کے ساتھ ہیں کہ وہ مفاہمتی ''کنگ''کے ہوتے ہوئے اپنی توانائیاں ضایع نہ کریں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ نوجوان ہیں، عوام کے لیے کچھ کر نے کو بے تاب ہیں ، مگر ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ تھوڑا انتظار ۔فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ پیپلز پارٹی صحیح معنوں میں دوبارہ ایک منظم جماعت بن کر سامنے آئے اور کم از کم حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکے۔
آخر میں بلاول کی نذر ایک شعر
ابھار کر مٹائے جا بگاڑ کر بنائے جا
کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا